رمضان آ رہا ہے‘ چلئے اس قضیے کو تو نپٹاتے چلیں۔ یہ کون لوگ ہیں علی ظفر اور میشا شفیع جن کا میڈیا ڈھول بجا بجا کر تذکرہ کر رہا ہے اور چسکے پہ چسکا لئے جا رہا ہے۔ غلط نہیں کہہ رہا‘ میں سچ مچ ان کی عظمت اور اہمیت سے باخبر نہ تھا کہ قومی خبرنامے میں انہیں اس ٹھاٹھ باٹ سے براجمان دیکھوں۔ غضب خدا کا‘ ملک کو کیا کیا مسئلے درپیش ہیں اس دن بھی ایک سے ایک بڑا معاملہ تھا۔ سی پیک ‘ آئی ایم ایف ‘ نواز شریف ‘ زرداری‘ عمران خاں سب آسمانوں سے باتیں کر رہے تھے مگر 9بجے کے خبرنامے نے ان خبروں کو ترجیح نہ دی۔ بلکہ ان کی جگہ جو پہلی خبر تھی‘ وہ ان کی مقدمہ بازی کے بارے میں تھی۔ یہی نہیں اگلے روز چینل کے اس پروگرام میں جسے ہر لحاظ سے پرائم پروگرام کہا جا سکتا ہے اور جہاں صرف نازک سیاسی مسائل پر بڑے بڑے لوگ گفتگو کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔ اس دن پورا ایک گھنٹہ ان میں سے ایک کے ساتھ دوبدو انٹرویو نشر کیا گیا۔ یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ مجھے ان افراد سے کوئی کد نہیں ہے۔ سچ پوچھئے تو میں ان سے معمولی سا واقف ہوں۔ وہ بھی اس لئے کہ گاہے گاہے ٹی وی سننا میری پیشہ وارانہ مجبوری ہے۔ اس لئے میری گفتگو کو افراد کے بارے میں نہ سمجھا جائے بلکہ اس کلچر کے حوالے سے لیا جائے جو ہمارے ہاں پھیل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے ہاں می ٹو کا پڑاتو ہر روز ایک نام چلا آتا تھا کہ مرے ساتھ بھی کچھ ہوا ہے۔ اس رویے کی داد دی جاتی۔ میں نے اس وقت بڑی احتیاط سے اس رویے کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ مگر لگتا ہے یہ گھی سیدھی انگلیوں سے نکلنے کا نہیں ہے۔ دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ میں یہ گفتگو افراد کے بارے میں نہیں کر رہا‘ بتا رہا ہوں کہ ہماری تہذیب اپنی موت آپ مرتی جا رہی ہے اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہو رہا۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ پیدا ہوتا جا رہا ہے جو اشرافیہ نہیں ہے جسے یوں کہیے ارسٹوکریسی نے اپنے تفنن طبع کے لئے فروغ دے رکھا ہے۔ معلوم ہوا کہ بھارت میں یا مغرب میں کسی سرمایہ دار کے ہاں شادی ہوئی تو اس میں فلاں فلاں نامور فنکاروں نے شرکت کی۔ معلوم ہوا شریک ہونے والے مفت نہیں آتے۔ اپنے آنے کی فیس وصول کرتے ہیں۔ معاف کیجیے‘ اگلے زمانے کی بات چلی ہے تو جنہیں کہ انگریز نے ارباب نشاط کا نام دیا تھا۔ وہ شادی بیاہ کی تقریبات میں اسی طرح دلگی کے لئے شریک ہوتے تھے۔ ان کی کمائی کا طریقہ دوسرا تھا۔ آج اس کی فیس ہے ۔ اس زمانے میں تو ہماری اشرافیہ اپنی اولاد کو تہذیب سیکھنے کے لئے گانے والیوں کے کوٹھوں پر بھیجتی تھی۔ اس پر ہم جیسوں کو بڑی حیرت ہوتی ہے۔ ادب کا مطالعہ کیجیے تو پرانی معاشرت کی ایک ایسی تصویر نظر آتی ہے جو فیوڈل معاشرے میں توجائز ہو گی مگر اب اس سے گھن آتی ہے۔ انسان کی فطرت نہیں بدلی۔ اس نے ہر چیز کو ماڈرنائز کر لیا ہے۔ مگر اطوار وہی کے وہی ہیں۔ ہم نے ایک ایسے کلچر کو فروغ دیا ہے جس کا حصہ بننا اب نام نہاد شرفا بھی عار نہیں سمجھتے۔ یہ سیلبرٹی کلچر کوئی لائق تحسین بات نہیں ہے۔ وہ ہالی وڈ کی ایک اداکارہ کی برطانوی شہزادے سے شادی ہوتی ہے تو شاہی شان و شوکت اور سیلبرٹی چمک دمک کے تقابل کے بہت تذکرے ہوئے‘ استاد نے ایک بار پکی سیاہی سے لکھا تھا کہ ہم اپنی تہذیب کو نٹوں ‘ نچیوں اور گویوں کے سپرد نہیں کر سکتے۔ اس خاکسار نے ایک بار لکھا ہے کہ موچی‘ نائی اور درزی کے بنائے ہوئے انسان بھی بھلا انسان ہوتے ہیں۔ بھائی یہ فیشن کی دنیا یہ شوبز کی دنیا بالکل ایک الگ دنیا ہے۔ کیا ہم اس دنیا کو اب اپنی تہذیبی قدروں پر ترجیح دینا شروع کر دیں گے۔ ایک بار ہمارے ملک کی ایک بہت بڑی اداکارہ نے اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ شائع کیا۔ مجھے بھی اس پر تقریر کرنے کے لئے کہا گیا۔ وہ اداکارہ سچ مچ ایک بڑی اداکارہ تھی۔ اس نسل کا حصہ تھی جس نے کم وسائل سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر بالی وڈ انڈسٹری کو آگے لگا لیا تھا۔ تب ہمارا ڈراما سچ مچ ہمارے تخلیقی ذہن کا عکاس ہوتا تھا۔ پھر بھی میں نے عرض کیا کہ میں مصنفہ کو ترقی کی یہ منزلیں طے کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ اس لئے کہ اب وہ پرفارمنگ آرٹ سے آگے نکل کر فائن آرٹ میں آ گئی ہیں۔ پھر غالباً طلعت حسین‘ راحت کاظمی اس طرح کے ادب فہم افراد کو مخاطب کر کے پوچھا کیا خیال ہے فائن آرٹ کا درجہ پرفارمنگ آرٹ سے بہت بلند نہیں ہوتا۔ سب سے تصدیق کرائی۔ بھئی شیکسپئر کا ہر ہر کردار گزشتہ چار صوبوں سے سینکڑوں لوگوں نے ادا کیا ہو گا۔ مگر شیکسپئر ایک ہی تھا اب یہ ہو گیا ہے کہ ہر شے شوبز ہو گئی ہے حتیٰ کہ اس بار سرکار کو پابندی لگانا پڑی کہ اداکارائیں اور گلوکارائیں رمضان کے پروگرام نہیں کریں گے۔ ہم نے ان پروگراموں کا بھی ناس مار کر رکھ دیا تھا۔ خدا کو بھی نہ چھوڑا تھا۔ جب بات حد سے بڑھ جائے تو پھر ردعمل ہوتا ہے۔ یہ تو سرکاری ردعمل ہے جب لاہور کے ہال روڈ میں خفیہ خفیہ دکاندار ہماری بچیوں کو فحش فلمیں مہیا کرتے تھے۔ ہم چیختے رہے باز آجائو۔ کوئی سنتا نہ تھا۔ ایک دن طالبان نے سات دن کا نوٹس دیا۔ سب کے دماغ درست ہو گئے۔ اب اس کلچر نے بھی حد کر دی ہے جو ارسٹوکریسی نے اپنے تفنن طبع کے لئے فروغ دے رکھا ہے۔ ایک بار لاہور میں اس قبیلے کے بھارتی آئے انہوں نے واپس جا کر لاہور کی اس طبقے کی خواہش کے بارے میں ذرا کھلے ڈھلے تبصرے کئے۔ یہاں قیامت آ گئی۔ عرض کیا جب تم اس کلچر کو فروغ دو گے تو یہ سننا ہی پڑے گا۔ تو اب بھگتو ۔ ایک فنکارہ کی کہیں امریکہ میں کسی بھارتی اداکارہ کے ساتھ تصویر چھپ گئی۔ شاید وہ سگریٹ پی رہی تھی۔ سننے والی ہیں وہ باتیں کیا کیا تبصرے ہوئے تھے۔ ذاتی حملے ہو رہے ہیں۔ یہ نچلی سطح پر اتر آئے ہیں۔ ہمارے فن کو دیکھو۔ ہمارا میڈیا بھی اپنی بانسری لے کر اس میں سرتال ملانے لگا۔ آپ نے جو کلچر فروغ دے رکھا ہے اور جس کو آپ جائز سمجھتے ہو‘ اس میں ایک دوسرے سے کھلے ڈھلے ملنا جلنا کوئی معیوب نہیں ہے۔ اس کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ ایسی تو کوئی بات نہیں‘ ہم تو گلے مل کر رخصت ہوتے تھے۔ پھر شکایت کس بات کی یہ ساری تصویریں ‘ یہ ساری گفتگوئیں ‘ یہ سارے منظر ہمارا معاشرہ قبول نہیں کر رہا۔ آپ چاہتے ہیں ہم اس لائف سٹائل سے بغل گیر ہو جائیں‘ مان لیا‘ ہم آپ کو نہیں چھیڑتے‘ مگر اس ایجنڈے کو نہیں مانتے کہ آپ کو ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا ایک حصہ اتنی اہمیت دے جتنی وہ اس طرح ان مسائل کو بھی نہیں دیتا جن پر ہماری قومی سلامتی کا دارو مدار ہے۔ قومیں اسی طرح مر کھپ جاتی ہیں اور کسی کو اس کی خبر نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے‘ اس پر چپ نہیں رہنا چاہیے۔ میڈیا نے ہم پر پہلے ہی بڑے ظلم کئے ہیں۔ ایک زمانے میں تو نو بجے کے خبرنامے میں کئی ایک چینل ایسے ایسے ڈانس اور گانے بڑے اہتمام سے دکھاتے تھے جو ہمارے معیار اور اخلاق سے گرے ہوئے تھے۔ آخر یہ نو بجے کے خبرنامے میں کیوں ہوتا تھا۔ اس لئے پوری فیملی اس وقت ٹی وی کے سامنے موجود ہو سکتی تھی اور ہم اس فیملی ہی کے بخیے تو ادھیڑنا چاہتے تھے۔ وہ جو سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ہمیں پاکستان پرلشکر کشی کی اب کیا ضرورت ہے‘ ہمارا بالی وڈ ہی گھر گھر پہنچ کر اس کو مسخر کر لے گا۔ تو وہ ہمارے گھر آنگن میںآن پہنچے ہیں مزید تاخیر کی اب گنجائش نہیں ہے۔ مجھے تو اس کے خلاف لڑنا ہے اور ڈٹ کر لڑنا ہے۔ دوستوں‘ آپ بھی تیار ہو جائو‘ وگرنہ کچھ باقی نہ بچے گا۔ نہ دنیا نہ آخرت!