اب تو وہ سڑک کھل گئی ہے۔ اب تو مقتولین کی قبروں کی مٹی بھی سوکھ چکی ہے۔ مگر 18یتیم بچوں اورپانچ بیوہ عورتوں کے آنسو ابھی تک خشک نہیں ہوئے۔ یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔ اس سانحے کے سلسلے میں نہ صرف سوشل بلکہ سندھ کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی مذمتوں کا طوفان مچل رہا تھا۔ سندھ کی اہم شاہراہ پر دو دنوں تک ان پانچ کسانوں کی لاشوںکے ساتھ دھرنا جاری تھا جنہیںقتل کیا گیا تھا۔ قتل کو کوئی بھی اچھی بات نہیں کہہ سکتا۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے موجودہ سربراہ آصف زرداری کے آبائی شہر نواب شاہ میں دن دہاڑے بھنڈ قبیلے کے کسانوں کو ان کی زمین پر زرداری قبیلے کے لوگوں نے خودکار ہتھیاروں سے قتل کردیا۔ وہ متنازعہ زمین کا معاملہ تھا۔ اس زمین کے متعلق فیصلہ ہوچکا تھا۔ فیصلے کا اعلان ابھی باقی تھا۔اس دوران زرداری قبیلے کے لوگ زمین پر کھڑی فصل کاٹنے آئے اور جب بھنڈ قبیلے کے لوگوں نے انہیں روکا توانہوں نے ان پر ہتھیاروں کے منہ کھول دیے ۔ گولیوں کانشانہ بننے والے کسان اپنی زمین پر تڑپ رہے تھے ۔ ان کی ویڈیوز ریکارڈ کی جا رہی تھیں اور طاقتوروں کی پشت پناہی کی وجہ سے قاتل بے خوف گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے۔ یہ بہت بڑا ظلم تھا اور یہ ظلم بھی دفن ہو جاتا مگر نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے جی ایم سید کے پوتے اور پارلیمانی طرز کی قوم پرست سیاست کرنے والے نوجوان زین شاہ آگے آئے اور انہوں نے نواب شاہ سے گزرنے والی اہم سڑک پر دھرنا دیا اور دو دنوں تک احتجاجی لوگ سرد راتوں میں قتل ہونے والے کسانوں کی لاشوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھے رہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ جب تک کسانوں کے قاتل گرفتار نہیں ہوتے تب تک وہ مقتول کسانوںکی لاشوںکو دفن نہیں کرینگے۔ سندھ حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر احتجاج کرنے والے ان کے دباؤ میں نہ آئے۔ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ تھا۔ایک طرف پیپلز پارٹی کسانوں کے حقوق کے لیے ٹریکٹر ٹرالیوں کے ساتھ ریلیاں نکالنے میں مصروف تھی اور دوسری طرف سندھ کے کسان قتل ہو رہے تھے اور ان کو قتل کرنے والے زرداری قبیلے کے وہ لوگ تھے جن کے سندھ حکومت کے ساتھ قریبی مراسم تھے۔ ایک طرف سڑک پر احتجاج جاری تھے اور دوسری طرف میڈیا میں وہ تصاویر وائرل ہو رہی تھیں جو مبینہ طور پر قتل کرنے والے افراد کی حکومتی شخصیات کے ساتھ تھیں،سندھ کو اپنا غصہ نکالنے کا موقع مل گیا۔ سندھ میں طوفانی مخالفت کو دیکھ کر حکمران جماعت بہت گھبرا گئی اور اس نے مقتولین کے ورثاء کے ساتھ مذاکرات شروع کیے۔ ان مذاکرات میں افسوسناک بات یہ تھی کہ حکومت سندھ مقتول کسانوں کے ورثاء کی مرضی پر ایف آئی آر بھی داخل نہیں کر رہی تھی۔ اس بات پرپورا سندھ سراپا احتجاج تھا ۔ پیپلز پارٹی کے مخالفین تواس عمل کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے مگر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے شریف اور حساس لوگ اس واقعے کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو پہلی بار محسوس ہوا کہ سندھ کے عوام کے سینے میں ان کے لیے کیسے جذبات ہیں؟ پیپلزپارٹی کی قیادت اس وقت محسوس کرنے لگی کہ اہلیان سندھ ان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں اور ان کی طرز حکمرانی کو کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ ایک شخصیت کے لیے پورے سندھ میںمشہور ہے کہ ہر زرخیز زمین اورہر بڑی جائیداد وہ ملکیت میں لینا چاہتی ہے۔ ویسے توپورے ملک کو پتہ ہے کہ کس کے پاس اتنی دولت ہے جس کی مکمل تفصیل خود ان کو بھی معلوم نہیں ہے۔ صحافی حضرات جانتے ہیں کہ مال و دولت کی ہوس کاپیٹ بہت بڑا ہوتاہے اور وہ کبھی بھرنے کا نام نہیں لیتا۔ دولت کمانے کی خواہش سب میں ہوتی ہے مگر کس میں جائیداد بڑھانے کا جنون ہے ۔ اس وقت جس طرح پیپلز پارٹی کی شہرت اور عوامی حمایت کاگراف نیچے گرتا جا رہا ہے اس کا سبب مال بنانے کی ہوس ہے۔ پیپلز پارٹی کے پرانے اور سینئر رہنما اپنی نجی محفلوں میں سر عام کہتے ہیں کہ پارٹی بیچ کر مال کمایا جارہا ہے۔ سیاست صرف اور صرف ایک بزنس ہے۔ وہ ہر چیز کو نفع نقصان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اب تک جمہوریت کی بات اس انداز سے کرتی ہے جیسے جمہوریت کا جنم ہی اس لیے ہوا تھا کہ پیپلز پارٹی اس کو اپنے انداز میں پیش کر پائے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے لوگوں میں بہت غصہ ہے۔ ان حالات میں نواب شاہ کے کسانوں کا قتل جلتی آگ پر پڑنے والے تیل کا کام کرنے لگا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وقت سندھ ان کی سیفٹی بوٹ ہے۔اگر انہوں اس کشتی کو بھی ڈبو دیا تو پھر ان کے پاس کیا بچے گا؟ نواب شاہ میں ہونے والا کسانوں کا قتل عام پیپلز پارٹی کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہونے لگا تھا۔ سندھ میں سب لوگ پوچھ رہے تھے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جو کسانوں کو قتل کر رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو شدت سے محسوس ہونے لگا کہ نواب شاہ میں لگنے والی آگ کے شعلے سندھ میں شدید ہو رہے ہیں اور اب ان کی تپش پورے ملک میں پہنچ رہی ہے اس لیے پیپلز پارٹی کی حکومت مقتول کسانوں کے ورثاء کی مرضی پر ایف آئی آر داخل کرنے پر راضی ہوئی اور اس نے زمین پر قبضہ بھی ختم کروایا۔اس طرح دو دنوں تک سڑک پر رکھی ہوئی کسانوںکی لاشوں کو سپرد خاک کیا گیا اور اب توان کی قبروں کی مٹی بھی سوکھ چکی ہے مگر مقتولین کے ورثاء کی آنکھیں اب تک بھیگی ہوئی ہیں۔