ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے مرکزی حکومت کی جانب سے بطور اتحادی کئے گئے وعدوں کی عدم تکمیل پر وزارت چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ خالد مقبول کے فیصلے کے باوجود وفاقی حکومت کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ گورنر سندھ اور وفاقی وزراء نے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر ایم کیو ایم سے رابطے کئے ہیں۔ وزیر اعظم نے الگ سے کہا ہے کہ ایم کیو ایم بااعتماد اتحادی ہے اور تحریک انصاف نے اس سے جو وعدے کئے تھے وہ پورے کئے جائیں گے۔ ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کے فیصلے نے سادہ اکثریت کی حامل پی ٹی آئی حکومت کے لئے یکایک تشویش پیدا کر دی ہے۔ شنید ہے کہ حکومت کے دوسرے اتحادی بی این پی مینگل اور گرینڈ ڈیمو کرٹیک الائنس بھی شکایات کا پلندہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے فیصلے کی وجوہات متحدہ قومی موومنٹ کے سربمہر کئے گئے دفاتر کی تالہ بندی اور کراچی شہر کی تعمیر و ترقی کے لئے فنڈز جاری نہ ہونا بتایا جا رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس فیصلے کی ایک وجہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور ایم کیو ایم کے مابین پس پردہ رابطے ہیں۔ گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے کہا تھا کہ وہ وفاق میں پی ٹی آئی حکومت سے اتحاد ختم کر کے پیپلز پارٹی کا ساتھ دے تو پی پی کراچی کی ضلعی حکومت کو فنڈز کے اجرا اور سندھ میں ایم کیو ایم کو کچھ وزارتیں دے سکتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 16ماہ کے دوران متحدہ قومی موومنٹ 3بار حکومت سے ناراضی کا اظہار کر چکی ہے اور ہر بار اسے منایا جاتا رہا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ اس شہر کی بربادی کا نوحہ پڑھنے والے بتاتے ہیں کہ شہریوں پر ایک ایسا گروہ مسلط ہو گیا جس نے عوام کو بااختیار بنانے کا مطالبہ کر کے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کیں اور پھر عوام کی طاقت کو جرائم پیشہ اور قاتلوں کے سپرد کر دیا۔ اس سے شہر میں بدامنی پھیلی اور مسائل کا انبار لگ گیا۔ یہ صورت حال اس وقت تبدیل ہوئی جب کراچی کے عوام نے 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو سب سے زیادہ ووٹ دیے۔ کسی زمانے میں پورے شہر کے ووٹوں کی مالک ایم کیو ایم بہت سی نشستیں گنوا بیٹھی اور دس سال سے متواتر سندھ پر حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی کے چیئرمین کراچی سے آبائی سیٹ پر ہار گئے۔ یہ مینڈیٹ ایک طرف کراچی کی ضلعی حکومت کو عوام کا نمائندہ بناتا ہے اور دوسری طرف مرکز میں برسر اقتدار تحریک انصاف کو اپنے مسائل کے حل کی ذمہ داری تفویض کرتا ہے۔ ووٹنگ کے اس نمونے میں پیپلز پارٹی پر عوام کا اظہار عدم اعتماد بڑا واضح ہے مگر آئینی طور پر چونکہ ضلعی حکومت صوبے سے فنڈز اور ضروری معاونت حاصل کرتی ہے اس لئے تحریک انصاف خواہش کے باوجود سندھ یا کراچی کی تعمیر و ترقی کے لئے نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل نہیں‘ آئینی ضابطوں نے اس کو بے بس کر رکھا ہے‘ خصوصاً 18ویں ترمیم کے بعد مرکز کے پاس اختیارات بہت کم رہ گئے ہیں۔ ایم کیو ایم بہت سی داخلی ٹوٹ پھوٹ سے گزری ہے۔ اب بھی اس کے کئی دھڑے ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لئے سرگرم ہیں۔ حالات کا جبر ہے کہ تحریک انصاف نے اس جماعت کو اپنا اتحادی بنا لیا جس کے خلاف کراچی کے شہریوں نے اسے ووٹ دیے۔ ایم کیو ایم کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ کسی حکومت کا حصہ بنتی ہے اور جب حکومت پر کوئی دبائو آئے تو ایم کیو ایم اپنی حیثیت جتلانے کے لئے الگ ہونے کا اعلان کردیتی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس صورت حال سے متعدد بار گزر چکی ہیں تاہم تحریک انصاف کے لئے یہ سب کچھ ایک نئے تجربے جیسا ہے۔ یقینا تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کواپنا اتحادی بناتے وقت کچھ وعدے کئے ہوں گے۔ ان میں سے اکثر وعدوں کا تعلق شہر کے خستہ حال ترقیاتی ڈھانچے کی بحالی‘ نئے ٹرانسپورٹ نظام کی فراہمی اور صحت و صفائی کی سہولیات میں بہتری کے لئے تعاون شامل تھا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے دفاتر وفاقی حکومت نے بند نہیں کرائے بلکہ یہ کام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیا۔ رپورٹس میں موجود ہے کہ یہ دفاتر سیاسی سرگرمیوں کی بجائے دیگر کاموں کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو یہ کریڈٹ بہرحال دیا جانا چاہیے کہ اس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فورسز کے کام میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی۔ اس لئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مرکزی حکومت سے کراچی میں ایم کیو ایم کے بند دفاتر کھلوانے میں مدد کا مطالبہ معاملات کو محض الجھانے کے لئے کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے پاس ایک موقع آیا ہے کہ وہ اپنی ماضی کی سیاست اور سیاسی حرکیات کو مثبت شکل دے سکے۔ ایم کیو ایم اگر پیپلز پارٹی کی وجہ سے مرکزی حکومت سے تعاون ختم کرتی ہے تو ممکن ہے نتائج اس شکل میں برآمد نہ ہوں جس کی اسے توقع ہے۔ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام صادق سنجرانی کو ہٹانے‘ آرمی ایکٹ میں عدم تعاون اور اسلام آباد دھرنے کی صورت میں حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کر چکی ہیں۔ ان کوششوں کے نتائج بتاتے ہیں کہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے والی کسی سرگرمی کو پذیرائی نہیں ملے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی اکثریت اتحادیوں کے ستون پر کھڑی ہے۔ اتحادی جماعتوں کے جائز اور قانونی مطالبات کو پورا کرنے میں لیت و لعل سے مسائل بڑھتے ہیں۔ وعدوں کی تکمیل میں سست روی حالات کو اس موڑ پر لے آتی ہے جہاں بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کراچی کے مسائل کے حل کا روڈ میپ ترتیب دیں تو ایم کیو ایم سمیت باقی اتحادیوں کا اعتماد بھی بحال ہو گا۔