ٹرمپ جو باربارکشمیرپر ثالثی کی پیشکش کررہے ہیں توان کے سامنے کشمیرپرثالثی کاجومنصوبہ ہے ہمارے خیال کے مطابق وہ فلسطین ٹائپ کا فارمولہ ہے یعنی’ ’ارض فلسطین کی طرح کشمیرکی بندربانٹ کا‘‘ ٹرمپ کے پیش کردہ فلسطینی فارمولہ سے انکی کشمیرپرثالثی کی شکل وصورت اگرچہ ہمارے سامنے واضح ہوچکی ہے لیکن اسکی کئی جہتیں ابھی درپردہ ہیں۔لیکن ارض فلسطین کی طرح کشمیرپریہ اقدام عالمی سطح کے فورموں خصوصاًاقوام متحدہ کے منہ پرایک ایسا زوردار تمانچہ ہو گا کہ اس تمانچے سے اسے اس کی اوقات یاددلائی جائے گی کہ یہ ’’نیوورلڈآرڈر‘‘ ہے جس کے سامنے کسی اقوام متحدہ یاکسی مظلوم قوم کے چیخنے چلانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ہندوستان کی جانب سے دفعہ370 اور35اے کاخاتمہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو فوجی جبرکے ذریعے ختم کرنے کے اقدامات بھی خطے میںکی جانے والی نئی تبدیلیوں کے عمل میں جست لگانے کی عکاسی ہیں ارض فلسطین کی بندبانٹ کے پیچھے بھی یہی فکروفلسفہ ہے کہ یہ دنیا ایک دیو ہیکل تبدیلی کے عمل سے گزر کر معیاری طور پر ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں پرانی دنیا کے ظاہری خدوخال اگر کہیں باقی بھی ہیں تو وہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں اسی طرح اچانک تبدیل ہو جائیں گے۔ ہماری آنکھ جودیکھ رہی ہے اس کاحاصل یہ ہے کہ مودی پاکستان کے خلاف ایک اورجنگ کی تیاری کررہاہے جس کامقصد آزادکشمیرکے کسی علاقے پرچڑھائی کرناہے تاکہ خطے کے حوالے سے پوری دنیامیں ایک بھونچال اورایک ارتعاش پیداہوسکے ۔جس کے بعد امریکہ بہادر میدان میں اتریں گے اور ٹرمپ دونوں ممالک کے درمیان میں آکراپنی ثالثی منواتے ہوئے دونوں ممالک سے کہیں گے کہ وہ اپنی پہلی والی پوزیشنوں پرواپس لوٹ جائیں اورجنگ بندی لائن جسے’’ایل اوسی‘‘کانام دیاگیاہے کودونوں ممالک کے مابین مستقل سرحدتسلیم کریں اوروہ دونوں ممالک کے مابین ایک ایسا ایگریمنٹ کروائیں گے کہ جس میں لکھاجائے گاکہ اب دونوں کے درمیان دشمنی کی بنیاد مسمار ہو چکی ہے اور اب دونوں کے مابین وجہ جنگ اوروجہ تنازع کشمیرحل کرالیاگیااور اب دونوں کے درمیان ہمیشہ ہمیش کے لئے جنگ کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ جس طرح ٹرمپ نے فلسطینیوں کی مرضی و منشا معلوم کئے بغیر ان سے کوئی بات چیت کئے بغیر اپنے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے اسی طرح وہ کشمیریوں سے پوچھے بغیراپنی ثالثی کاپتا پھینکیں گے ۔ٹرمپ کہیں گے کہ سات دہائیوں سے قائم اس خطے میں عدم توازن کی بنیادکے خاتمے سے پورے خطے میں ایک نئے اور دھماکہ خیز عہد کا آغاز ہو چکا ہے ۔لیکن دیکھاجائے تو مظلوم کشمیریوں اورپاکستان کے غیورعوام کے ارمانوں پرپانی پھیرنے سے ایسے کسی نئے توازن کے قائم ہو جانے کے امکانات مخدوش ہونگے کیونکہ اگرجنگ بندی لائن جسے کنٹرول لائن کہاجاتاہے بین الاقوامی سرحد میں تبدیل ہو جائے۔