بلوچستان میں زخموں کے کئی سلسلے ہیں ، کچھ وار غیروں نے کئے کچھ درد اپنوں نے دے رکھے ہیں۔ ایک مسلسل منصوبہ بندی ہے اپنے لوگوں کو ریاست پاکستان کے خلاف اکسانے کی۔ سرداری نظام کے معاشی جبر اور پسماندگی کو ریاست کا ظلم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔امن دشمن بتاتے ہیں کہ ریاست ملزم ہے۔ایسی مذموم سوچ اس لئے پرورش پاتی رہی کہ بلوچ عوام کی بڑی تعداد تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتوں سے محروم ہے۔ریاست یہ سہولتیں دینا چاہتی ہے لیکن اس کے لئے امن درکار ہے۔داخلی جنگیں صرف سکیورٹی ادارے نہیں لڑتے ،حکومت اور سماجی قوتوں کو بھی ذمہ داری اٹھانا پڑتی ہے۔بلوچستان سے عسکری تنظیم بی این اے کے سربراہ گلزار امام شمبے کی گرفتاری اور پھر یہ اعتراف کہ وہ غلط تھا ، صوبے میں قیام امن کے حوالے سے ایک اہم کامیابی ہے۔ بلوچستان کے ضلع پنجگور سے تعلق رکھنے والے گلزار امام نے 2002 میں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے طلبہ سیاست میں شمولیت اختیار کی۔ جب بی ایس او کے کئی دھڑے ایک دوسرے میں ضم ہو گئے ۔دو ہزار چھ میں گلزار امام شمبے کو کالعدم بی ایس او آزاد جو کہ ریاست سے بغاوت کی کھلے عام حمایت کرنے والا ایک دھڑا ہیکا پنجگور کے علاقے کا صدر بنا دیا گیا۔ دیگر دو بڑے علیحدگی پسند گروہوں، گلزار نے زمانہ طالب علمی میں بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF) اور بلوچ لبریشن آرمی کا سربراہ بھی رہا۔جب بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشنآزاد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا تو وہ زیر زمین چلا گیا اور بلوچ ریپبلکن آرمی (BRA) میں شامل ہو گیا ۔ اس کالعدم علیحدگی پسند گروپ کی قیادت براہمداغ بگٹی کے پاس تھی ۔ وہ جلد ہی گروپ کا آپریشنل کمانڈر بن گیا۔2016 اور 2018 کے درمیان، تین بڑے بلوچ علیحدگی پسند گروپوں - حیربیار مری کی زیر قیادت بلوچ لبریشن آرمی (BLA)، براہمداغ بگٹی کی زیر قیادت بلوچ ریپبلکن آرمی (BRA)، اور مہران مری کی قیادت میں یونائیٹڈ بلوچ آرمی (UBA) نے کارروائیاں تیز کر دیں ۔ ان گروپوں میں تقسیم اس وقت شروع ہوئی جب ان کے نچلے اور متوسط طبقے کے فیلڈ کمانڈروں کو احساس ہوا کہ یورپ میں عیش میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ان کے سربراہ غریب بلوچوں کو گمراہ کر کے ان کی ترقی کا راستہ روک رہے ہیں ۔یہ جلاوطن روایتی دولت مند قبائلی سردار ہیں۔ گلزار امام ایک پچھتاوے کی حالت میں تھا ،اسے معلوم ہو چکا تھا کہ اسے اپنے لوگوں اور اپنی سر زمین کے خلاف استعمال کیا گیا ۔ سوئٹزرلینڈ میں مقیم براہداغ بگٹی بی آر اے کے مجموعی معاملات پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ گلزار امام گروپ کی آپریشنل کمانڈ کو سنبھال رہا تھا، براہمداغ اس سے خوش نہیں تھا۔ اس دوران پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں نے ایک بہتر حکمت عملی ترتیب دی۔ وہ چاہتے تو گلزار امام کو ختم کر دیتے لیکن اس سے ریاست کا قانون و انصاف کا نظام متنازع ہو جاتا ،ادارے چاہتے تھے کہ وہ ان لوگوں کی مدد کریں جو عسکریت پسندی سے تائب ہو کر امن کا راستہ اختیار کرنا چہتے تھے ۔ طے پایا کہ گلزار امام کو گرفتاری کے لئے قائل کیا جائے ۔گلزار کی کچھ معمولی شرائط تھیں۔اکتوبر 2018 میں BRA نے ایک بیان جاری کیا، جس میںگلزار امام پر کئی الزامات لگائے گئے ۔ اس کے بعد سے بی آر اے دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ گلزار امام شمبے کا مکران کے علاقے اور بلوچستان کے کچھ دوسرے شہری علاقوں میں زیادہ کنٹرول تھا، جب کہ براہمداغ بگٹی کے وفادار دھڑے کے ڈیرہ بگٹی اور پڑوسی اضلاع میں مضبوط گڑھ تھے۔گلزار امام گرفتاری کے بعد بلوچستان کے عوام سے معافی کا طلبگار ہے ، وہ اعتراف کر رہا ہے کہ اس کا راستہ غلط تھا۔ اس نے عسکریت پسندوں سے اپیل کی ہے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کر دیں ۔یہ حوصلہ افزا باتیں ہیں۔گلزار امام کی گرفتاری اور اس سے منسلک امید افزا امور باتے ہیں کہ عسکریت پسندی ختم کرنے میں وقت لگ سکتا ہے لیکن خلوص بروئے کار ہو تو ہدف کا حصول ناممکن نہیں۔پاکستانی قوم گزشتہ بائیس سال سے دہشت گردی اور تشدد کے خلاف لڑ رہی ہے ۔ ریاست اپنی طاقت اور مضبوط اعادے کے ذریعے قانون شکنوں کے خلاف کروائی کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ ریاست امن کے لئے فولاد ہے ،ساتھ ہی ریشم کی طرح نرم ۔ بلوچستان کا تجربہ بتاتا ہے کہ داخلی جھگڑوں نے نوجوان نسل کو ہماری توجہ سے محروم رکھا ہے ۔دشمن اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہا ہے ۔بلوچستان میں ہاکی،کرکٹ ، باکسنگ، کراٹے ، جمناسٹک وغیرہ کا ٹیلنٹ ہے ۔ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کرنا ہوگا۔ یہ سوال بے جا نہ ہوگا کہ گزشتہ کچھ برسوں میں درجنوں کھلاڑی ، فنکار اور ادیب بلوچستان سے چلے گئے ۔ان لوگوں کے جانے سے مثبت سرگرمیوں کا دائرہ سکڑ گیا ۔نوجوان صحت مند سرگرمیوں میں مشغول ہوں گے تو دشمن کو انہیں گمراہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ معلوم نہیں حکومت اس کے لئے بھی فنڈز کا رونا روئے گی یا اپنی بانہیں کھول دے گی۔ جو لوگ تشدد اور عسکریت پسندی چھوڑ کر آتے ہیں انہیں ایک ہمدرد اور محبت بھرے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔سماج کو ان کی خاطر گنجائش پیدا کرنا ہوتی ہے۔ یقینا ایسے افراد کی بحالی کے لئے متعلقہ اداروں نے کوئی پروگرام تشکیل دے رکھا ہوگا تاہم گلزار امام شمبے جیسے واپس آنے والے یہ بتا سکتے ہیں کہ کس عمر،کس صنف ،کس علاقے کے لوگ تخریب کاروں کے نر غے میں زیادہ آتے ہیں ۔ کیا یہ لوگ حکومت اور اس کے اداروں سے مایوس ہیں یا پھر یہ دہشت گرد تنظیموں سے خوفزدہ ہو کر تباہی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔بلوچستان کے لوگ محب وطن اور بلوچستان کے حقیقی مالک ہیں۔ بلوچستان نئے عہد کی ترقی کا دروازہ ہے ۔انٹیلی جنس اداروں کا کردار قابل ستائش ہے لیکن یہ کافی نہیں ۔حکومتی اداروں کو کوتاہی ترک کرکے فعال ہونا پڑے گا۔ بلوچستان میں خرابی بپا رکھنا ایک ہمسایہ ملک کی حکمت عملی ہے جس پر وہ اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے یہ بھی درست کہ سکیورٹی ادارے عسکریت پسندوں کو پرامن اور خوشحال بلوچستان کے ویژن کو ہائی جیک نہیں کرنے دیں گے لیکن ہماری کوششیں اب بھی ناکافی ہیں ، کئی گلزار امام منتظر ہیں کہ ہم ان کو امن کا راستہ دکھائیں۔بقا بلوچ کی ایک نظم ہے جو شعر کہنے کے لئے حسین اور پر امن لمحوں کی خواہش میں کہی گئی: اداسی کے حسیں لمحوں /کہاں ہو تم /کہ میں کب سے /تمہاری راہ میں /خوابوں کے نذرانے لئے بیٹھا /حسیں یادوں کی جھولی میں /کہیں گم ہوں /ارے لمحو /مجھے اس خواب سے بیدار کرنے کے لئے آؤ /میری سوچوں کے خاکوں میں /ارے لمحوں /کوئی اک رنگ بھر جاؤ /مجھے اک شعر کہنا ہے