عزیزم محمود الحسن کو اللہ تعالیٰ خوش رکھے‘قابل مطالعہ کتابوں کی کھوج کرتے اور مجھے لا دیتے ہیں کہ ذوق مطالعہ کی تسکین کر سکوں‘نجیبہ عارف کی کتاب ’’راگنی کی کھوج‘‘ انہی میں سے ایک جسے پڑھتے ہوئے میں نے خوش ذوق قارئین کو شریک مطالعہ کرنا مناسب سمجھا‘کتاب بنیادی طور پر نجیبہ عارف کے روحانی تجربات کا نچوڑ ہے اور مصنفہ کے مرشد عبیداللہ خان درانی ؒکے علمی‘اخلاقی اور صوفیانہ کمالات کا تذکرہ‘ لکھتی ہیں ’’روبینہ باجی ‘آپ بابا جان سے کب‘کیسے اور کیوں ملی تھیں؟‘‘ ’’وہ اس طرح کہ ہمیں اچانک پشاور جانا پڑ گیا تھا۔ہم لاہور میں رہتے تھے اور بڑے ویل سیٹلڈ اور مطمئن تھے ۔ہمیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔اچانک امتیاز کے والد کو فالج ہو گیا۔ان کی والدہ فوت ہو چکی تھیں اور گھر پر پرانے ملازم بھی نہیں رہے تھے۔میرے سسر کے ساتھ میری ایک نند رہتی تھیں جو ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے معذور تھیں۔امتیاز نے کہا کہ میں سولہ سال کی عمر سے گھر سے باہرہوں۔سات آٹھ سال یورپ رہا۔صرف چھٹیوں میں گھر آتا تھا۔تو اب جب میرا باپ بیمار ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اس وقت ان کے پاس نہ جائوں اور جب انہیں کچھ ہو جائے تو جائیداد لینے کے لئے پہنچ جائوں۔یہ تو بڑی شرم کی بات ہے اور یوں تھا کہ میرے سسر کسی کے گھر نہیں جاتے تھے۔وہ کہتے تھے :اگر کسی نے میرے لئے کچھ کرنا ہے تو میرے پاس آ کر کرے‘ ہمارے ہاں جب بچے بھی پیدا ہوتے تھے تو ہم خود انہیں لے کر آغا جی کے پاس جاتے تھے‘وہ بچوں کو دیکھنے بھی ہمارے گھر نہیں آتے تھے۔تو ایک مہینے کے اندر اندر ہم سب کچھ بند کر کے پشاور پہنچ گئے۔‘‘ ’’اس وقت امتیاز بھائی کیا کرتے تھے لاہور میں؟‘‘میں نے پوچھا۔ ’’انجینئرنگ کمپنی تھی ہماری۔ماشاء اللہ بہت اچھا کام چل رہا تھا اور امتیاز سوچ رہے تھے کہ اس کا دائرہ بڑھا کر مڈل ایسٹ تک لے جائیں۔لیکن اس کی جگہ ہم پشاور پہنچ گئے۔جب ہم پشاور پہنچے تو آغا جی کو یقین نہیں آتا تھا کہ ساری عمر جو لڑکا باہر رہا وہ پشاور کیسے آ گیا ہے۔وہ اتنے خوش ہوئے کہ ان کی بیماری کا زور ٹوٹنے لگا۔ڈاکٹروں نے کہا تھا وہ چھ مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہیں گے‘لیکن وہ اتنے بہتر ہو گئے کہ اس کے بعد کئی برسوں تک زندہ رہے۔ان کا فالج بھی بہتر ہو گیا اور وہ کچھ نہ کچھ چلنے پھرنے بھی لگے۔اچھا‘امتیاز پر اللہ کا ایک بڑا کرم رہا ہے کہ انہیں بہت بڑے بڑے پراجیکٹ ملے لیکن کبھی رشوت لینے یا دینے کی نوبت نہیں آئی۔ان دنوں رشوت کے بغیر بھی صرف میرٹ پر کام ہو جایا کرتا تھا۔ابھی لوگوں میں ایمانداری باقی تھی۔‘‘ ’’یہ کس زمانے کی بات ہے؟‘‘ میں حیران ہوئی۔ ’’یہ ستر کی دہائی کی بات ہے۔