بھارت کی عالمی سطح پر ایک اور پسپائی ہوئی ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں ہونے والا اجلاس کوشش کے باوجود نہ روک سکا۔پندرہ میں سے سلامتی کونسل کے چودہ ممبران نے بحث میں حصہ لیا اور بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو مسترد کر دیا۔دوسری جانب بھارت نے کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں گائوں فتح پور کی 18سالہ لڑکی شہید اور خواتین و بچوں سمیت 6افراد زخمی ہو گئے۔ پوری پاکستانی قوم نے یوم استحصال میں شریک ہو کر مودی سرکار کے 5اگست 2019ء کے اقدام کی بھر پور انداز میں مذمت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی عوام اور کشمیری یک جاں دو قالب ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑا‘ اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا طویل محاصرہ ختم کرانے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے چودہ ممبران نے بھارتی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل بھی عالمی برادری بھارت پر زور دے چکی ہے کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ ایک سال کے دوران پاکستان نے سلامتی کونسل ‘ یورپی یونین‘ او آئی سی سمیت تمام نمائندہ عالمی اور علاقائی فورمز پر کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کیا۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں پاکستان کے ہائی کمشنر اور سفارتخانوں نے بھارتی مظالم سے اقوام عالم کو آگاہ کیا۔سفارتخانوں میں تصویری نمائشیں منعقد کر کے بھارتی بربریت بارے دنیا کو بتایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار نے پاکستان کی متحرک خارجہ پالیسی سے زچ ہو کر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا ۔جس کا مقصد پاکستان کی جارحانہ خارجہ پالیسی کو روکنا تھا ۔ رواں برس بھارت 1877مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ گزشتہ روز جب پوری عالمی برادری مقبوضہ کشمیر کے محصورین سے اظہار یکجہتی کر رہی تھی، بھارت نے ایک بار پھر لائن آف کنٹرول پر اندھا دھند فائرنگ کر کے 18سالہ لڑکی کو شہید ،خواتین اور بچوں سمیت 6افراد کو زخمی کر دیا ہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ افغان سرزمین سے بھی پاک فوج کی چوکیوں پر فائرنگ کر کے حالات کشیدہ کئے گئے۔ 5اگست 2019ء کو مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تھی، ایک برس کے بعد مودی نے اسی دن مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا آغاز کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ آر ایس ایس کے نظریے پر کاربند ہے۔ مودی سرکار نے سابق چیف جسٹس آف انڈیا کو لالچ دے کر بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرانے کا فیصلہ لیا تھا۔ بعداز ریٹائرمنٹ چیف جسٹس کو مخصوص نشست پر اسمبلی میں پہنچایا گیا۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے گجرات ماڈل دہلی میں دہرایا گیا اور امریکی صدر ٹرمپ کی بھارت آمد پر دہلی میں بے گناہوں کا قتل عام کیا گیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی ‘ مذہبی منافرت ‘ علاقائی امن کے لئے خطرہ ہے کیونکہ اس وقت انتہا پسند مودی بھارت سے اسلامی ورثے کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ انصاف کا قتل عام کر کے مودی کی دست و بازو بن چکی ہے۔ ان حالات میں عالمی برادری کو بھارت میں اسلامی ورثے، اقلیتوں‘ خصوصاً مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے کردار ادا کرتے ہوئے مودی کی انتہا پسندی کے سامنے بند باندھنا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ بھارت ابھی تک اقوام متحدہ کی جانب سے لکھے گئے خطوط کا جواب نہیں دے رہا جن میں کہا گیا ہے کہ وہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے بتائے۔ بھارت نے کئی برسوں سے کشمیری عوام کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔وادی میں کرفیو سے لوگوں کی آزادی سلب ہو چکی ہے اگر وہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندوں کو ہی ویزے جاری نہیں کر رہا تو پھر عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ بھارتی حکومت پر دبائو ڈال کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جائے۔ اب تو بھارتی دانشور بھی مودی کے اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ ارون دھتی کے بعد پروفیسر اشوک سوائن نے بھی کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے بھارت کے سیکولر جمہوریت کے تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے اور بھارت کی جابرانہ پالیسیوں سے کشمیریوں میں نفرت بڑھی ہے۔ آج پوری دنیا اس بات کی معترف ہے کہ بھارت کے خلاف پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے جو اقدامات کئے ہیں اس سے مودی کی سیاست کو نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان نے شروع میں ہی بہتر حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے خارجہ محاذ پر اچھے کام کئے ہیں جس کے باعث مسئلہ کشمیر دنیا بھر میں اجاگر ہو چکا ہے۔ حکومت اگر اسی پالیسی پر گامزن رہ کر کام کرتی رہی تو اس سے کشمیریوں کی مشکلات میں کمی ہوگی اور پاکستان اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گا۔