جس طرح ٹرمپ کے ارض فلسطین کے پیش کردہ فارمولے اور امریکی منصوبے پر اہل فلسطین مسترد کر رہے ہیں لیکن ٹرمپ کے وفادارممالک متحدہ عرب امارات، بحرین اور اومان اسکی حمایت اورتائید ہیں اورجس پر صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس کے اجلاس میں ان کے شریک ہونے کا شکریہ بھی ادا کیا ہے،عین اسی طرح کشمیرپرٹرمپ کی بندربانٹ کی ثالثی پراہل کشمیراوراہل پاکستان چیخ اٹھیں گے اوراسے مستردکریں گے لیکن اس دوران عرب ممالک اورخاص طورپرسعودی عرب کی طرف سے صدابلندہو گی کہ کشمیرپرٹرمپ کی ثالثی کی ہم دل وجان سے تائیداورحمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ خطے کی مخاصمت کاخاتمہ کردے گی اوریہ ہندوستان سے زیادہ کشمیری مسلمانوں کے حق میںہے ۔ اس صورتحال کے پیداہوجانے کے بعد پاکستان کوٹرمپ کی جانبدارانہ ثالثی کو چار و ناچار تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گاکیونکہ عرب ممالک اسے اپنااربوں ڈالرقرضہ واپس لوٹانے کاکہیں گے جس کی ادئیگی پاکستان کے لئے ممکن نہیں ہوگی ۔لیکن اس طرح بالکل ایک نئی صورتحال پیداہوجائے گی جس کے ساتھ پاکستان کومطابقت پیدا کرنا اور اپنے روائتی موقف کو ترک کرنے اور اس کو نئی صورتحال سے ہم آہنگ کرنے کا عمل قطعاََآسان نہ ہو گا ، بلکہ یہ عمل خود پاکستان کے اندر بہت ساری نئی تبدیلیوں اور واقعات کو جنم دینے کا باعث بنے گی۔ پاکستانی ریاست کے جاری داخلی بحران میں ایک نئے عنصر کا اضافہ ہو گیا ہے اور ریاست پاکستان کے تشخص اور نظریاتی بنیادوں میں شدید دراڑیں پڑ جائیں گی ۔ پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بڑے پیمانے پر پورے خطے پر اثرات مرتب کریں گی جس کے باعث عدم استحکام کا یہ عمل اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے گااورخطے میںکسی نام نہادامن کے بجائے بڑے پیمانے پربدامنی پھیل جائے گی۔ اسرائیل کی منشا اور مشاورت سے تشکیل دیے جانے والے منصوبے کو فلسطین کی محمودعباس اتھارٹی اور مجاہدین تنظیموں حماس، اسلامی جہادنے مسترد کر دیا ہے جبکہ رملہ، غزہ اور کئی دوسرے شہروں میں ہزاروں فلسطینیوں نے اس کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کیے ہیں۔جبکہ محمود عباس نے واضح کیا ہے کہ بیت المقدس برائے فروخت نہیں۔ یہ ایک سازشی منصوبہ ہے جو کامیاب نہیں ہو گا۔خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے پہلو میں کھڑے ہو کر مشرقِ وسطی میں قیامِ امن کا جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ دراصل مشرقِ وسطی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو ایک نئی جنگ میں دھکیلنے کا منصوبہ ہے۔کیونکہ اس منصوبے میں فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کے سوا کچھ نہیں۔ٹرمپ اپنے اس منصوبے کے اعلان سے بہت پہلے امریکہ کا سفارتخانہ یروشلم منتقل کر چکے ہیں جو مسئلہ فلسطین پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔نئے منصوبے کے تحت ناصرف یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا گیا بلکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر غیرقانونی طور پر آباد چار لاکھ سے زائد اسرائیلیوں کو بھی تحفظ دے دیا گیا ہے۔