’’ازبکستان‘‘سنٹرل ایشیا کا وہ اہم خطہ ہے،جس کے برصغیر کے ساتھ روحانی،دینی اور تاریخی روابط ازحد قدیم اور مضبوط ہیں،اس سر زمین پر ورود فرمانے والے،سادات کے اکابر خانوادے ،سر برآوردہ صوفی سلاسل،اور معتبر فاتحین کا تعلق اس سر زمین سے ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اُزبکستان کے حالیہ دورے کے موقع پر،گزشتہ روحانی اور تایرخی روابط کو محفوظ اور مستحکم بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے،تاشقندمیںاپنے قیام کے دوران،ظہیر الدین محمد بابر کی زندگی پر فلم بنانے کا اعلان کیا ہے،یہ اعلان اس لیے اہم نہیں کہ وہ ایک حکمران اور بادشاہ تھا،بلکہ اس میں سبق آموزی اور روشنی کا اہم اور بنیادی حوالہ یہ ہے کہ وہ تاریخ کی ان عظیم شخصیات میں سے نمایاں اور ممتاز تھا،جس نے دنیا کو کانٹوں سے اُلجھ کر زندگی گزارنے کا سلیقہ اور قرینہ بتایا۔برصغیر میں سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھنے والا ظہیر الدین محمد بابر14 فروری1483ء کو اُزبکستان میں پیدا ہوا،وہ منگول حکمران امیر تیمور کی چھَٹی پشت میں سے تھا،اسکا باپ عمر شیخ مرزا،فرغانہ کا ایک خود مختار بادشاہ تھا،جسکو یہ سلطنت اپنے باپ کی طرف سے ورثے میں میسر آئی،جس کا حجم پاکستان کے کسی ضلع سے زیادہ نہ تھا،مزید یہ کہ جب اُس نے اپنے باپ کی مسند سنبھالی تو وہ اپنوں اور بیگانوں کی سازشوں کا شکار ہوا،انہوں نے اس کا منصب چھین لیا،اسے ہزار ہا دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، اُس پر ایسے مواقع بھی آئے ، جب وہ برہنہ سر ہی نہیں۔۔۔برہنہ پا بھی تھا،اس کا جسم چیتھڑوں میں لپٹا ہوا،اور نوکیلی اور کنکریلی زمین پر چلتے چلتے اس کے پائوں لہو لہان ہوئے۔اسکے باوجود ظہیر الدین محمدبابر نے اپنی رفعت و سر بلندی کی عمارت، اپنے وجود کے بل بوتے پر کھڑی کی۔ وہ عظمت و عروج کی شاہراہ پر گامزن ہوا،اور اس راستے میں جو بھی رکاوٹیں آئیں ، ان کا مقابلہ کر کے ، ان کا رُخ موڑ دیا،اُس نے اپنے دشمنوں کو، ایک ایک کر کے زیر کیا ، اور ایک ایسی عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی ، جو کابل و قندھا ر سے لے کر جنوبی ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی اور کم و بیش تین صدیاںاس کا سطوت و عروج قائم رہا۔آج کل’’ارطغرل‘‘ریٹنگ میں کافی اوپر ہے،اس کی پیروی میں فلم یا ڈرامہ موزوں ہے ، لیکن یہ خیال صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ’’یونس امرے‘‘کی طرز پر اِس خطّے کے صوفیأ اور سلاسل طریقت کی بھی عکس بندی ہوسکتی ہے ، کیونکہ وسط ایشیاء کی کہانی اگر آپ اسلامی تہذیب کی زبانی پڑھیں اور سنیں، تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ خطّہ محض سپاہ و سلطنت کے اعتبار ہی سے نہیں بلکہ ہماری روحانی اور دینی سطوتوں کا امین اور علمبردار بھی رہا ہے ۔ ہمارے سلا سلِ طریقت میں بالخصوص نقشبندی سلسلے کے اکابرین کی خانقاہیں بخارا و سمر قند کے گِرد ا گرد آراستہ ہیں، از خود سلسلۂ نقشبند یہ،شاہ ِ نقشبند، حضر ت خواجہ بہا ء ُ الدین نقشبند کی نسبت سے ’’نقشبندی‘‘ ہوا، یہ فارسی لفظ، جس کے معنٰی’’نقاش‘‘کے ہیں،روایت ہے کہ آپ،اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں مٹی کے برتن پکانے پر مامور تھے ، کام بروقت پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا،مرشد کی ناراضگی دا منگیر ہوئی،بھٹّی کے پاس جا بیٹھے،انتہائی جذب اور انہماک سے ذکر الٰہی میں مشغول ہوئے ،جس کے سبب آگ اس قدر تیز ہوگئی کہ برتن فوراًپک گئے،اور مستزاد یہ کہ پھر برتن پر لفظ’’اللہ‘‘نقش تھا،بنا بریں آپ’’نقشبند‘‘معروف ہوئے،اس کی اور بھی تو جیحات مذکور ہیں ، لیکن اہم ترین یہی ہے کہ اس سلسلۂ طریقت کی بنیاد چونکہ’’ذکرِ خفی اور مراقبہ‘‘پر ہے ، اور انہیں دو چیزوں پر اس سلسلے کا انحصار ہے ، اخلاص اور لِلھیّت سے اس نظم کو اپنانے سے ، یہ اسم دل پر نقش ہو جاتا ہے ۔ یوں یہ سلسلۂ تصوّف’’طریقہ نقشبندیہ‘‘سے موسوم اور معتبر ہوا،حضرت سید بہاء ُ الدین نقشبند بخاری اس سلسلے کے ُسرخیل اور آپ ؒ کا مزار’’قصر عارفاں‘‘ بخارا(اُزبکستان)میں مرجع خلائق ہے ۔چیف جسٹس(ر) لاہور ہائی کورٹ انوار الحق،سے چند برس قبل اتفاقاً اس وقت ملاقات ہوئی ، جب وہ ابھی اس منصبِ جلیلہ تک نہیں پہنچے تھے ، امید وارتو ہونگے ، بخار ا سے واپس لوٹے ہی تھے ، اس خانقاہِ مُعلّٰی کے فیوضات اور وہاں حاضری کی باطنی کیفیات، جس طرح انہوں نے بیان کیں، میرے قلب و نظر میں ابھی بھی وہ تازہ ہیں، جج صاحب معروف معنوں میں تو کوئی دینی آدمی نہ ہیں، مگر بعض وصف ان میں منفرد ہیں ، ایک دفعہ کسی غیر ملکی فیملی کے ساتھ داتاؒ دربار حاضر ہوئے ، پھر فرمائش کی کہ یہ لوگ’’کاسہ‘‘یعنی کشکول کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ ہمارے پنجاب میں بہاولپور زون کی سرحد، سندھ کے ان علاقوں تک رابطے کی حامل ہے ، چنانچہ سیہون شریف سے اسکا حصول ممکن ہوا، افتراق و انتشار کے اس دور میں ، آج کل جج صاحب، قاسم علی شاہ فائونڈیشن کے تعاون سے خاندانی بُعد ، ناچاقی اور جھگڑوں کو چکانے کے لیے کوشاں اور’’آئو صلح کریں‘‘کے پلیٹ فارم پر سرگرم ِ عمل ہیں۔ بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا ، اصل تذکرہ توبخارا و سمرقند کا ہے ، جہاں سلسلہ نقشبندیہ کے اکابرین آباد ہیں۔ حضرت بہاء ُ الدین نقشبندبخاری کے خلیفہ اور داماد محمد بن محمد البخاری جو خواجہ علأالدین عطار کے نام سے معروف ہیں، کا مزار’’چغانیاں‘‘اُزبکستان میں مرجع خلائق ہے ۔آپؒ فرمایا کرتے تھے،جو شخص میری قبرکے چالیس فرسنگ کے دائرے میں دفن ہوگیا ، وہ بھی میری نسبت کے فیض سے بہرہ یاب ہوجائے گا ۔ گو یا ایک فرسنگ تقریباً تین میل کے برابر ہے ، باقی حساب آپ خود لگالیں۔ آپؒ کے سلسلے میں آپؒ کے بعد خواجہ یعقوب چرخی کا مزارِ اقدس بلغنور(اُزبکستان) میں ، جبکہ اُن کے خلیفہ، خواجہ عبید اللہ احرار کا آستاں سمر قند میں ہے ،آپؒ کے خلیفہ اور سلسلہ نقشبندیہ کے بیسویں شیخ خواجہ محمد زاہدو خشی کا مزار و خش نزد بخارا، اُزبکستان میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے ۔ ان کے خلیفہ خواجہ درویش محمد بھی ماوراء النہر میں’’استقرار‘‘امی خطّے میں آسودہ ہیں۔ صدیوں قبل جب ریاستوں اور ملکوں کی حدود مختلف تھیں تو یہ سارا علاقہ ماوراء النہر ہی کہلاتا تھا۔ ان کے خلیفہ خواجہ امکنگی،جن سے حضرت خواجہ باقی با للہ نے فیض پایا اور اس سلسلہ کا برصغیر میں ورود ہوا۔خواجہ امکنگی کا مزار بھی’’امکنگ‘‘اُزبکستان ہی میں ہے ۔ خواجہ باقی باللہ سے شیخ احمد سر ہندی، حضرت مجدّد الف ثانی فیض یافتہ ہوئے ، اور یوں یہ سلسلہ نقشبندیہ’’مجددیہ‘‘بن گیا ، سالارِنقشبند خواجہ بہاء ُ الدین نقشبند کے مرشد حضرت سید امیر کلال کا مزارِ اقدس سوخار(اُزبکستان) میں ہے ۔ ان کے شیخ حضرت بابا سماسی کے پیر و مرشد خواجہ علی رامتینی رامتین نزد بخارا(اُزبکستان) ہی میں پیدا ہوئے،اور آپؒ کا آستاں خوارزم،جوکہ بخارا کے نواح میں ہے،مرجع خاص و عام ہے ، اسی طرح اس سلسلے کے دیگر شیوخ خواجہ محمود فغنوی،خواجہ عبد الخالق غجد وانی اور خواجہ عارف ریوگری کے فیضان سے بھی یہ خطّہ منور ہے ۔ ’’ازبکستان‘‘سنٹرل ایشیا کا وہ اہم خطہ ہے،جس کے برصغیر کے ساتھ روحانی،دینی اور تاریخی روابط ازحد قدیم اور مضبوط ہیں،اس سر زمین پر ورود فرمانے والے،سادات کے اکابر خانوادے ،سر برآوردہ صوفی سلاسل،اور معتبر فاتحین کا تعلق اس سر زمین سے ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اُزبکستان کے حالیہ دورے کے موقع پر،گزشتہ روحانی اور تایرخی روابط کو محفوظ اور مستحکم بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے،تاشقندمیںاپنے قیام کے دوران،ظہیر الدین محمد بابر کی زندگی پر فلم بنانے کا اعلان کیا ہے،یہ اعلان اس لیے اہم نہیں کہ وہ ایک حکمران اور بادشاہ تھا،بلکہ اس میں سبق آموزی اور روشنی کا اہم اور بنیادی حوالہ یہ ہے کہ وہ تاریخ کی ان عظیم شخصیات میں سے نمایاں اور ممتاز تھا،جس نے دنیا کو کانٹوں سے اُلجھ کر زندگی گزارنے کا سلیقہ اور قرینہ بتایا۔برصغیر میں سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھنے والا ظہیر الدین محمد بابر14 فروری1483ء کو اُزبکستان میں پیدا ہوا،وہ منگول حکمران امیر تیمور کی چھَٹی پشت میں سے تھا،اسکا باپ عمر شیخ مرزا،فرغانہ کا ایک خود مختار بادشاہ تھا،جسکو یہ سلطنت اپنے باپ کی طرف سے ورثے میں میسر آئی،جس کا حجم پاکستان کے کسی ضلع سے زیادہ نہ تھا،مزید یہ کہ جب اُس نے اپنے باپ کی مسند سنبھالی تو وہ اپنوں اور بیگانوں کی سازشوں کا شکار ہوا،انہوں نے اس کا منصب چھین لیا،اسے ہزار ہا دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، اُس پر ایسے مواقع بھی آئے ، جب وہ برہنہ سر ہی نہیں۔۔۔