پشاور میں بیٹھ کر عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو انہوں نے خاص طور پر سابقہ فوجیوں اور ان کے خاندانوں سے اپیل کی کہ وہ اسلام آباد پہنچیں۔ یقینا انہیں پورا ادراک تھا کہ مڈل کلاس اور مڈل کلاس میں خاص طور پر سابقہ فوجی ان کی تحریک کے پر جوش حمائتی ہیں۔ ایسا کب ہوا کہ سابقہ فوجی اور ان کے خاندان عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے؟ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے تو میاں صاحب تھے۔ایسا کیا ہوا کہ فرسٹ پی ایم اے لانگ کورس کے کمر خمیدہ وار ویٹرن سمیت لاکھوں غازیوں اور ہزاروں شہداء کے خاندان کا جھکائوکسی ایک طرف ہو گیا ! بڑے میاں صاحب نے سیاست اور میری عمر کے از کارِ رفتہ سپاہیوں نے اپنے عسکری کیرئیر کا آغاز تقریباََ ایک ساتھ کیا تھا۔اگرچہ یہ ایک عام تاثر ہے کہ میاں صاحب کے سیاسی منظر نامے پرتیزی سے ابھرنے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا ، تاہم مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ادارے کے اندرہمارے درجے کے افسروں میںان کی شخصیت سے متعلق کسی خاص پسند و نا پسند کا احساس پایا جاتا ہو۔یوں تو کہا جاتا ہے کہ بطور وزیرِ اعظم ان کی کسی آرمی چیف سے نہیں بنی، تاہم گمان یہی کہ ادارے سے متعلق ان کی گہری بدگمانی کا آغاز کارگل آپریشن کے آخری دنوں میں ہوا۔ مجھے یاد ہے امریکی صدر سے ہمارے وزیرِ اعظم کی ملاقات کے بعد جب ادارے کے اندر چوٹیاں خالی کئے جانے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی دلدوز شہادتوں پر شدید ردعمل سامنے آرہا تھاتو اس وقت کے آرمی چیف نے مختلف چھائونیوں میں افسروں سے مخاطب ہونے کا سلسلہ شروع کیا۔ میں نے جنرل مشرف کا خطاب سیالکوٹ میں سنا ۔ دو پہلو اس خطاب کے مجھے آج بھی یاد ہیں۔اولاََبہت تیز و تند سوالات کو چیف نے تحمل سے لیا۔ ثالثاََ، جنگ کے دوران سویلین حکومت کے طرزِ عمل سے جڑے کئی پہلوئوں پر تحفظات رکھنے کے باوجود کسی سویلین شخصیت سے متعلق ناراضگی کا اظہار وہاں موجود افسروں کی جانب سے نہ ہوا ۔ وہی افسر برسوں بعد آج ریٹائرڈ زندگی بسر کررہے ہیں اور اب کسی ایک فرد نہیں پورے خاندان سے ہی بیزار نظر آتے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ جب وزیرِاعظم نواز شریف کا تختہ الٹا گیا تو مجھے اس پر قطعاََ خوشی کا احساس نہیں ہوا تھا۔ بلکہ میں کہوں گا کہ ایک عرصے تک ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے میری یہ خواہش رہی کہ کسی طرح معاملات مزید بگڑنے کی بجائے افہام و تفہیم کی طرف چلے جائیں ۔معاملہ فہمی تو ہو گئی مگر اس کے نتیجے میں میاں صاحب اور ان کا خاندان ہم سب پاکستانیوں کو حیران و پریشان چھوڑ کو عازمِ سرزمینِ عرب ہوا۔الیکٹرانک میڈیا نیا نیا وارد ہوا تو میاں صاحب کے حواری سرِ شام مخصوص اینکر پرسنز کے ٹاک شوز میں آتے اور اپنے اپنے ’خیالات‘ کا اظہار فرماتے۔ تاہم ادارہ جاتی ’عصبیت‘ کے جذبے کی بناء پر فوجی حکمران سے ہمدردی رکھنے کے باوجود ہم جیسے مڈل رینکنگ افسران کی اکثریت تب بھی میاں صاحب سے اس قدر بد گمان نہیں ہوئی تھی۔ وطن واپس لوٹے تو میاں صاحب ناراض تھے۔آزاد کشمیر کی سرحد پر کھڑے ہو کر کہا کہ کشمیریوں کو اس قدر نقصان بھارتی فوج نے نہیں پہنچایا جس قدر پاکستانی فوج کے ہاتھوں پہنچا۔ بے نظیر بھٹو کے منظر عام سے ہٹنے کے بعد زرداری صاحب کا ستارہ ابھرا تو اسٹیبلشمنت کے لئے میاں صاحب مزید نا گزیر ہو گئے۔زرداری صاحب کے دورِ حکومت میں ہی پاکستانی معاشرے کے اندر ایک ارتقائی تبدیلی کے مظاہر صاف سامنے نظر آنے لگے۔پاکستانی مڈل کلاس نے پہلی بار سیاست میں اپنی حیثیت منوانے کا فیصلہ کیا۔ سال 2013ء کے انتخابات میں لاکھوں متوسط طبقے کے پاکستانیوں کی طرح حاضر سروس اور ہزاروں سابقہ فوجیوں نے بھی عمران خان کو ووٹ ڈالے۔اندازہ یہی ہے کہ حکمرانی کو اپنا موروثی حق سمجھنے والے کچھ افراد نے متعدد عوامل کی بناء پر وقوع پذیر ہونے والی اس معاشرتی تبدیلی کی حرکیات کو سمجھنے کی بجائے سیدھا ادارے سے ہی نمپٹنے کا فیصلہ کیا۔یہ وہی دور تھا جب ففتھ جنریشن جنگ پورے عروج پر تھی۔اقتدار سنبھالنے کے بعد میاں صاحب پہلی بار کوئٹہ پہنچے تو چھائونی کی اہم سڑکوں پرعسکری روایت سے ہٹ کر خیر مقدمی بینرز آویزاں کئے گئے۔مجھے یاد ہے کہ مہمانوں کے بیزار چہروں پر عجب حقارت کے تاثرات دیکھنے کو ملے۔ دو معاملات نے ادارے کے اندرکچھ ایسی بحرانی کیفیت طاری کی کہ ادارے کے سربراہ کو اپنے ادارے کے وقار کے تحفظ کا اعادہ سرِ عام کرنا پڑا۔دھرنے کے محرکات جو بھی ہوں ،یہ طے ہے کہ پاکستان کی مڈل کلاس کی سیاسی سوچ کے اندر کئی برسوں کے ارتقائی عمل کے نتیجے میں نمو پذیر ہونے والی’تبدیلی ‘کی خواہش اس وقت تک پختہ ہو چکی تھی۔گمان یہی ہے کہ 2014ء کا دھرنا پاکستان کی پہلی سیاسی سرگرمی تھی کہ جس میں سابقہ فوجیوں نے اپنے خاندانوں سمیت عملی طور پر حصہ ڈالا۔ اوپر تلے وقوع پذیر ہونے والے کئی واقعات کو یہاں دہرانا مناسب نہیں، تاہم کہا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب کا تیسرا دورِ حکومت باہم بد گمانی کے حوالے سے بد ترین دور تھا۔ اسی کش مکش کا ایک نتیجہ ’ڈان لیکس‘ کی شکل میں نکلا،جبکہ میاں صاحب کی صاحبزادی کا نام اسی باب میں ایک متحرک کردار کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اکتوبر 2020 ء میں میاں صاحب نے لندن میں بیٹھ کر اہم شخصیات کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کیا تو جمہوریت، سویلین بالا دستی اوراعلیٰ انسانی اقدار کا درس دینے والوں نے اپنی تمام تشنہ امیدیں باپ بیٹی سے وابستہ کر لیں۔برسبیلِ تذکرہ پوچھا جا سکتا ہے کہ آج کیا وہ امیدیں بارآورثابت ہوئیں؟ اسلام آباد لانگ مارچ کا نتیجہ آئندہ چند روز کے اندر جو بھی نکلے، ایک بات طے ہے کہ سلامتی کے اداروں سے کسی بھی زمانے میں وابستہ رہنے والے پیر و مرد و زن کی بھاری اکثریت نے پہلی بار وہاں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے جو عموماََ سکہ بند سیاسی کارکنوں کا میدان سمجھا جاتا ہے۔جلسے جلوسوں کی بات اور ہے، لانگ مارچ کے اندر جب ریاست کی پوری قوت شہریوں کے خلاف کار فرما تھی تو کوئی غیر مرئی خلائی مخلوق نہیں، پڑھے لکھے گھرانوں کے مرد، بوڑھے، عورتیں اور بچے تھے جو سارا دن اور رات سڑکوں پر بد ترین آنسو گیس کا سامنا کرتے رہے ۔پاکستان کی مسلح افواج ایک قومی ادارہ ہیں، اور کوئی ایک سیاسی جماعت یا گروہ اس پر حقِ ملکیت جتا نہیں سکتا۔ لاکھوں کی تعداد میں ملک کے اندر اور باہر بسنے والے سابقہ فوجی مگر پاکستان کی مڈل کلاس کا حصہ اور آزاد شہری ہیں، نا تو انہیں cult followersیا دوسرے تضحیک آمیزالقاب دینے سے بات بنے گی، نا ہی ریاستی جبر کے ذریعے انہیں دبایا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی قومی رہنمائی کا دعویٰ دار فرد ملک پر حکومت کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے جبکہ سن رسیدسابقہ سینئر افسروں سمیت غازیوں اور شہداء کے لاکھوں خاندان اس سے ناراض ہوں!