جس طرح لوگ پوچھتے ہیں فضل الرحمن دھرنا دینے کیوں آ رہے ہیں‘ اس طرح یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ عمران خاں ایران اور سعودی عرب کیا لینے جا رہے ہیں۔ ہے کسی کے پاس کوئی جواب ۔کیا سچ مچ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان عرب و عجم کے درمیان بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ماضی میں تو یہ لوگ ‘دونوں ملک ہی‘ ٹھینگا دکھا دیا کرتے تھے‘ کسی سفارتی مصلحت کا مظاہرہ تک نہ کرتے تھے۔ کیا اب حالات بدل چکے ہیں یا اس کی آڑ میں کچھ اور معاملہ ہے۔ چین نے ایران میں ایک بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے‘ ہمارے سی پیک سے بھی زیادہ۔ کیا خطے کی صورت حال بدلنے والی ہے یا کیا معاملہ ہے۔ ہم سے ملک کے اندر کے معاملات تو سنبھلتے نہیں‘ ہم چلے ہیں دوسروں کے معاملات سلجھانے۔ اس وقت وزیر اعظم کی جو ٹیم ہے‘ وہ بھی بس ان کی اپنی ٹیم ہے ویسے ملک کون چلا رہا ہے۔ آج کسی نے کہا ہے چار کا ٹولہ۔ معاملات سمجھ سے باہر ہیں۔ ملک کے اندر کے معاملات بھی کسی کو دکھائی نہیں دیتے۔ افغانستان نے ہمارے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر جس طرح ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ بھی کم تشویشناک نہیں۔ ایک عمارت کا حصہ ہے جو افغان حکومت نے مبینہ طور پر خرید رکھی تھی۔ اس پر افغانستان کا جھنڈا بھی لہراتا تھا۔ پتا نہیں ہم نے اسے سفارتی طور پر قونصل خانے کا درجہ دیا تھا یا نہیں۔ اس پر دو افرادنے مقدمہ کر رکھا تھا یہ ان کی ملکیت ہے۔ سپریم کورٹ نے کسی ایک کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ مقامی انتظامیہ نے نہ صرف اس کا قبضہ دلوایا بلکہ افغان پرچم بھی اتار دیا۔ افغانستان نے فوراٰ اپنا پشاور کا قونصل خانہ بندکر دیا اور سخت احتجاج پر اتر آئے۔ یہ اس سے دو دن بعد ہوا جب ہم طالبان کے اسلام آبادمیں زلمے خلیل زادہ سے مذاکرات کرا رہے تھے۔ ہم کن مصیبتوں میں پھنس گئے ہیں۔ افغانستان میں صلح صفائی ‘ ایران سعودی عرب میں میل ملاپ۔ اس پرتو کہا جاتا ہے کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ جہاں تک اندرونی صورت حال کا تعلق ہے تو وہ اتنی تہہ دار ہے کہ لاکھ سمجھیں میں نہیں آرہی۔ ایک ہوتی ہے اپوزیشن کی حکومت کے خلاف تحریک‘ مگر یہ ایک ایسا احتجاج ہے جس سے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں فاصلہ رکھنا چا رہی ہیں۔ مگر اس کا زور بھی اتنا ہے کہ اس سے الگ رہنا انہیں دشوار نظر آتا ہے۔ کوئی بھی اس احتجاج کی مخالفت کرتا دکھائی نہیںدیتا۔ یوں لگتا ہے کہ یہ خوف بھی ہے کہ جو مخالفت کرے گا وہ پیچھے رہ جائے گا۔ تحفظات اپنی جگہ مگر خود کو اس کے مخالف پلڑے میں بھی نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ تو ہوتا ہے کہ کسی ایسے احتجاج کی صورت میں بعض جماعتیں حکومت کا ساتھ دے دیتی ہیں۔ بعض اپوزیشن کے ساتھ مل جاتی ہیں۔ یہاں یہ منظر نامہ بھی نہیں۔ سبھی کی سبھی حزب اختلاف میں ہیں۔ اس حکومت کی شدید مخالف ہیں۔ اس کی ڈسی ہوئی ہیں۔ اس کے ہاتھوں تنگ ہیں‘ پھر بھی کھل کر سامنے نہیں آ رہیں ہو سکتا ہے کسی کو وقت مناسب معلوم نہ ہو۔ کسی کو ڈر ہے کہ احتجاج کرنے والوں کا اپنا خفیہ ایجنڈا ہے یا وہ کسی وقت بھی راستہ بدل سکتے ہیں: محبتوں میں لگا ہے دلوں کو دھڑکا سا کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے عبید اللہ علیم کی اس غزل کا مطلع بھی کمال کا ہے۔ یہاں اس کے کئی معنی نکلتے ہیں: عزیز اتنا نہ رکھو کہ دم نکل جائے بس اس قدر ہی چاہو کہ جی سنبھل جائے معلوم نہیں یہ احتجاج یہ مارچ یہ دھرنا دم نکالنے کے لئے ہے یا بس جی سنبھالنے کے لئے۔ کوئی دھرنا کسی پشت پناہی کے بغیر نہیں ہوتا۔ جب مقاصد پورے ہو جاتے ہیں تو ختم ہو جاتا ہے یا پھر دم نکل جائے تو شاداں و فرماں گھر لوٹ جاتے ہیں۔ اس دھرنے کی منزل کیا ہے۔ فی الحال کوئی خبر نہیں پہلے تو یہ خیال تھا کہ اکتوبر کے آخری دن اس لئے مقرر کئے گئے ہیںکہ نومبر میں آرمی چیف کی ایکسٹیشن ہے۔ وہ مرحلہ تو پہلے یہ طے ہو گیا۔ اب پھر کیا معاملہ ہے۔ اگر مقصد حکومت کو گرانا ہے تو کون اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ کوئی دھرنا کب ختم ہوتا ہے اور کیسے ختم ہوتا ہے‘ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ کو حاصل کیا کرنا ہے۔ پرانی تاریخ چھوڑیے 88ء کے بعد اس ملک میں جو احتجاج جو ریلیاں جو دھرنے قومی سطح پر اعلان کئے گئے ان کے پیچھے ہمیشہ ایک کہانی رہی ہے۔ اس دھرنے کی پس پشت یا زیر زمیں کہانی کا سراغ نہیں مل رہا۔ یہ نہیں کہ کچھ بتایا نہیں جا رہا بلکہ یہ کہ کوئی بات حتمی نہیں ہے۔ وگرنہ اسلام آباد تو افواہوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے خود سرکاری حلقوں میں اتنی تشویش تو ہے کہ چین سے واپسی کے بعد خبر آئی کہ وفاقی وزیر مذہبی امور کی نگرانی میں مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ نور الحق قادری صاحب نے اس کی تردید کی۔ سرکاری طورپر بھی کہا گیا کہ فی الحال اس کی ضرورت نہیں۔ ہاں کوئی بات کرنا چاہے تو آ جائے۔ برف کچھ پگھلی ہے یا ابھی انا کا پتھر درمیان میں ہے‘ کچھ کہہ لیجیے۔ اس وقت آپ اخبارات کے صفحات دیکھ لیجیے۔ ٹی وی کے پروگرام سن لیجیے۔ وہ سب جو حکومت کے حامی ہوا کرتے تھے‘ اب بدلے بدلے دکھائی دیتے ہیں۔ کل گورنر ہائوس میں ایک ظہرانہ تھا۔ اس حکومت کے آنے کے بعد مرے لئے پہلا موقع تھا کہ کسی ایسی تقریب میں بلایا گیا ہوں۔ زندگی میں کبھی ان باتوں کی پروا نہیں کی۔ اس سے البتہ اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات کیسے لوگوں کے ہاتھ میں تھے۔ فردوس عاشق اعوان نے جم کر ایک گھنٹے سے بھی زیادہ حکومت کی اقتصادی پالیسی کی وضاحت کی۔ یہ چونکہ سادہ لفظوں میں تھی یا یوں کہہ لیجیے میڈیا کی زبان میں تھی۔ اس لئے سلمان غنی نے کہہ دیا کہ آپ کی وضاحت حفیظ شیخ یا شبر زیدی سے بہتر ہے۔ مگر آپ ذرا سیاست کے بارے میں بھی بات کیجیے۔ وہ بڑی ذہانت سے طرح دے جاتیں مشکل سے مشکل سوال ٹال گئیں۔ وہاں جو اور لوگ بھی تھے‘ ان سب کے انداز سے یہی لگتا تھا کہ حکمرانوں کو آنے والی مشکلات کا اندازہ ہے۔ ان مشکلات پر کیسے قابو پایا جائے۔ عمران خاں کے دھرنے میں نواز شریف اور عمران خان دونوں نے راحیل شریف کو کردار ادا کرنے کے لئے کہا تھا۔ اسلام آباد میں خادم حسین رضوی کا دھرنا جس طرح ختم ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ طاہر القادری کو کیسے رخصت کیا گیا۔ وہ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس وقت صورت حال ایسی نہیں کہ کسی فریق کو اپنا رول ادا کرنے کے لئے کہا جائے۔ کون کس کی طرف سے کس لئے گفتگو کرے۔ اس وقت فوج کو بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ایمپائر کی انگلی کا بھی انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ کیا بنے گا انا کی مچان پر بیٹھے حکمرانوں کا۔ وہ تو صرف شکار کھیلنے آئے ہیں‘ کون درمیان میں پڑے گا۔ کون مذاکرات کرے گا۔ یہ درست ہے کہ ان کے پاس ایک بازوئے شمشیر زن ہے جس کا نام بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ ہے۔ مگر یہ تو آخری آپشن ہے۔ اس کا مطلب ہے تصادم۔ ایسا ہوا تو وہ پارٹیاں جو نیم دروں‘ نیم بروں اس معرکے میں اتری ہیں‘ وہ بھی کھل کر میدان میں ان سکتی ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہے مولانا فضل الرحمن کیا لمبا پڑائو ڈالنے کے لئے آ رہے ہیں یا انہیں صحیح موقع پر اپنے احتجاج کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ مولانا خوامخواہ اپنی طاقت زائل کرنے کے قائل نہیں۔ وہ ویسے بھی مفاہمت کی سیاست کرتے آئے ہیں۔ یہ حکومت کی ناکامی ہے کہ اس نے انہیں مدافعتی اور مزاحمتی سیاست پر مجبور کر دیا ہے۔ اس سے پہلے کہ تیر کمان سے نکل جائے یا کسی کی کمان سے بھی‘ دونوں لشکری کمانیں تانے کھڑے ہیں۔ بہتر ہے کوئی راستہ تلاش کر لیا جائے۔ وگرنہ مجھے نہیں معلوم کیا ہونے والا ہے۔ کسی کو خبر ہے تو بتا دے۔ اسلام آباد والے کہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ سب کیا ہے‘ مگر بتاتے وہ بھی نہیں۔ شیخ رشید کی بھی زبان لڑکھڑا رہی ہے۔ وہ تو چین کے ساتھ ریلوے کے ایم ایل ون والے منصوبے کے بارے میں بھی کچھ نہیں بول رہے۔ واپسی پر انہیں چپ سی لگ گئی ہے۔ چھوڑو‘ چپ ہی اچھی ہے۔