برہنہ پا بھی تھا،اس کا جسم چیتھڑوں میں لپٹا ہوا،اور نوکیلی اور کنکریلی زمین پر چلتے چلتے اس کے پائوں لہو لہان ہوئے۔اسکے باوجود ظہیر الدین محمدبابر نے اپنی رفعت و سر بلندی کی عمارت، اپنے وجود کے بل بوتے پر کھڑی کی۔ وہ عظمت و عروج کی شاہراہ پر گامزن ہوا،اور اس راستے میں جو بھی رکاوٹیں آئیں ، ان کا مقابلہ کر کے ، ان کا رُخ موڑ دیا،اُس نے اپنے دشمنوں کو، ایک ایک کر کے زیر کیا ، اور ایک ایسی عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی ، جو کابل و قندھا ر سے لے کر جنوبی ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی اور کم و بیش تین صدیاںاس کا سطوت و عروج قائم رہا۔آج کل’’ارطغرل‘‘ریٹنگ میں کافی اوپر ہے،اس کی پیروی میں فلم یا ڈرامہ موزوں ہے ، لیکن یہ خیال صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ’’یونس امرے‘‘کی طرز پر اِس خطّے کے صوفیأ اور سلاسل طریقت کی بھی عکس بندی ہوسکتی ہے ، کیونکہ وسط ایشیاء کی کہانی اگر آپ اسلامی تہذیب کی زبانی پڑھیں اور سنیں، تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ خطّہ محض سپاہ و سلطنت کے اعتبار ہی سے نہیں بلکہ ہماری روحانی اور دینی سطوتوں کا امین اور علمبردار بھی رہا ہے ۔ ہمارے سلا سلِ طریقت میں بالخصوص نقشبندی سلسلے کے اکابرین کی خانقاہیں بخارا و سمر قند کے گِرد ا گرد آراستہ ہیں، از خود سلسلۂ نقشبند یہ،شاہ ِ نقشبند، حضر ت خواجہ بہا ء ُ الدین نقشبند کی نسبت سے ’’نقشبندی‘‘ ہوا، یہ فارسی لفظ، جس کے معنٰی’’نقاش‘‘کے ہیں،روایت ہے کہ آپ،اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں مٹی کے برتن پکانے پر مامور تھے ، کام بروقت پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا،مرشد کی ناراضگی دا منگیر ہوئی،بھٹّی کے پاس جا بیٹھے،انتہائی جذب اور انہماک سے ذکر الٰہی میں مشغول ہوئے ،جس کے سبب آگ اس قدر تیز ہوگئی کہ برتن فوراًپک گئے،اور مستزاد یہ کہ پھر برتن پر لفظ’’اللہ‘‘نقش تھا،بنا بریں آپ’’نقشبند‘‘معروف ہوئے،اس کی اور بھی تو جیحات مذکور ہیں ، لیکن اہم ترین یہی ہے کہ اس سلسلۂ طریقت کی بنیاد چونکہ’’ذکرِ خفی اور مراقبہ‘‘پر ہے ، اور انہیں دو چیزوں پر اس سلسلے کا انحصار ہے ، اخلاص اور لِلھیّت سے اس نظم کو اپنانے سے ، یہ اسم دل پر نقش ہو جاتا ہے ۔ یوں یہ سلسلۂ تصوّف’’طریقہ نقشبندیہ‘‘سے موسوم اور معتبر ہوا،حضرت سید بہاء ُ الدین نقشبند بخاری اس سلسلے کے ُسرخیل اور آپ ؒ کا مزار’’قصر عارفاں‘‘ بخارا(اُزبکستان)میں مرجع خلائق ہے ۔