یہ نہیں ہے تو پھر اس چیز میں لذت کیا ہے ہے محبت تو محبت میں ندامت کیا ہے خوب کہتا ہے نہیں اس نے بگاڑا کچھ بھی ہم کبھی بیٹھ کے سوچیں گے سلامت کیا ہے کیا کیا جائے محبت میں ایسا ہی ہوتا ہے میں محبت کو زندگی سمجھا۔ اس محبت نے مار ڈالا مجھے، مگر ان سیاستدانوں اور طالع آزمائوں کو کیسی محبت ہو جاتی ہے کہ جس میں ملک کا ستیاناس ہوتا ہے پہلی محبت جس کا تذکرہ میں نے شعروں میں کیا وہ دوسرے سے محبت ہے اور دوسری قسم کی محبت اپنے آپ سے محبت ہے کیا سمجھے؟یہ میں نہیں کہتا ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ ملک بہت ہی سوچے سمجھے انداز میں برباد کیا جا رہا ہے میں نے ججز اور اٹارنی جنرل کے درمیان ساری گفتگو سنی اور دل تھام کر رہ گیا جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا قتل ایک حوالہ ہی کافی ہے کہ بلدیاتی نام کو ہی ختم کر دیا گیا اب تو لوٹنے والے بھی باہر سے بھیجے جاتے ہیں مگر دل کا درد کس سے کہیں: کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانہ محبت میں اسے سن کے روئوں وہ مجھے سن کے روئے اس غزل کا دوسرا شعر مطلع کو انگیخت لگاتا ہے مطلع بھی دیکھ لیں مری داستان حسرت وہ سن سن کے روئے مجھے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے آپ موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی دیکھیں تو گھن آتی ہے راجہ پرویز اشرف المشہور راجہ رینٹل جو آج تک اپنی بری کارکردگی اور آخری دن کی لوٹ مار سے شرمندہ رہے وہ بھی آج اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اپنا موازنہ موجودہ وزیروں سے کرتے ہیں تو چھا جاتے ہیں۔ وہ کیسے دبنگ انداز میں فرما رہے تھے او مجھے راجہ رینٹل کہنے والوں!ہاں مجھے اب اپنے راجہ رینٹل ہونے پر فخر ہے کہ میں چار روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کر رہا تھا تم 26روپے فی یونٹ بجلی دے رہے ہو انہوں نے دلچسپ انداز میں یہ بھی کہا کہ چاہے وہ رینٹل ہیں مگر راجا تو ہیں ایک مرتبہ حمایت علی شاعر نے بھی کہا تھا کہ شاعر تو وہ ہیں کیسی تکلیف دہ بات ہے کہ کشمیر کے حوالے سے بھی یہی بات ہوتی رہی کہ کشمیر کا سودا کر لیا گیا اور اب لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے دماغ میں ایک شعر گونجنے لگا: آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل خدا کی پناہ واقعتاً ہمارے ساتھ کیسا ہاتھ ہو رہا ہے اور تو اور گیس کے بل ہزاروں میں آ رہے ہیں اور پھر آئے دن پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اس پر دل جلانے والا ڈرامہ کہ وہ تو 12روپے فی لیٹر بڑھا رہے تھے وزیر اعظم کی نیک دلی اور رحم دلی کہ انہیں 3روپے پر لے آئے ایک ماہ میں دو مرتبہ ایسا احسان۔ بس کریں خان صاحب اذیت ناک اقدام کر کے پھر ایک نیا ڈرامہ کہ ڈائریکٹ کال کہ کوئی پریشان تو نہیں کسی کو کوئی شکایت تو نہیں۔ دوسری جانب اپنے یہ لوگوں کی کالیں ڈیڑھ گھنٹے کے پروگرام پر 13پروڈیوسر کروڑوں کا خرچہ حاصل حصول کیا ؟ زیرو: پہلے تو آگ لگاتے ہیں تماشے کے لئے اور پھر حال بھی وہ خندہ بلب پوچھتے ہیں کم تو شاید کسی نے نہیں کی مگر ان کا تو حوالہ یہ بنا۔ مثلاً زرداری صاحب کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا گیا اور اس یار باش نے یاروں کو بھی خوب عیش کروائی۔ بقول ارشاد بھٹی غیر ملکی دوروں پر وہ 327لوگوں کو لے کر گئے اور غیر ملکی دوروں پر انہوں نے ایک ارب 42کروڑ روپے خرچ کئے۔ دورے 134تھے مگر کمال یہ کہ وہ کیسز سے تقریباً بری ہو چکے خموشی سے انہوں پی ڈی ایم کا فائدہ اٹھایا یہ الگ بات کہ این آر او کسی کو نہیں ملے گا۔ ویسے ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب کا تکیہ کلام یہ بن چکا ہے این آر او نہیں دوں گا پتہ نہیں یہ این آر او ہے کیا کہ بی آر ٹی پر بھی اب نیب پوچھ گچھ نہیں کر سکتا آٹا اور چینی چوروں کا معاملہ بھی ختم شد۔ عمل نہ ہو تو لفظ کس قدر بے معنی اور لایعنی ہو جاتے ہیں شہزاد اکبر کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے کہ وہ کتنی شد و مد سے فرما رہے تھے کہ لندن کی عدالت میں جائیں اور اب لندن کی عدالت نے شہباز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اڑھائی سال میں کسی ڈاکو اور چور سے ایک دھیلا وصول نہیں ہوا اس کارروائی میں کروڑوں پاکستانی عوام کے اٹھ گئے براڈ یا فراڈ شیٹ کا معاملہ بھی شرمناک نکلا ۔کھانے کے کیا کیا انداز نکالے گئے۔ خان صاحب آپ کہیں ٹھہریں تو سہی ایک طرف آپ فارن فنڈنگ کی اوپن تحقیق کی بات کرتے ہیں ساتھ ہی آپ کا وکیل کہتا ہے کہ آپ کی بات کا مطلب ہی غلط سمجھا گیا اور دستاویز مدعی کو نہیں دی جا سکتیں کہنے والے کہہ رہے تھے کہ خان صاحب کے بعد آپ کے وکیل نے بھی یوٹرن لینا شروع کر دیا آصف شفیع کا شعر ایسے ہی ذھن میں آ گیا: ہمیں تو خاک اڑانا تھی بس اڑا آئے ہمارا دشت میں کوئی پڑائو تھا ہی نہیں میرے پیارے قارئین:کیا کروں دل دکھتا ہے یہ باتیں تو مجھے کرنا ہی پڑی ہیں کہ میرا منصب ہے اور آپ کا میری زبان وقلم پر اعتماد ہے۔ میں طرفداری میں کچھ لکھوں میرے لکھنے سے بھی کیا ہوتا ہے بس دل کا غبار نکل جاتا ہے اور پڑھ کر آپ کا کتھارسز، وگرنہ آپ دیکھیں کہ یہاں کس قدر اندھیر نگری ہے کہ ایک شخص مدہوش سرکاری سارجنٹ کو سرعام کچل دیتا ہے اور پھر اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ پاتا اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ابھی کشمالہ طارق کے بیٹے کا معاملہ دیکھ لیں سارے شواہد بتا رہے ہیں کہ اس کے بیٹے نے چار نوجوانوں کو گاڑی تلے روند ڈالا سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ کہ آہیں بھرتے ہوئے اس جوانوں کو کسی نے نہیں اٹھایا کہ کشمارلہ طارق کے گن مین وہاں پہنچ گئے اور کہنے لگے کہ کوئی قریب آیا تو وہ گولیوں سے بھون دیں گے پھر پچاس ہزار کے مچلکوں پر ضمانت الٹا محترمہ کشمالہ کہہ رہی ہیں کہ وہ چونکہ ایک بڑے عہدے پر ہیں اس لئے حاسدین ان کی کردار کشی کر رہے ہیں اور بھی تشویشناک بات یہ کہ اسلام آباد یکسر بدل چکا ہے کہ وہاں کوئی روک ٹوک اب نہیں کچھ نئے انداز کے لوگ کچھ نئی قسم کی گاڑیاں اور بدلا ہوا موسم کہیں وہ بلیک واٹر قسم کی صورت حال تو نہیں، پھر وہی سپریم کورٹ کی بات کہ کسی ایجنڈے کے تحت ملک کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ایسا نہ ہو کہ ہمیں سمجھتے ہوئے دیر ہو جائے صوفی تبسم نے کہا تھا: ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو