اینا ایلینور روز ویلٹ امریکہ کی سب سے زیادہ عرصہ خاتون اول ہی نہیں رہیں بلکہ انہوں نے اقوام متحدہ میں امریکہ کی نمائندگی بھی کی۔ایلینا نے کہا تھا کہ اعلیٰ دماغ خیالات اور امکانات پر بحث کرتے ہیں اوسط درجے کے دماغ واقعات جبکہ ادنیٰ درجے کے دماغ کی بحث کا موضوع لوگ ہوا کرتے ہیں۔ ایلینور کے معیار کو کسوٹی بنا کر پاکستانیوں کی ذہنی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سٹیٹ بنک آف پاکستان کی 7ستمبر کو جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شہباز حکومت نے اپنے پہلے تین ماہ میں ملکی قرضوں میں 6 ہزار 799ارب کا اضافہ کیا ہے یوں نئی حکومت نے ملکی معیشت پر روزانہ کی بنیاد پر 75ارب قرض کا بوجھ ڈالا ہے۔ نئے قرضوں میں 4ہزار 439ارب بیرونی جبکہ 2ہزار 216ارب ملکی قرض ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق پاکستانی معیشت میں قرض لوٹانے کی سکت اس حد تک ختم ہوچکی ہے کہ حکومت ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم عوام کے فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف کرنے کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔ان حالات کا تقاضا تو حکومت اپوزیشن اور عوام کی دن رات بحث کا موضوع پاکستان کو قرضوں کی دلدل سے نکالنا ہونا چاہیے تھا مگر حکومتی اکابرین عمران خان کو ،کوکسنے اور عمران خان کی تان چور ڈاکو پر ٹوٹتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں میڈیا عوام الناس کی ذہن سازی کا بہترین آلہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ حکمران اشرافیہ کی بحث کا موضوع افراد ہیں تو میڈیا واقعات پر لمحہ بہ لمحہ کمنٹری کر رہا ہے۔حکومت آئی ایم ایف سے قرض ملنے کو خوشخبری بتاتی ہے تو میڈیا پٹرول پیاز ٹماٹر اور بجلی کے نرخوں میں آئے روز اضافے پر نوحہ خواں ۔ پاکستانی قرض کی اس دلدل میں ناک تک کیوں دھنستے چلے گئے ان سے نجات کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟اس بات پر توجہ دینے کی حکمران اشرافیہ کو کوئی فکر ہے نہ ہی میڈیا عوام کو قرض کے مضمرات کے بارے میں آگاہی فراہم کر رہا ہے ۔کوئی یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارہ کرنے پر تیار نہیں کہ آخر پاکستان کو دھڑا دھڑ قرض کیوں مل رہا ہے؟ قرض دینے والوں کا ایجنڈا کیا ہے؟ اگرمیڈیا ریٹنگ کے بجائے قوم کی ذہن سازی کو ترجیح دے رہا ہوتا تو عوام کی توجہ سیاستدانوں کی رسہ کشی کے بجائے قومی ایشوز پر مبذول کر وا رہا ہوتا ۔پاکستانیوں کو بتایا جاتا کہ دنیا بھر میں کمزور ممالک کو کس طرح قرضوں میں جکڑا جا رہا ہے۔ پچھلے 20سال سے عالمی جی ڈی پی کے مقابلے میں قرض دگنی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ قرض عالمی جی ڈی پی کا 355 فیصد ہے ۔دنیا کے مقروض ممالک نے محض پچھلے سال سود کی مد میں 11ٹریلین ڈالر ادا کئے۔ آخر یہ قرض دے کون رہا ہے؟ سود کے 11ٹریلین ڈالر کن بنکوں میں کن کھاتوں میں جمع ہوئے۔اگر حکمرانوں اور میڈیا اس جانب توجہ دیتے تو آج عمران خان جلسوں میں آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازعہ بنا رہے ہوتے نہ ہی حکومت اپنی تمام تر توانائیاں عمران خان کو منظر سے غائب کرنے کے لئے صرف کر رہی ہوتی۔ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کیا دنیا میں پاکستان کے علاوہ مقروض ممالک کے عوام اور میڈیا کا کردار بھی یہی ہے؟ جو ممالک قرض کے بوجھ تلے دبے ہیں وہاں کی حکومتیں اور عوام کی بحث کا موضوع کیا ہے!! یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی پروفیسر باربرا والٹر نے کتاب لکھی ہے کہ خانہ جنگیاں کیسے شروع ہوتی ہیں انہوں نے برما، شمالی آئر لینڈ‘ روانڈا ‘ سری لنکا‘ شام اور یوگو سلاویہ کے واقعات میں مشترکہ عناصر دریافت کرنے کی کوشش کی اور اس نتیجے پرپہنچی ہیں کہ دنیا کے جن جن ممالک میں خلفشار یا سیاسی عدم استحکام ہے اس کے پیچھے ان ممالک کی اقتصادی حالات رہے ہیں۔ انہوں نے اٹلی کے لوگوں کے بارے میں لکھا ہے کہ وہاں طنزیہ طور پر ایک بات مشہور ہو چکی ہے ’’ اب ہمیں جو کہا جائے گا وہی کرنا پڑے گا‘‘کیونکہ جرمن اور فرانسیسیوں نے ہمیں اربوں یوروز دیئے ہیں اب وہی ہمارے فیصلے بھی کریں گے۔ اٹلی میں یہ تاثر مضبوط ہو چکا ہے کہ ان کا وزیر اعظم یورپ کے مرکزی بنک کا گورنر رہ چکا ہے یورپی یونین نے اٹلی کو 200ارب بحالی کے لئے فراہم کئے ہیں تو اٹلی کا وزیر اعظم عوام اور ملکی مفاد کے بجائے یورپی یونین کی پالیسیوں پر ہی عملدرآمد کو یقینی بنائے گا۔ ہمارے وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے قرض ملنے کو خوشخبری بتا رہے ہیں مگر قرض کی وجہ سے آنے والی مہنگائی سے پاکستانی خودکشیوں پر مجبورہیں۔ صرف پاکستان ہی کیوں برطانیہ میں ایک سروے کے مطابق افراط زر میں اضافے کے باعث اوسط گھرانے کی قوت خرید میں 1200پونڈ کمی آئے گی۔ پوری دنیا عالمی قرضوں سے متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی سطح پر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2011 میں عرب بہار تحریک میں ایک اہم عنصر اشیاء خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ تھا ۔ 2019ء میں یہی مسئلہ دنیا بھر بشمول یورپ میں احتجاجوں کا موجب بنا۔ اس سال سری لنکا میں جو ہوا اس کے پیچھے بھی قرضے ہی تھے۔ حکومت قرض واپس کرنے کے لئے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتی رہی یہاں تک کہ سری لنکا بدامنی کی آگ میں جلنے لگا۔ سری لنکا کے حکمرانوں نے بھی عالمی مالیاتی اداروں سے قرض عوام کی خوشحالی اور سری لنکا کی ترقی کے نام پر لیا تھا۔ عالمی مالیاتی اداروں کا قرض حکمرانوں کو جتنا بھی مہرباں لگے مگر ترقی پذیرممالک اور وہاں بسنے والے عوام کے لئے ستمگر ہی ثابت ہو رہا ہے۔ ناصر بشر نے کہا ہے نا: وہ مہربان بھی لگتا ہے اور ستمگر بھی کہ اس کے ہاتھ میں ایک پھول بھی ہے پتھر بھی یہ کیسی امن کی خواہش ہے میرے دشمن کی کہ فاختہ کے گلے میں بندھا ہے خنجر بھی