سلسلہ روز و شب نقش گر ِحادثات۔ زندگی ایسے ہی چلتی ہے ‘ کبھی گردش ایام حادثات کو جنم دیتی ہے تو کبھی حادثات سلسلہ روز و شب کی نقش گری بھی کرتے ہیں۔ حالات کا بہائو حادثے کی طرف لے جاتا ہے اور حادثہ حالات کی شکل بدل کر نئی نقش گری کرتا ہے۔ بیگم کلثوم نواز اس ست رنگی سیڑھی کو عبور کر کے اس جگہ چلی گئیں جہاں سحاب ابدیت چھایا رہتا ہے۔ دھنک کی یہ سیڑھی ہر ایک کے لیے ’’ارجعی‘‘ کا عنوان نہیں بنتی۔ ان کی موت اچانک کے معنی میں حادثہ نہیں ہے۔ سال بھر کی بیماری‘ پے درپے کینسر کے آپریشن‘ ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مزید جسمانی پیچیدگیوں کے باعث وہ زندہ رہنے کے قابل ہی کہاں رہی تھیں۔’’کومے‘‘ سے واپسی نے گو امید سی دلائی لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ سفر ختم ہونے کو ہے۔ لیکن اس معنی میں حادثہ ہے کہ نواز شریف اس سہارے سے محروم ہو گئے جس کے بارے میں ہر کوئی امید کرتا ہے کہ آخر تک ساتھ رہے۔ چالیس سال کی رفاقت کا عرصہ ختم ہوا۔ دونوں میاں بیوی کی محبت مثالی تھی۔ ٹالسٹائی نے شاید اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ جب جسم بوڑھے ہو جاتے ہیں تو محبت جواں ہو جاتی ہے۔ یہ مریم کے لیے بھی حادثہ ہے جو اپنی ماں سے محروم ہو گئی لیکن زیادہ بڑا حادثہ بہرحال نواز شریف کے لیے ہے۔ وہ اکیلے رہ گئے۔ ایک بھائی پہلے چل بسا‘ دوسرے نے ساتھ چھوڑ دیا۔ خار زار سیاست میں اب وہ ہیں اور مریم ہیں اور دونوں جیل میں۔ صیاد کوئی نرمی دکھانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ موت شاید ایسا حادثہ بھی ثابت ہو سکتی ہے جو حالات کے نقش و نگار میں تغیر کا باعث ہو۔ ایک فرد کی موت اور وہ حالات جن میں موت ہوئی‘ دھارے کو ندی میں بھی بدل دیا کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ چالیس سال کی رفاقت ایک پل میں قصہ ماضی بن گئی۔ یہی زندگی ہے۔ چالیس کے بجائے پچاس‘ ساٹھ ستر سال ہوئے تب بھی قصہ ماضی بننے میں ایک پل ہی تو لگتا ہے۔ زندگی کبھی ایسی طویل کہ کاٹے نہ کٹے اور کبھی ایسا لمحہ گریزاں کہ خواب کا گماں ہو۔ مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ جینئس نہیں تھے‘ سپر جینئس ادیب تھے۔ ان کی کتاب ’’آپ بیتی‘‘ کا وہ حصہ جس میں انہوں نے اپنی اہلیہ کی وفات کا حال لکھا ہے‘ عالمی ادب کا شہ پارہ ہے لیکن اس سے زیادہ یہ کہ فریب زندگی کی کامل نقشہ کشی شاید ہی کسی نے ایسے کی ہو جیسے انہوں نے کی۔ مریضہ تھی‘ چل بسی‘ میت ڈیوڑھی میں پڑی جنازے کی منتظر تھی اور یہ وہی ڈیوڑھی تھی اور وہی چارپائی جس پر چند عشرے پہلے وہ دلہن کے روپ میں بیٹھی تھی اور منتظر تھی کہ کب رسومات ختم ہوں اور وہ ڈیوڑھی سے گھر کے اندر جائے۔ گھر کے اندر آمد اور پھر اسی ڈیوڑھی سے رخصتی کے یہ درمیانی برس مولانا نے چند صفحات میں جس طرح سموئے ہیں‘ وہ ایک ایسی یاد بن گئے ہیں جو ہر پڑھنے والے کے دل میں اخیر وقت تک کے لیے نقش ہو جاتی ہے۔ ہر ذی نفس کی یہی کہانی ہے۔ پھر جسد خاکی زمین سے نکلے عناصر کا مجموعہ ہے جو بالآخر پھر مٹی میں سمو کر منتشر ہو جاتے ہیں ؎ ماٹی کہے کمہار سے تو کیا روندے موئے اک دن ایسا آئے گا میں روندوں گی توئے ٭٭٭٭٭ اچھا یہ ہوا کہ جانے والی کو آخر تک پتہ نہیں چل سکا کہ اس کے شوہر اور بیٹی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ شاید چھٹی حس سے کچھ اندازہ ہوا ہو لیکن مجموعی طور پر بے خبری رہی۔ تکلیف اور آزمائش کے یہ لمبے مہینے مزید تکلیف دہ ہونے سے بچ گئے۔ نواز اور مریم کو البتہ یہ دکھ ہمیشہ ستاتا رہے گا کہ وہ اسے بے ہوشی کے عالم ہی میں چھوڑ کر اسیری کاٹنے واطن واپس آ گئے ‘ الوداعی ملاقات تک نہ کر سکے۔ کلثوم نواز کی بیماری نے پاکستان کے سیاسی کلچر کی تاریخ میں ایک نئے باب اور نئی روایات کا اضافہ بھی کیا۔ درست الفاظ میں یہ اضافہ کچھ اور عناصر نے کیا۔ اچانک لندن روانگی پر پتہ چلا کہ انہیں کینسر ہے۔ پہلے سے اس روانگی کی کوئی خبر نہیں تھی۔ لندن پہنچ کر ان کے طبی معائنے ہوئے اور پھر ہسپتال میں داخل کر لیا گیا،اور یہاں پاکستان میں اچانک ہی پراسرار عناصر کی طرف سے ایک مہم شروع ہو گئی۔ آنے والے دنوں نے صاف بتا دیا کہ یہ مہم حادثاتی نہیں ہے‘ بڑے بڑے شہ دماغ اس کے پیچھے تھے۔ آغاز ایک خضر صورت بزرگ نے کیا۔ اپنے کالم میں لکھا کہ جس نام کے ہسپتال میں کلثوم داخل ہیں‘ لندن میں اس نام کا کوئی ہسپتال ہی نہیں ہے۔ لیگ والو‘ جھوٹ بولنے کا سلیقہ بھی سیکھ لو۔ پھر یہ مہم ایسی تیز ہو ئی کہ سونامی کا روپ دھار گئی۔ اتنے افسانے سامنے آئے کہ کتاب بن جائے۔ ایک ویڈیو فلم پی ٹی آئی کے آفیشل اکائونٹس سے اپ لوڈ کی گئی کہ دیکھو‘ یہ تو سپر سٹور سے سامان تعیش خرید رہی ہیں۔ یہ کئی سال پہلے کا کلپ تھا۔ ان کے ہسپتال کو بیوٹی پارلر تک کہا گیا۔ سکھوں کی فہرستوں والے فرزند گجرات نے بیماری کو ڈرامہ دینے کی کامیاب مہم چلائی۔ روز کسی چینل پر یا اخبار نویسوں کے ہجوم میں وہ بیماری کے جعلی ہونے کا مقدمہ لڑتے اور جیوری سے فیصلہ اپنے حق میں لے کر اٹھتے۔ کلثوم نواز کے ’’مکر‘‘ کی کہانیاں بھی بنائی جاتی رہیں۔ الیکشن سے چند روز پہلے ایک اور خضر صورت نے اپنے ٹی وی پروگرام میں بریکنگ نیوز دی کہ بیماری ڈرامہ ہے‘ آج رات یا کل صبح تک لندن سے خبر آئے گی کہ کلثوم کی حالت نازک ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی نوازاور مریم ملاقات کے بہانے اڑن چھو ہو جائیں گے اور پھر نہیں آئیں گے۔ ڈیل ہو گئی ہے ‘پکی بات ہے۔ یہ پروگرام میرے ایک بھانجے نے دیکھا اور حیرت سے کہا‘ حدیثیں سنا سنا کر یہ ایسے جھوٹ کیوں بولتا ہے۔ خاموش رہا‘ کیا بتاتا کہ حدیثیں گھڑنا اور جھوٹی حدیثوں کا ’’بزنس‘‘ کرنا کتنے ’’ثواب‘‘ کا کام ہے۔ اس مہم اور اب کلثوم کی وفات سے ایک نتیجہ یہ نکلا کہ صادق و امین حضرات کی صداقت اور امانت کی نئی تعریف واضح ہو کر سامنے آ گئی۔ ٭٭٭٭٭ یہ کلچر ماضی میں بھی لوگوں نے دیکھا لیکن اس پیمانے پر اور اتنے دورانیے کا نہیں تھا۔ ضیاء الحق نے بے نظیر کو والد کا آخری دیدار تک نہیں کرنے دیا۔ پھر گجرات کے ظہور الٰہی نے دشمن مرے تے خوشی نہ کریے کی کلاسیکل پنجابی روایت کے برعکس ضیاء الحق کا وہ ہاتھا چوما جس سے اس نے بھٹو کے پھانسی نامے پر دستخط کئے تھے‘ پھر اس قلم کو چوما اور وہ قلم ضیاء الحق سے مانگ لیا اور پھر فخر سے سب کو دکھایا۔ اکبر بگٹی نے مشرف کو ناراض کیا تو شجاعت نے کیسے ان کی آخری ’’ریکی‘‘ کی جس کے بعد مشرف نے انہیں قید کرا دیا۔ شمال مغربی برصغیر میں بہنے والے دریائوں میں نہ جانے کیا شے شامل ہے‘ بہرحال اس بار تو اس کلچر کی حدود افق تا افق پھیل گئیں۔ انتقام لینے والے اور اس ’’اعلیٰ ظرفی‘‘ کے مظاہرے کرنے والے اس سچائی کو دیکھنے سے گریز کرتے ہیں جو سب کے سامنے کھڑی ہے۔ یعنی موت ۔ کوئی کیسی بھی فتح حاصل کر لے۔ عرصہ زندگی بہرحال مختصر ہی رہنا ہے اور اس عرصہ زندگی کی کہانی کا خلاصہ چند لفظی ہے ع زندگی کی شاخ سے پھوٹے‘ کھلے‘ مر جھا گئے