بھٹو کو نیا نیا اقتدار ملا تھا اور بھٹو کی پالیسی تھی کہ اگر اپنے انجینئر اچھے اور لائق ہوں‘جو مطلوبہ قابلیت اور تجربہ رکھتے ہوں‘ تو وہ پراجیکٹ جو ہم غیر ملکیوں کو دے دیتے ہیں اور وہ اتنا زیادہ فارن ایکسچینج لے جاتے ہیں‘اپنے نوجوانوں کو دیے جائیں تاکہ زرمبادلہ بھی بچے اور اپنے لوگ بھی فائدہ اٹھائیں۔دوسرا یہ کہ بھٹو جیسا بھی تھا‘اس میں یہ عقل ضرور تھی کہ وہ لوگوں کو پہچان لیتا تھا۔وہ ذہین تھا‘سمجھ جاتا تھا کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے اور جو کہہ رہا ہے وہ کر بھی سکتا ہے یا نہیں؟اس کے وزیروں کی جو ٹیم تھی اس میں بھی بڑے دیانت دار لوگ تھے۔جے اے رحیم تھے‘ حفیظ پیرزادہ تھے‘ رفیع رضا تھے‘ جتوئی تھے‘ ڈاکٹر مبشر حسن تھے۔ان میں اور نقص ہوں گے‘میں نہیں کہتی وہ پرفیکٹ تھے لیکن وہ چور نہیں تھے نہ بھٹو نے کبھی ان کو اس معاملے میں اینکریج کیا تھا۔وہ ملک کے مسائل حل کرنا چاہتے تھے۔اس وقت پاکستان واقعی مسائل میں گھرا ہوا تھا۔کئی آرگنائزیشنل مسائل تھے‘نئے نظام متعارف کرانے تھے‘پرانی قباحتوں کو دور کرنا تھا‘بہت کچھ کرنا تھا۔پھر بھٹو کا اپنا ایمبشن بھی تھا کہ وہ ورلڈ لیڈر بن کے دنیا کو لیڈ کرنا چاہتا تھا جس کی وجہ سے سپر پاورز اس کے خلاف ہو گئی تھیں۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان سے کوئی ورلڈ لیڈر اٹھے اور مسلم دنیا کو متحد کرنے کاسوچے بھی۔وہ تو صدیوں سے ہماری کمزوری اور نفاق سے فائدہ اٹھا رہے تھے‘وہ یہ سب کیسے ہونے دیتے؟لیکن ان سب مسائل کے باوجود پاکستان میں چوری کا مسئلہ اتنا عام نہیں تھا۔دیانت داری سے بھی کام ہو جایا کرتے تھے۔تو امتیاز نے ایک بہت بڑا پراجیکٹ bidکیا تھا۔لاہور سے لے کر برہان تک 220کے وی لائن بچھانی تھی اور برہان کا پاور سٹیشن بھی خود بنانا تھا۔امتیاز کے پرپوزل کو واپڈا کے ایک ممبر قریشی صاحب نے جانچا پرکھا تھا۔وہ ہمیں بالکل نہیں جانتے تھے لیکن بہت ایمان دار اور مذہبی ‘پرہیز گار انسان تھے۔مجھے ان کا پورا نام بھی یاد نہیں ہے۔انہوں نے امتیاز کو کہا:شخصی اعتبار سے تو میں تمہیں پسند نہیں کرتا کیونکہ تم شرعی احکام پر عمل پیرا نہیں ہو۔مغربی لباس پہنتے ہو اور مغربی طور طریقے اپنائے ہوئے ہو۔لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ تم قابل ہو‘یہ کام کر لو گے اور تمہارے ریٹ بھی مناسب ہیں‘لہٰذا میں یہ پراجیکٹ تمہیں دیتا ہوں۔‘‘ ’’ارے !کیسے کیسے لوگ تھے پاکستان میں؟‘‘ میری حیرت اور بڑھ گئی۔ ’’ہاں‘ اور افسوس‘مجھے ان کا پورا نام بھی یاد نہیں۔اس پراجیکٹ کے لئے کئی فارن کمپنیوں نے بھی درخواست دے رکھی تھی۔امریکی ‘کینیڈین اور پتا نہیں کون کون سی کمپنیاں تھیں اور یہ لوگ لے جایا کرتے تھے ہمیشہ یہ پراجیکٹ۔لیکن اللہ کے کرم سے یہ پراجیکٹ امتیا نے بہت عمدگی سے مکمل کیا۔انہوں نے سو کے قریب تازہ فارغ التحصیل انجینئر رکھے؛ ان کی تربیت کی اور ہر روز کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے انہیں مینوئل بنا کر دیے تاکہ کام کی کوالٹی مسلسل برقرار رہے۔تو وہ سو لڑکے جنہیں امتیاز نے ملازمت دی اور کام سکھایا تھا وہ اس قدر پرجوش اور ذہین تھے کہ ان میں سے ہر ایک بعد میں کسی نہ کسی کمپنی کا سی ای او بنا۔ملک میں اور بیرون ملک انہوں نے کئی کارنامے سرانجام دیے۔یہ پراجیکٹ اتنا کامیاب ہوا کہ بعد میں آسڑیا سے ایک کمپنی آئی‘ جو تیسری دنیا کے ممالک کے پراجیکٹس کے معیار کا جائزہ لے رہی تھی؛وہ انڈیا‘ایران اور نجانے کہاں کہاں کے پراجیکٹ دیکھ کر آئی تھی لیکن اس نے امتیاز کے اس پراجیکٹ کو پہلے نمبر پر رکھا اور اسے بہترین قرار دیا تھا۔یہ سب لوگ بہت خوش اور پرجوش تھے اور پروگرام بنا رہے تھے کہ ہم مڈل ایسٹ سے بھی پراجیکٹ لے آئیں۔لیکن بدقسمتی سے ملک میں حالات بدل گئے‘بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور ضیاء الحق حکومت پر قابض ہو گیا۔اب قریشی جیسے لوگ تو پیچھے رہ گئے اور واپڈا کا سربراہ ایک ریٹائرڈ جنرل مقرر ہو گیا۔اس نے امتیاز کو بلایا اور پہلے تو ان کی خوب تعریفیں کیں اور پھر کہا:میں اور تم اگر مل جائیں تو میں تمہیں سب سے بڑی کمپنی بنا دوں گا‘واپڈا ان دنوں بہت عظیم ادارہ ہوا کرتا تھا اور واپڈا کا بجٹ پاکستان کے بجٹ سے بھی بڑا ہوتا تھا۔یہ بہت بڑے بڑے پراجیکٹ دیا کرتا تھا۔اس نے امتیاز سے کہا:میں تمہیں پراجیکٹ دوں گا لیکن تمہیں وہ کرنا ہے جو میں کہوں گا۔امتیاز اس کی نیت سمجھ گئے اور انہوں نے صاف انکار کر دیا‘انہوں نے کہا:ایک ڈاکٹر اپنے مریض کو کیسے مار سکتا ہے؟میں ایک کنسلٹنٹ ہوں اور انجینئرنگ کی خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی میرا کام ہے‘میں کیسے کسی اور کے کہنے پر خاموش رہ سکتا ہوں۔یہ سن کر اسے اتنا غصہ آیا کہ اس نے میز پر مکا مارکر کہا:میں تمہارا رزق بند کر دوں گا۔امتیاز نے بڑے آرام سے کہا:میرا رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے ‘وہ بند کر دے تو تم کھول نہیں سکتے اور اگر وہ بند نہ کرنا چاہے تو کوئی اور یہ کام نہیں کر سکتا‘اس کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی‘کہنے لگا۔میں تمہیں جیل بھجوا دوں گا۔کم از کم ایک رات تو تم ضرور جیل رہو گے۔تمہاری ساری اکڑ نکل جائے گی۔بس اس کے بعد تو وہ ہمارے پیچھے پڑ گیا۔ہماری ادائیگیاں روک لیں۔ہمارے منصوبے بند کر دیے۔امتیاز پر کیس بنانے کی کوشش کی۔یہ معاملہ سالہا سال چلتا رہا۔اب ہمارا کیس سپریم کورٹ تک پہنچا ہوا ہے۔ابھی تک واپڈا کے ذمے ہمارے پیسے نکلتے ہیں۔ذرا تصور کرو۔لیکن اللہ کے کرم سے یہ شخص ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکا۔امتیاز کو جیل بھجوانے کی اس نے بہت کوشش کی۔جنرل ضیاء تک پہنچا اور کہا یہ بھٹو کا آدمی ہے۔لیکن ہر جگہ سے اسے یہی جواب ملا کہ ہم کیا کریں؟اس نے ایک پیسے کی بھی بے ایمانی نہیں کی۔ہم اسے کیسے پکڑیں؟نجیبہ!جو ہمارے ساتھ ہوا وہ ہمارے ملک کے ساتھ بھی ہوا۔یہ صرف ہمارا ذاتی مسئلہ نہیں تھا‘یہ ہمارے ملک کا بھی مسئلہ تھا۔‘‘(جاری ہے)