وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر آزادکشمیر کے حکام وفاقی حکومت کے تعاون اور اشتراک سے ان دنوں مسلسل پانچ سو ارب روپے کے ایک خصوصی اقتصادی پیکیج کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔امکان ہے کہ جلد ہی وزیراعظم عمران خان خود اس پیکیج کے خدوخال کسی تقریب میں بیان کریں گے۔حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان آزادکشمیر کی معاشی پسماندگی دور کرنے اور اسے ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کیلئے اسٹیٹ آف دی آرٹ انفراسٹرکچر فراہم کرنے کے لیے غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔انہوں نے گزشتہ تین ماہ میں وزیراعظم آزادکشمیر سردار عبدالقیوم نیازی،ان کی ٹیم اور وفاقی حکومت کے حکام کیساتھ پانچ اجلاس کیے ہیں۔ آزادکشمیر کی ترقی سے ان کی گہری دلچسپی کا اندازہ اس سے بخوبی کیا جاسکتاہے۔ وزیراعظم عمران خان کو احساس ہے کہ آزادکشمیر کا انتظامی ڈھانچہ تو بہت وسیع وعریض ہے لیکن پیداوار کے کم ذرائع،روزگار کے محدود مواقع اور جدید انفرسڑکچر کی کمیابی کے باعث یہ خطہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے مابعدوزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ ایسے منصوبوں کی نشان دہی کی جائے جوآزادکشمیر کا معاشی نقشہ بدل سکیںاورمقامی سطح پر روزگار کے مواقعے پیدا ہوں۔اس پس منظر میں گزشتہ تین ماہ کی محنت اور ریاضت کے بعد جو بڑے بڑے منصوبے سامنے آئے ہیں ان کے مطابق آمدورفت اور رسل وسائل کی سہولتوں کو بہتر بنانے کی خاطر آزادکشمیر کے اندر تین بڑے ٹل بنانے کے منصوبے کو حتمی شکل دینے پر تیزی سے کام جاری ہے۔تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے:12.68کلو میڑ طویل شونٹر ۔رتو ٹنل وادی نیلم کو استور سے ملائے گا۔ شونٹر ایک گاؤں کا نام ہے جو وادی نیلم کو گلگت بلتستان کے ضلع استور سے ملاتاہے۔اس ٹنل کا اصل فائدہ تو گلگت بلتستان والوں کو ملے گا کیونکہ ان کی اسلام آباد سے پانچ گھنٹے کی مسافت کم ہوگی ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے بھی متبادل روٹ دستیاب ہوجائے گا۔ جو مظفرآباد ڈویژن کو سی پیک سے منسلک کردے گا۔فطری طو رپر نیلم اور مظفرآباد میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا ۔لائن آف کنٹرول پر واقع وادی لیپہ اپنے قدرتی حسن اور فطری دلکشی کی وجہ سے سیاحوں کی ہمیشہ توجہ کا مرکز رہی ہے ۔ افسوس! گزشتہ سات دہائیوں سے لیپہ کی طرف جانے والے تینوں راستے سردیوں کے موسم میں شدید برف باری کی وجہ سے بند رہتے ہیں۔ ہزاروں لوگ چھ ماہ تک دنیا ومافیہا سے کٹ جاتے ہیں۔ اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر لوگ برف پوش راہداریوں سے گزر کر مظفرآباد علاج معالجے یا روزگار کے لیے پہنچتے ہیں۔ نتیجتاً راستے میں کئی لوگ جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ لیپہ والوں کے مطالبہ کے پیش نظر پانچ سو ارب روپے کے پیکیج میں 3.8کلومیٹر ٹنل کی تعمیر بھی شامل کردی گئی ہے ۔ تیسرا منصوبہ تین کلو میڑ طویل لوہار گلی ٹنل کا ہے۔ اس ٹنل کی تعمیر سے مظفرآباد کا مانسہرہ موٹر وے کے ساتھ رابط آسان اور فاصلہ کم ہوجائے گا۔ان تینوں ٹنلز کے ساتھ اعلیٰ معیار کی رابطہ سڑکیں بھی بننی ہیں۔ جو پورے علاقے کی قدر وقیمت میں حیرت انگیز اضافے کا باعث ہوں گی۔140کلو میڑ طویل کشمیر ہائی وے بھی ان منصوبوں میں سے ایک بڑا منصوبہ ہے۔ اس ہائی وے کی تعمیر سے آزادکشمیر کے تینوں ڈویژن باہم مربوط ہوجائیں گے۔اندرون آزادکشمیر سفر کی سہولت بہتر ہوجائے گی۔خاص طورپر میرپوراور مظفرآباد ڈویژن کے درمیان تجارت اور سفر سہل ہوجائے گا۔ مظفرآباد، راولاکوٹ، کوٹلی اور میرپور میں پینے کے صاف پانی اور سیوریج کے مسائل گزشتہ کئی دہائیوں سے حل طلب ہیں۔ اس پیکیج میں ان مسائل کے حل کے لیے کافی بڑا بجٹ مختص کیا جارہاہے۔ ان شہروں میں پارکنگ پلازے نہ ہونے کی وجہ سے راہ گیروں کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتابلکہ ٹریفک سست روی کا شکارہو جاتی ہے۔ لہٰذا ان شہروں میں بڑے پارکنگ پلازہ تعمیر کرنے کے منصوبے بھی اس پیکیج میں شامل ہیں۔آزادکشمیر کے بڑے شہروں میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ یعنی کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ۔ خصوصی پیکیج میں اس حوالے سے بھی کئی ایک منصوبے شامل ہیں تاکہ روزانہ ہزاروں ٹن جمع ہونے والے کچرے کو ٹھکانے لگایا جاسکے۔بجلی کی بلاتعطل ترسیل اور لوڈ شیڈنگ سے نجات آزادکشمیر کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے بھی 40میگاواٹ کے نگدر ہائیڈل پاور پروجیکٹ اور 35دواریاں ہائیڈل منصوبے کی ترجیح بنیادوں پر تکمیل بھی پیکیج کا حصہ ہے۔اس طرح کئی ایک بڑے گرڈ اسٹیشن بنانے یا انہیں پیسکو، آئیسکو اور گیپگو سے حاصل کرنے کا منصوبہ بھی پیکیج کا حصہ ہے۔سیاحتی انفراسٹرکچر کی تعمیر وترقی اور اگلے برسوں میں لاکھوں سیاحوں کو آزادکشمیر لانے کو خصوصی ترجیح دی جارہی ہے۔چند ہفتے قبل وزیراعظم عمران خان کے دوست اور بین الاقوامی شہرت یافتہ آرکیٹیک ٹونی ایشائی کو سینئر وزیرسردار تنویرالیاس خان نے راولاکوٹ اور مظفرآباد کے محض چند علاقوں کی سیر کرائی۔ سینئر صحافی عابد صدیق کو دیئے گئے،ایک انٹرویومیں ٹونی ایشائی نے کہا کہ یہ علاقے سوئٹزرلینڈ سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ عالمی معیار کے کچھ تفریح مقامات ڈویلپ کیے جائیںتاکہ بیرونی دنیا سے سیاح شوق سے کشمیر آئیں۔سیاحت کا موضوع ایک الگ کالم کا تقاضہ کرتاہے۔515کے لگ بھگ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو سولہ برس قبل آنیوالے زلزلے میں تباہ ہوئے تھے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پچاس ارب جو زلزلے سے متاثرین کی بحالی کیلئے مختص تھے۔ سندھ میں سیلاب زدگان پر خرچ کردیئے گئے ۔ چنانچہ اب ان تعلیمی اداروں کی تعمیر نو پر توجہ دی جائیگا۔ وزیراعظم سردار عبدالقیوم نیازی نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ ویمن کالجز اور سکولوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں بچنا چاہیے جس کی چار دیواری نہ ہو۔طالبات کیلئے ٹائیلٹ کا انتظام یا پینے کے پانی کا بندوبست نہ ہو۔تعلیمی اداروں کی بہتری کیلئے 33ارب روپے خرچ کیے جانے ہیں۔اسی طرح شعبہ صحت، زراعت، جنگلات ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے بھی خاصی بڑے رقم رکھی جارہی ہے۔میرپور کا اسپیشل اکنامک زون ، ڈرائی پورٹ، گیس کی سپلائی بھی پیکیج کا حصہ ہے۔ وزیراعظم عبدلقیوم نیازی کا تعلق چونکہ ایک دور افتادہ علاقے عباس پور سے ہے،جو لائن آف کنٹرول پر واقع ہونے کی وجہ سے عمومی طورپر شہری سہولتوں سے محروم چلا آرہاہے، لہٰذا انہیںعوام کی مشکلات کا بخوبی احساس ہے ۔ پسماندہ علاقوں کی ترقی ان کی خصوصی ہے۔ان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے دیہاتوں اور دوردارز علاقوں پربھی پیکیج سے وسائل خرچ کیے جانے کے منصوبے تشکیل پارہے ہیںتاکہ کمزور اور پسے ہوئے طبقہ کواوپر اٹھایاجاسکے۔یہ اقتصادی پیکیج اس خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا۔ کبھی کسی نے تصور بھی نہ کیا تھا کہ اس قدر بڑا مالیاتی پیکیج آزادکشمیر کو مل سکتاہے۔ اس خطے کا ترقیاتی بجٹ 28ارب روپے اب جاکر ہوا۔ اتنے پیسے لاہور اور اسلام آباد کے ایک اورہیڈ برج کی تعمیر پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ انشا اللہ، اب آزادکشمیر تیزی سے معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر بدلے گا۔