چیف جسٹس(ر) لاہور ہائی کورٹ انوار الحق،سے چند برس قبل اتفاقاً اس وقت ملاقات ہوئی ، جب وہ ابھی اس منصبِ جلیلہ تک نہیں پہنچے تھے ، امید وارتو ہونگے ، بخار ا سے واپس لوٹے ہی تھے ، اس خانقاہِ مُعلّٰی کے فیوضات اور وہاں حاضری کی باطنی کیفیات، جس طرح انہوں نے بیان کیں، میرے قلب و نظر میں ابھی بھی وہ تازہ ہیں، جج صاحب معروف معنوں میں تو کوئی دینی آدمی نہ ہیں، مگر بعض وصف ان میں منفرد ہیں ، ایک دفعہ کسی غیر ملکی فیملی کے ساتھ داتاؒ دربار حاضر ہوئے ، پھر فرمائش کی کہ یہ لوگ’’کاسہ‘‘یعنی کشکول کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ ہمارے پنجاب میں بہاولپور زون کی سرحد، سندھ کے ان علاقوں تک رابطے کی حامل ہے ، چنانچہ سیہون شریف سے اسکا حصول ممکن ہوا، افتراق و انتشار کے اس دور میں ، آج کل جج صاحب، قاسم علی شاہ فائونڈیشن کے تعاون سے خاندانی بُعد ، ناچاقی اور جھگڑوں کو چکانے کے لیے کوشاں اور’’آئو صلح کریں‘‘کے پلیٹ فارم پر سرگرم ِ عمل ہیں۔ بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا ، اصل تذکرہ توبخارا و سمرقند کا ہے ، جہاں سلسلہ نقشبندیہ کے اکابرین آباد ہیں۔ حضرت بہاء ُ الدین نقشبندبخاری کے خلیفہ اور داماد محمد بن محمد البخاری جو خواجہ علأالدین عطار کے نام سے معروف ہیں، کا مزار’’چغانیاں‘‘اُزبکستان میں مرجع خلائق ہے ۔آپؒ فرمایا کرتے تھے،جو شخص میری قبرکے چالیس فرسنگ کے دائرے میں دفن ہوگیا ، وہ بھی میری نسبت کے فیض سے بہرہ یاب ہوجائے گا ۔ گو یا ایک فرسنگ تقریباً تین میل کے برابر ہے ، باقی حساب آپ خود لگالیں۔ آپؒ کے سلسلے میں آپؒ کے بعد خواجہ یعقوب چرخی کا مزارِ اقدس بلغنور(اُزبکستان) میں ، جبکہ اُن کے خلیفہ، خواجہ عبید اللہ احرار کا آستاں سمر قند میں ہے ،آپؒ کے خلیفہ اور سلسلہ نقشبندیہ کے بیسویں شیخ خواجہ محمد زاہدو خشی کا مزار و خش نزد بخارا، اُزبکستان میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے ۔ ان کے خلیفہ خواجہ درویش محمد بھی ماوراء النہر میں’’استقرار‘‘امی خطّے میں آسودہ ہیں۔ صدیوں قبل جب ریاستوں اور ملکوں کی حدود مختلف تھیں تو یہ سارا علاقہ ماوراء النہر ہی کہلاتا تھا۔ ان کے خلیفہ خواجہ امکنگی،جن سے حضرت خواجہ باقی با للہ نے فیض پایا اور اس سلسلہ کا برصغیر میں ورود ہوا۔خواجہ امکنگی کا مزار بھی’’امکنگ‘‘اُزبکستان ہی میں ہے ۔ خواجہ باقی باللہ سے شیخ احمد سر ہندی، حضرت مجدّد الف ثانی فیض یافتہ ہوئے ، اور یوں یہ سلسلہ نقشبندیہ’’مجددیہ‘‘بن گیا ، سالارِنقشبند خواجہ بہاء ُ الدین نقشبند کے مرشد حضرت سید امیر کلال کا مزارِ اقدس سوخار(اُزبکستان) میں ہے ۔ ان کے شیخ حضرت بابا سماسی کے پیر و مرشد خواجہ علی رامتینی رامتین نزد بخارا(اُزبکستان) ہی میں پیدا ہوئے،اور آپؒ کا آستاں خوارزم،جوکہ بخارا کے نواح میں ہے،مرجع خاص و عام ہے ، اسی طرح اس سلسلے کے دیگر شیوخ خواجہ محمود فغنوی،خواجہ عبد الخالق غجد وانی اور خواجہ عارف ریوگری کے فیضان سے بھی یہ خطّہ منور ہے ۔