محمود خان اچکزئی کی اقبال پارک لاہور میں مینار پاکستان کے زیرِ سایہ کی گئی تقریر غیر متعلق نہیں تھی، اچکزئی صاحب نے ہنستے مسکراتے ہوئے طنز کرنے اور طعنہ زنی میں بڑے طاق ہیں، وہ جلسہ گاہ میں ہوں یا پارلیمنٹ کی ایوان میں، یہ ان کا مخصوص انداز ہے، برسوں پہلے جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں سیاسی جماعتوں کی کانفرنس طلب کی تھی، لیاقت بلوچ نئے نئے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے وہاں انہوں نے یوں ہی مسکراتے ہوئے انہیں آئی ایس آئی انتخاب قرار دے دیا تھا، تب سارے شرکاء زہر یلی مسکراہٹ کے سوا کچھ نہ کرسکے ۔ اب کے بار لاہوریوں کو طعنہ دینے میں بڑی حد تک حق بجانب ہیں، یہ صرف لاہوریوں پر نہیں بلکہ آرپار کا نعرہ لگانے کے بعد سب کی امیدوں کو خاک میں ملادینے پر رنجیدہ ہیں، ایسا کرتے وقت یقینا ان کے ذہن میں وہ منظر بھی رہا ہوگا جب نواز شریف جیل جانے اور سپریم کورٹ اپیل کے حق محفوظ کرنے کے لیے لندن سے اسلام آباد کی بجائے لاہور کے ہوائی اڈے پر اترے تھے، اس امید کے ساتھ کہ لاکھوں کا جلوس انہیں کندھے پر اٹھائے عازم اسلام آباد ہوگا، تو سپریم کورٹ کے در وبام لرزنے لگیں گے اور گوجرانوالہ تک جاتے پوری قوم معزز جج صاحبان اور اسٹبلشمنٹ سب دست بستہ ان کی رہائی ، مقدمات سے خلاصی اور اقتدار میں واپسی کی نوید لیے منتظر ہوں گے مگر ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ ۔ اچکزئی سردار کی تقریر اگر دوبارہ غور سے سنیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ ان کا رُخ پنجابیوں کی طرف نہیں تھا بلکہ انہوں نے جلسہ گاہ میں شرکاء کی تعداد دیکھ کر حالت مایوسی میں طنز وکنایہ سے اپنی بات کہہ دی اور میزبانوں کی براہِ راست دل شکنی سے بھی احتراز کیا، عام حالات میں شرکاء کی تعداد سے صرف نظر کیا جاسکتا تھا بشرطیکہ یہ جلسہ آر پار کے چیلنج کے بغیر موچی دروازے یا مال روڈ پر کیا جاتا اس صورت میں یہ دل کی تسلی کے لیے کافی تھا۔ اڑتے ہوئے ڈرون کے ذریعے فوٹوگرافی نے جلسہ گاہ میں شرکاء کی تعداد اور ان کے سرد رویوں کو پورے ملک کے عوام اور پی ڈی ایم کے قائدین کو بار بار دکھایا ۔ عوام تک براہ راست یہ منظر دکھانے والے نشریاتی اداروں وہ بھی شامل تھے جو عمران خان اور اس کی حکومت کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں، مگر اپنے کیمروں کی براہ راست تصاویر کو وہ بھی نظر انداز نہ کرسکے اور 13دسمبر کی محفل کے ہیرو ’’نواز شریف ‘‘ کے خطاب کے دوران اجڑے مناظر کو چھپائے رکھنا ممکن نہ تھا، بدقسمتی سے میاں صاحب کی تقریر کے دوران وہ سامعین بھی رخصت ہوگئے جو بالعموم جلسہ ختم ہوکر اسٹیج خالی ہونے تک اپنی جگہ پر جمے رہتے ہیں۔ اس صورتحال نے حکومت ہٹانے کے خواہشمندوں کی امیدوں پر پانی پھیردیا۔ مسلم لیگ نون کے لیڈر جاوید لطیف کا بیان اور اچکزئی کی تقریر دراصل منتخب ممبران اسمبلی اور چوری کھانے والے مجنوؤں کی بے وفائی کا شکوہ ہے ، کیمرے کی آنکھ نے پورے قوم کو سچ دکھادیا اور ساری حقیقت وضاحت سے بیان کردی۔ اب اس پر آنکھیں کھولنے کی بجائے بند رکھیں تو بند آنکھوں میں بھی انہیں بھیانک مستقبل کا ڈراؤنا ہیولا نظر آئے گا۔ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں ، حکومتی ترجمانوں کے بیانات ، کالم نویسوں کے مضامین ، تجزیہ کاروں کے اندازے ، جلسہ گاہ میں بھاگ دوڑ کرکے خبریں پہنچانے والے رپورٹر ان میں کوئی بھی حقیقت پسند اور غیر جانبدار ’’عامر خاکوانی‘‘ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ خاکوانی صاحب نے اپنے کالم میں جلسے کے شرکاء کی تعداد پچیس ہزار لکھی ہے۔ انہوں نے معروضی حالات اور موسم کے تقاضوں میں پچیس ہزار کو متاثر کن قرار دیا ہے، گیارہ جماعتی اتحاد جو حکومت ہٹانے نکلا ہے اگر وہ لاہور میں جو مسلم لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اورجس کے نواح میںگوجرانوالہ ڈویژن بھی ہے اور مولانا فضل الرحمن کو ’’آرپار ‘‘کی کامیابی کے لیے بعض مقامی دینی مدارس کا تعاون حاصل رہا ہوگا۔ پی ڈی ایم کی، پرکشش اور زہر اگلتی ،رہنما کئی ہفتوں سے گلی گلی گھوم کر لاہوریوں کو براہ راست جلسہ گاہ میں آنے کی دعوت اور فضل الرحمن کے دعوے ، رانا ثناء اللہ کی چیخ وپکار اور صرف پچیس ہزار کا اجتماع دیکھ کر ہی پی ڈی ایم وزیراعظم سے استعفے مطالبہ دہرانے کی بجائے اپنے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا ایٹم بم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ویسا ہی ایٹم بم ہے جس طرح رکشہ اور گدھا گاڑیوں کے پیچھے ایف 16طیارہ لکھا ہوتا ہے۔ مختلف ٹیلی ویژن اور اخبارات کے رپورٹر بشمول نواز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے حبیب اکرم دکھاتے اور سناتے رہے کہ مختلف شہروں اور دور دراز صوبوں سے آئی بسیں اور ویگنیں قطار در قطار کھڑی ہیں اور اسٹیج پر دیگر شہروں سے آنے والے قافلوں کا اعلان کیا جاتا رہا ۔ پچیس ہزار لوگ اگر پورے ملک سے ڈھوئے گئے تو لاہوری کیا ہوئے؟یہ بلی اور گوشت والاسوال ہے جو صرف فصیح البیان مولانا فضل الرحمن ہی حل کرسکتے ہیں۔ عمران خان کو ڈرانے اور اسٹبلشمنٹ کو متوجہ کرنے کی ساری کوششیں ناکام رہی ہیں خصوصاً لاہور کے جلسے نے جہاں اپوزیشن اتحاد کے عبرت اثر مستقبل کی نشاندہی کرتے ہوئے حکومت کو زیادہ محفوظ اور پراعتماد بنادیا ہے ، حکومت کے بعض اتحادیوں نے گذشتہ برس فضل الرحمن کے دھرنے اور جیل میں قید نواز شریف کے نامہ وپیام نے جو ہلچل مچائی تھی وہ بھی ہمیشہ کے لیے تھم گئی، جب تک نواز شریف جیل میں تھے تب تک چوہدریوں کی قیادت میں مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کے اکٹھا ہونے اور انتخابی اتحاد بننے کی امید زندہ تھی، مگر نواز شریف بھاگ نکلنے اور جیل کی اذیت سے نجات کے بعد اب انہیں ایسے کسی اتحاد کی ضرورت باقی نہیں رہی، یہی وجہ ہے کہ ایوان کے اندر سے تبدیلی کی آوازیں ہمیشہ کے لیے بند ہوچکی ہیں اور اپوزیشن کے پاس استعفوں کا آپشن محض اخبارات کی سرخی اور ٹیلی ویژ ن کے مباحث تک ہے، پیپلز پارٹی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی مدت پوری ہونے سے ایک ہفتہ پہلے تک بھی استعفوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی ۔ آئندہ انتخابات کا انحصار عمران خان کی منشا اور مرضی پر منحصر ہے، وہ قبل از وقت ہوں یا پارلیمان کی مدت پوری ہونے کے بعد ۔ گذشتہ دو ڈھائی برس کی مشکلات کے بعد حکومت سکھ کا سانس لینے لگی ہے۔ احتجاج کو کامیاب بنانے والے طبقات میں سے کوئی ایک بھی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا ساتھ دینے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم کی تحریک کی ناکامی نے اپوزیشن کے ممبران اسمبلی کو تحریک انصاف کے ساتھ رابطوں میں تیزی پر مجبور کردیا ہے ، شیخوپورہ سے مسلم لیگ کے ممبر اسمبلی نے انہی عناصر کی نشاندہی کی کوشش کی ہے، فروری میں سینیٹ انتخابات کے اعلان پی ڈی ایم کے لانگ مارچ اور دھرنے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے: سنا تھا کہ وہ آئیں گے انجمن میں سنا تھا کہ ان سے ملاقات ہوگی ہمیں کیا پتہ تھا ہمیں کیا خبر تھی نہ یہ بات ہوگی نہ وہ بات ہوگی