مجھ سا کوئی جہاں میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو مجھے ایک دوست نے کہا کہ یہ دوسرا شعر تو یقینا عمران خاں پر صادق آتا ہے۔بہرحال اس پر بات ضرور کریں گے مگر’ رونا یہی تو ہے کہ اسے چاہتے ہیں ہم۔اے سعدؔ جس کے ملنے کا امکان بھی نہ ہو۔ ایک بات کا اعتراف تو مجھے ہر حال میں کرنا ہے کہ حریفوں کی کوشش کے باوجود عمران خاں کی مقبولیت کا گراف اوپر جا رہا ہے۔’ کیا کریں بات اپنی وضاحتوں سے بڑھی۔ہم نے سوچا تھا بات ٹل جائے،آپ تو جانتے ہیں کہ شاعر ادیب کا رابطہ تو ایک دنیا سے رہتا ہے کہ میں نے انسان سے رابطہ کیا۔میں نے سیکھا نہیں نصابوں سے۔ یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ مجھے کھاریاں کینٹ جانے کا اتفاق ہوا تو معروف ڈاکٹر اور سوشل ایکٹی ویسٹ ڈاکٹر عبدالستار سے ملاقات ہوئی تو وہی سوال ان کے لب پر تھا کہ آخر تحریک انصاف کو اس کا جمہوری حق کیوں نہیں دیا جا رہا۔فیصلے کا حق عوام کو دیا جانا چاہیے۔یہاں تک ہی بات ختم نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عبدالستار صاحب مجھے لے کر سرائے عالمگیر لے کر نامور حکیم عرفان صاحب کے پاس آئے تو پھر سیاست کی باتیں شروع ہو گئیں عرفان صاحب ایک زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کے ناظم بھی رہے مگر وہ بھی تحریک انصاف کے ہی طرفدار نکلے وہ تو استحکام پارٹی پر برس پڑے کہ عوام کو چاہیے کہ ان لوٹوں کو ووٹ نہ دیں انہیں عوام کا نہیں اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر کسی نئی آسائنمنٹ پر آ جاتے ہیں۔جب ہم سرائے عالمگیر کی طرف گامزن تھے تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ بہت پرفضا علاقہ ہے۔ واقعتاً شام میں بارش کے باعث کچھ خنکی بھی تھی ۔وہیں آرمی کا کالج بھی نظر آیا۔ڈاکٹر صاحب بتانے لگے یہ جو جنگل نما دو طرفہ علاقہ ہے جسے غالباً ٹبی کا علاقہ کہا جاتا ہے کسی زمانے میں یہاں چور ڈاکو ایسے ہی پناہ لیتے تھے جیسے سندھ میں کچے کا علاقہ ہے مگر جب سے یہاں چھائونی بنی تو سب چور اور ڈاکو ادھر سے نکل گئے۔وہاں میں نے ایک بڑی منڈی مویشیاں بھی دیکھی۔ کینٹ کے ساتھ ہی منڈی مویشیاں دیکھ کر پتہ نہیں کیوں میں ہارس ٹریڈنگ کا سوچنے لگا کہ یہ منڈی سیاست میں بھی تو لگتی ہے۔پیسے لگتے ہیںاور پھر انہیں جہاز میں بھر کر لایا جاتا ہے۔نواز شریف کے دور میں انہیں چھانگا مانگا میں باندھا جاتا تھا کہ ادھر ادھر نہ ہو جائیں۔وہاں میری ڈاکٹر زعیم‘ ڈاکٹر حیدر اور ڈاکٹر حسن سے بھی ملاقات ہوئی ایک نوجوان مفکر سیف الرحمن بھی ملا۔آپ یہ سن کر میری طرح حیران ہونگے کہ ان پر موجودہ پراپیگنڈہ کا کچھ اثر نہیں۔ان کا موقف یہ ہے کہ اس مفادات کی بارگاہ میں ہر کوئی سر جھکا دیتا تھا۔ آپ میری پسند اور ناپسند چھوڑیں میں اگر لوگوں کے سچے جذبات نہیں لکھتا تو پھر میں تنگ نظر ہوں میں کسی کے حق میں نہیں لکھ رہا، عوام کی بات کر رہا ہوں۔ میں مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو بھی ثمر بار ہوتے دیکھ رہا ہوں تو پھر میں ان کی اقربا پروری پر کیوں بات نہ کروں وہ بھی اپنے مفاد پر زد پڑتی دیکھتے ہیں تو ایک بیان داغ دیتے ہیں جس سے ن لیگ وضاحتیں کرتی رہ جاتی ہے اس وقت دوسری طرف زبردست خاموشی ہے مگر یہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے: یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں اس کے سینے سے اگر لہر اٹھا لی جائے اب ذرا حکومت کی کارکردگی دیکھ لیں کہ بقول وزیر اعظم جرأت مندانہ فیصلوں سے معیشت ٹھیک ہو گئی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کی معیشت۔یقینا آپ لوگوں کی معیشت تو بہت اچھی طرح ٹھیک ہو گئی کہ سارے مفادات آپ نے سمیٹ لئے آپ کے ثنا خوانوں کو بھی نواز دیا گیا ۔جتنے بھی بل بیش کئے گئے وہ آپ ہی کی دنیا سنوارنے کے لئے لوگوں کے لئے تھے۔ آپ نے عوام کے لئے کیا کیا ہے۔یہ جرأت مندانہ فیصلے کیا ہوتے ہیں کہ جہاں کسی کو بھی اعتراض کی جرأت نہیں۔ قربانی دینے کے لئے سب بھیڑ بکریاں اپنی جگہ خوش اور مطمئن۔آپ اب ووٹ بھیک کی طرح مانگتے ہیں کہ کارکردگی آپ کی سب کے سامنے ہے آپ قرض سے نجات کی بات کرتے ہیں لوگ آپ سے نجات چاہتے ہیں آپ کو اب اقتدار تو اصولاً چھوڑنا ہی ہے جو بھی ہے آپ جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں یا آکاس بیل کی طرح آپ کی آل اولاد بھی سینٹ کے چیئرمین کی طرح مراعات رکھتی ہیں، یا کم از کم آرزو ان کی یہی ہے عوام بے چارے ووٹ ڈال کر کسی ظالم کا انتخاب کرتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کے ووٹوں کی بھی کوئی اوقات نہیں رہتی۔صورت حال بڑی کربناک ہے ہے۔ آپ ذرا فیاض حسین چوہان کو دیکھیں کہ وہ پھر سچے کا سچا ساڑھے تین سال وزارتیں لوٹنے کے بعد وہ کیسے سیاست کی باتیں کرتے ہیں اور صبح کو شام اور شام کو صبح ثابت کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔ سوال کرنے ولے کچھ بھی پوچھتے رہیں وہ اپنے راگ ہی الا پتے چلے جا رہے ہیں۔ اور آپ فردوس عاشق اعوان کو سنیں۔ ان کے بارے میں کیا کہیں۔ آپ ہی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی