میر صاحب کہتے ہیں کہ ع رنگ ِرفتہ بھی دل کو کھینچے ہے لیکن کبھی ایسا وقت بھی آ جاتا ہے جب ع رنگ ِرفتہ "ہی" دل کو کھینچے ہے ناسٹلجیا کہیے، حال سے فرار یا مستقبل سے مایوسی۔ گزرے ہوے زمانے اور گزر جانے والے لوگوں کی یاد، انسان کا دامن تھام لیتی ہے۔ ایک فاضل کالم نگار، پرانے زمانے کی دو چیزوںکو اکثر یاد کرتے ہیں۔ پہلی وہ ہے، جس پر پابندی لگی تو حبیب جالب مرحوم، اس کی طلب سے عاجز آ گئے اور کہا کہ کم بخت چیز ایسی ہے کہ اس کے بارے میں بیان دینا تو رہا ایک طرف، احتجاج بھی نہیں کیا جا سکتا! دوسری جنس وہ ہے، جس سے مخاطب ہو کر، نظیر اکبر آبادی نے یوں تاسف کیا تھا ع لکھوں میں عیش کی تختی پہ کِس طرح میری جاں؟ ان کی اس جرأ ت و استقامت کے اعتراف کے باوجود، بقول ِشخصے آپ کے ہاتھ میں مَیں ہاتھ نہیں دے سکتا داد دے سکتا ہوں، پر ساتھ نہیں دے سکتا! کالم نگار صاحب کی تازہ تحریر سے پتا چلا کہ ان کے ناسٹلجیا کا معاملہ یک نہ شْد، دو نہ شْد، بلکہ سِہ شْد کا ہے۔ انہوں نے فن ِگایکی کے تحت، آنجہانی سہگل کو یاد کیا ہے اور ساتھ ہی سہگل کی مختصر سوانح ِحیات بھی پیش کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سہگل، غزل گانے والوں کے سرتاج ہیں۔ حالانکہ یہ سِہرا، بالاتفاق مہدی حسن مرحوم کے سر سج چکا ہے! غزل گایکی میں، مہدی حسن سب کے ناسخ ثابت ہوئے ہیں! جہاں بیگم اختر سے لے کر جگجیت سنگھ تک، کِسی کا چراغ نہیں جلا، وہاں سہگل کس شمار میں ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر کیا چیز ہے، جسے کالم نگار صاحب یاد کرتے ہیں؟ سہگل؟ یا وہ زمانہ، جب اْن کی آواز کالم نگار کے کان پڑی تھی؟ کالم نگار نے اپنی یادوںکا چراغ جلایا تھا لیکن خود یہاں بھی ع اس اک چراغ سے، کتنے چراغ جَل اٹھے ابھی کل کی بات ہے کہ نصرت فتح علی خاں ساری دنیا کو اپنی لَے کاری سے مسحور کر رہے تھے۔ شہنشاہ ِغزل مہدی حسن نے غزل گایکی میں جادو جگا رکھا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ لڑکپن میں کوئی غزل ایسی سنی تھی، جس کا ایک مصرعہ، مہدی حسن نے سترہ دفعہ گایا تھا۔ یوں کہیے کہ ہر بار مختلف طریقے سے، دل کے تار چھیڑتے رہے۔ زمانے کا انقلاب ہے کہ نصرت فتح علی خاں اور مہدی حسن کے بعد، ہمیں اکتفا کرنی پڑ رہی ہے راحت فتح علی خاں اور غلام علی پر! وہ بھی وقت تھا، جب آنند بخشی اور قتیل شفائی کے نئے گیتوں کا انتظار رہتا تھا۔ زمانے کی اوچھی کروٹ ہے کہ بخشی صاحب کی جگہ براجمان ہیں سمپورن سنگھ گلزار اور قتیل شفائی کی جگہ آ بیٹھے ہیں جاوید اختر! ع تفو بر تو اے چرخ ِگردان تفو آنند بخشی ہندوستان کے غالباً سب سے بڑے نغمہ نگار تھے۔ طبع موزوں، زبان ٹھْکی ہوئی، کلاسیکی لٹریچر پڑھے ہوئے۔ گلزار نے، سچ یہ ہے کہ اس صنف کے مزاج اور معیار، دونوں کو تباہ کر دیا ہے۔ دوسری طرف جاوید اختر ہیں، جن کے خاندان میں بدذوقی نسلاً بعد نسل چلی آتی ہے! مضطر خیر آبادی کے ہاں جانثار اختر ہوئے اور ان کے گھر جاوید اختر! اور وہ بھی اس طور کہ ع پھٹا آتے ہی ڈھائی مَن کا گولہ! جاوید اختر آدمی بھی نہایت لالچی ہیں۔ نغمی صاحب بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ایک نہایت معروف ڈراما نگار اپنے سنگر بیٹے کو بالی ووڈ میں متعارف کرانا چاہتے تھے۔ جاوید اختر سے رابطہ کیا گیا تو موصوف نے چھوٹتے ہی کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے، یہ بتائیے کہ مجھے کیا دیجیے گا؟ یہی ہندوستان تھا جس میں شاد عارفی جیسے غیور اور دبنگ شاعر ہوا کرتے تھے۔ وہی شاد عارفی، جن کا شعر اردو صحافت میں ضرب المثل بنا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو گھری ہوئی ہے…اِلخ اصل میں زمانہ اب فاسٹ فوڈ، فاسٹ لین اور ڈرائیو تھرو وغیرہ کا ہے۔ محنت سے اکثر لوگ، جی چْراتے ہیں۔ مولانا ظفر علی خاں روزنامہ زمیندار کی پیشانی اپنے اس شعر سے سجایا کرتے تھے۔ نور ِخدا ہے کْفر کی حرکت پہ خندہ زن پھْونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاے گا اس اخبار کے تیور اور تاریخ ذہن میں لائیے۔ شعر کا لطف دوبالا ہو جاے گا! "زمیندار" بند ہوا تو "ستارۂ صبح" کی لوح، یوں چمکائی گئی۔ من آن ستارۂ صبحم کہ در محل ِطلوع ہمیشہ پیشرو ِآفتاب می باشم انگریزوں کو اس طرح للکار کر آزادی کی نوید دینا، مولانا ہی کا دل گردہ تھا! چراغ سے چراغ جلا کرتا تھا، مگر اب؟ تیرگی میں تیرگی مِلتی جا رہی ہے! نوواردوں اور تازہ کاروں کو کیا خبر کہ جن لفظوں کو ہم آج، بے تکلف استعمال کرتے ہیں، ان کے ایجاد کرنے والوں کو کیا کیا جگر کاوی کرنا پڑی! مولانا کی گڑھی ہوئی بیسیوں اصطلاحیں، آج بھی روز مرہ ہیں۔ مثلا "سنسنی خیزی" اور "ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر" وغیرہ۔ کبھی تفصیلی ذکر ہو گا کہ "بونگا" کے مردہ لفظ میں روح، انہوں نے کیونکر پھونکی اور پارٹی بدلنے والوں کے لیے، "لوٹا" کا لفظ، سب سے پہلے انہوں نے کب استعمال کیا! مولانا مترجم بھی غضب کے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی کی معرکتہ الآراء تصنیف "الفاروق" کا ترجمہ، انہوں نے انگریزی میں کیا تھا اور قائد ِاعظم کی ایک مشہور تقریر کا اردو ترجمہ، ہاتھ کے ہاتھ کرتے گئے۔ ترجمے کا کام بھی اب مکھی پر مکھی مارنے کے برابر ہے۔ مثلا "بگر پکچر" کو "بڑی تصویر" لکھا جا رہا ہے اور "فائنل انیلسِس" کو "آخری تجزیہ"! حالانکہ ان کا صحیح مفہوم "پوری تصویر" اور "حتمی تجزیہ" سے ادا ہوتا ہے۔ اسی طرح، بعض محاوروں اور اصطلاحوں کے ترجمے کے بجاے، قریب المفہوم اردو متبادل ڈھونڈنے چاہئیں۔ "باقی تاریخ ہے" لکھنا، اردو کے ساتھ اچھا خاصا مذاق ہے! ذکر تھا یاد ِماضی کا اور بات سے بات نکلتی آئی۔ زمانہ کی صبا رفتاری اور گریز پای، دل پر چوٹ کرتی ہے۔ سب واقعات ہیں، مگر اللہ رے انقلاب اب ان پہ ہے گماں کسی رنگین خواب کا یہ کھوئے ہوئوں کی جستجو نہیں بلکہ خود اپنی یاد ہے۔ اسی لیے، جیتے جی اس کا سلسلہ، ختم نہیں ہو سکتا۔ خواہی نخواہی، یادوں کا یہ نگار خانہ آدمی خود سجاتا ہے۔ فاضل کالم نگار بھی، فلاں اور فلاں کو نہیں، اپنے آپ کو یاد کرتے ہیں! بقول ِیگانہ یہ کنارہ چلا کہ نائو چلی؟ کہیے! کیا بات دھیان میں آئی؟