’’فیض صاحب سے پہلی بار ملنے کا شرف اس وقت حاصل ہوا جب وہ روزنامہ پاکستان ٹائمز اور امروز کے مدیر ہوتے تھے۔ بڑے لوگوں سے ملنے کا خبط، چھوٹے لوگوں کے دلوں میں پنہاں ہوتا ہے اور فیض صاحب تو پاکستان بھر کے سب سے بڑے شاعر اور آدمی تھے۔ ان سے ملنے کا خبط کیوں نہ رنگ لاتا۔ جب میں پاکستان ٹائمز کے دفتر میں داخل ہوا تو پہلی منزل پر ایک کمرے کے باہر فیض صاحب کے نام کی تختی دیکھی اور دل تیزی سے دھڑکنا شروع ہو گیا۔ پتہ نہیں ان سے ملنے سے زیادہ دیکھنے کا جذبہ کارفرما تھا لیکن جب وہ ملے تو وہ ساری ہیبت منٹوں سیکنڈوں میں کافور ہو گئی اور یوں لگا جیسے کئی بار مل چکا ہوں اور کوئی حجاب اور پردہ حائل نہیں تھا۔‘‘ یہ اقتباس کمال احمد رضوی کی کتاب ’’کمال کی باتیں‘‘ سے نقل کیا گیا ہے۔ 1965ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کے آغاز سے ہی اس پر الف نون کے نام سے ایک مزاحیہ کھیل پیش کیا گیا۔ یہ اپنے وقت کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ ڈرامے کی ہر قسط میں ہی معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کو بہت خوبصورت اور تفریحی انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔ اس ڈرامے کا رائٹر خود کمال احمد رضوی تھے۔ اس میں الن کا کردار بھی کمال ادا کرتے تھے جبکہ ننھا کا کردار رفیع خاور کرتے تھے۔ ڈرامہ جو شخص بھی دیکھتا وہ عش عش کر اٹھتا کیونکہ ہر قسط میں ایک تیز طرار شخص کی چالاکیوں کا بھانڈہ اس کا سادہ لوح ساتھی کس طرح پھوڑتا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہوتا تھا۔ جی ہاں، اسی کمال احمد رضوی کی خود نوشت ’’کمال کی باتیں‘‘ فی الواقع کمال کی کتاب ہے۔ 2016ء میں یہ کتاب کراچی میں شائع ہوئی مگر اسے لاہور ہم تک پہنچتے پہنچتے دو تین برس لگ گئے جبکہ کمال احمد رضوی کا پہلا گھر لاہور تھا اور یہاں ہی انہوں نے اوائل شباب سے لے کر ادھیڑ عمر تک بھرپور زندگی گزاری تھی۔ ’’کمال کی باتیں‘‘ کہنے کو تو یہ آب بیتی ہے مگر اس میں جگ بیتی بھی ہے اور پاپ بیتی بھی۔ کمال احمد رضوی کی کتاب ان تین طرح کی ’’بیتیوں’’ کا ایک ایسا سنجوگ ہے جو آپ کو قدم قدم پر ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی ہے اورآپ کو وہ آئینہ بھی دکھاتا ہے جس میں آپ ادب و فن کے بڑے بڑے ناموں کو عام انسانوں کے روپ میں دیکھتے ہیں جن کی زندگیوں میں عظیم لمحے بھی ہوتے ہیں اور حقیر بھی۔ مگر انسانی پستی سے پردہ سرکانے میں انہوں نے اپنے سمیت کسی سے کوئی اور رعایت نہیں کی۔ کمال احمد رضوی کی بیگم عشرت جہاں رضوی نے اپنے میاں کی طرح ادھورا نہیں پورا سچ بولا ہے اور کمال سے کسی طرح کی رو رعایت نہیں برتی۔ انہوں نے 1984ء سے 2018ء تک کمال کے ساتھ‘‘ میں لکھا ہے۔ کمال کا اور میرا ساتھ اکتیس سال اور اکتیس دن کا رہا۔ اتنے سالوں کے دوران ان کی شخصیت کے پہلوئوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے نزدیک وہ انتہائی ذہین، بزلہ سنج، محبت کرنے والے، خوش خوراک، خوش لباس اور ہنس مکھ انسان تھے۔ ان کی شخصیت کا دوسرا رخ انا پرستی اور غصہ تھا۔ کبھی تو محبتوں کی برسات ہوتی تو کبھی غصے کے اولے سر پر برسنے لگے مگر میں نے میدان خالی چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور اس چیلنج کو قبول کرلیا کہ کمال احمد رضوی کو فتح کرلینا ہی میری کامیابی ہے۔‘‘ بیگم کمال مزید لکھتی ہیں کہ ’’ عمدہ کھانا اور عمدہ دوستوں کی محفل انہیں بہت پسند تھی۔ شاید اسی لیے دوستوں کی بڑی تعداد ان کے اردگرد موجود رہتی تھی۔ دوستوں کے معاملے میں بہت خوش قسمت انسان تھے۔ ان کے مطابق ان کی خوش بختی تھی کہ وہ سعادت حسن منٹو، فیض احمد فض، شاکر علی، سبط حسن جیسے بڑے لوگوں کے درمیان اور قریب رہے۔ سید سبط حسن کی زندگی کا بیشتر حصہ کراچی میں گزرا جہاں انہیں ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں شمار کیا جاتا اور جہاں روشن خیالی کی ترویج کی خاطر انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ سبط حسن، فیض احمد فیض کی ذاتی عنایات سے لاہور میں بھی ایک طویل عرصہ مقیم رہے اور یہیں کمال احمد رضوی کے ساتھ تلخ و شیریں تعلقات قائم ہوئے۔ وائی ایم سی اے ہال میں میرا ڈرامہ ’’بلاقی بد ذات‘‘ بہت ہٹ ہوا۔ دو گھنٹے کا یہ طویل ڈرامہ شائقین کی بھرپور داد سے گونجتا رہا۔سامعین میں اس شام امتیاز علی تاج، بیگم حجاب امتیاز علی اور ان کی صاحبزادی یاسمین نمایاں تھے۔ اس شام مین آف دی میچ رشیدی تھے۔ جو گورنمنٹ کالج لاہور کے ہونہار طالب علم اور شوکت تھانوی کے صاحبزادہ تھے۔ دوسری صبح پاکستان ٹائمز میں صفدر میر کا ریویو جوزینو کے نام سے چھپتا تھا نمودار ہوا تو میر صاحب نے اس کھیل کو نہایت فراخدلی سے سراہا اور یوں ایک ہفتہ مسلسل چلنے والے اس کھیل میں تماشائیوں کی کہیں کمی محسوس نہ ہوئی۔ سعادت حسن منٹو کے کمال فن اور ان کی اپنی بے تکلفی کے کئی واقعات کتاب میں موجود ہیں۔ کمال اس وقت منٹو سے ایک سعادت مند نوجوان کی حیثیت سے ملتے تھے۔ مصور شاکر علی سے ان کے بہت قریبی مراسم تھے۔ کمال احمد رضوی کی کتاب کا یہ واقعہ شاید ناقابل یقین انسانی رویوں اور رشتوں کا نقطہ عروج ہے۔ نوجوان کمال احمد رضوی اور ان کے ایک بھائی اور بہن اسی شہر لاہور میں مقیم تھے۔ باقی والدین وغیرہ ہندوستان میں تھے۔ لکھتے ہیں، ایک دن میں نے اپنے بھائی کے دفتر کا قصد کیا۔ میں ابھی ان کی میز پر بیٹھا بھی نہ تھا کہ انہوں نے ایک پوسٹ کارڈ میری طرف سرکا دیا۔ میں پوسٹ کارڈ دیکھ کر سمجھ گیا کہ یہ ہندوستان سے آیا ہے۔ عبارت پڑھی تو میرے اوپر بجلی آن گری۔ لکھا تھا: ’’عزیزم بابو محفوظ سلمہ! 31 مارچ 1955ء کو تمہارے والد صاحب ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ عزیزی کمال احمد کو بھی اس کی اطلاع کردینا۔ تمہاری والدہ‘‘۔ اس وقت میرا جی چاہا بھائی کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روتا مگر ایک پتھر سے بنے ہوئے انسان کے ساتھ یہ جذبہ بے کار تھا۔ میں پوسٹ کارڈ جیب میں رکھ کر چپ چاپ دفتر سے باہر آ گیا۔ گیٹ پر پہنچ کر تادیر روتا رہا۔ شاکر صاحب کے گھر پہنچ کر جب انہیں والد کے انتقال کے بارے میں بتایا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر افسوس کرنے کے بجائے جھنجھلا کر کہا ’’یار تم اس طرح کے ڈرامے نہ کیا کرو۔ یہ خود ترسی کوئی اچھی چیز نہیں۔‘‘ میں اپنے کمرے میں جا کر بستر پر لیٹ گیا اور چیخوف کی کہانی یاد آئی جس میں ایک کوچوان اپنے جوان بیٹے کی موت کا دکھ بانٹنے کا بہت جتن کرتا ہے مگر کوئی سننے پر تیار نہیں ہوتا اور بالآخر وہ اپنے گھوڑے کے گلے لگ کر اپنا دکھ ہلکا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے‘‘ اور اس طرح کی ہزار باتیں ہیں کمال کی باتیں۔