ذوالفقار علی بھٹو دانائی اور دیوانگی کا عجیب سنگم تھے۔ کہتے ہیں کہ جب وہ جیل میں تھے؛ تب انہوں نے ایک بار بیگم نصرت بھٹو کے سامنے جذباتی تقریر کرتے ہوئے ان سے کہا تھا کہ ’’میری پارٹی کے کارکنوں سے کہو کہ وہ عوام سے مل کر پورے ملک کا سسٹم روک دیں۔ جنرل ضیاء کا مارشل لا عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں کرسکتا۔ جب عوام سیاسی کارکنوں کے ساتھ مل کر نکلیں گے تب کوئی قوت انہیں روک نہیں پائی گی۔۔۔۔!!‘‘ ذوالفقار علی بھٹو اپنے مخصوص انداز میں بولتے گئے۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ چپ ہوئے تب بیگم نصرت بھٹو نے بیحد سکون کے ساتھ انہیں کہا ’’زلفی! تم باہر کمیونسٹ پارٹی نہیں ؛ پیپلز پارٹی چھوڑ کر آئے ہو‘‘

بینظیر بھٹو کے بارے میں بھی یہ بات مشہور تھی کہ پیپلز پارٹی کے سینئر کارکن بی بی کا موڈ سمجھنے کے لیے پارٹی ٹیم کا انتخاب کرنے کے سلسلے میں ان کا موڈ دیکھا کرتے تھے اور اس سے سمجھ جایا کرتے تھے کہ بی بی کا موڈ مذاکرات کرنے کا ہے یا انہوں نے محاذ آرائی کے لیے اپنا ذہن بنا لیا ہے؟ یہ وہ بات ہے جو سیاسی تاریخ کے ہر عالم نے دہرائی ہے۔ سب کا خیال ہے کہ جیسا مقصد ویسی جماعت بنائی جاتی ہے۔ اگر ایک بہت بڑا انقلاب لانا ہو اور اس انقلاب سے ریاست کی جڑوں کو ہلا دینا مقصود ہو تو پھر ایک نظم و ضبط والی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر لینن کمیونسٹ نظریے سے مسلح بالشویک پارٹی نہیں بناتے تو وہ زار کی شہنشاہیت کا خاتمہ کرنے کی پوزیشن میں ہر گز نہ آتے۔ یہ ماؤزے تنگ کی ریڈ آرمی تھی جس نے چین میں انقلاب برپا کیا۔ اگر کیوبا میں کاسترو اور چی گویرا بندوق چلانے کے بجائے بتستا حکومت کے خلاف پرامن سیاسی جدوجہد کرتے اور لوگوں کو لیکچر دیتے رہتے تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ امریکہ کی حمایتی حکومت کا تختہ الٹ سکتے۔سیاسی جنگ اور سیاسی جدوجہد تو بہت بڑی بات ہوتی ہے ۔ ہم عام طور پر کسی شکاری کی تیاری دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں وہ خرگوش کا شکار کرنے نکلا ہے یا شیر کا؟ ہر سفر کا سامان الگ ہوتا ہے ۔ منزل کی تیاری الگ ہوا کرتی ہے۔اعلان کرنا اور بات ہے۔ اعلان تو کوئی کیسا بھی کرسکتا ہے۔ 

ہمارے ملک میں سیاستدانوں نے اعلانات کی عزت جس طرح رسوا کی ہے اس کی الگ تفصیل ہے۔ ایک دن ایک اعلان کرنے کے بعد دوسرے دن اس سے متضاد اعلان کرنا ہماری سیاست کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اس لیے عوام سیاستدانوں کے اعلانات اور بیانات کا نوٹس نہیں لیتے۔ اصل بات اعلان نہیں بلکہ عمل ہوتا ہے اور عمل کی ابتدا ساتھیوں کے انتخاب سے ہوتی ہے۔ جب بھی کسی سیاسی رہنما کو کوئی خاص قدم اٹھانا ہوتا ہے تو وہ اس مزاج کے لوگوں کو آگے لاتا ہے اور اس کی وہ تیاری دیکھ کر مخالف قوت سمجھ جاتی ہے کہ وہ مقابلے کے لیے سنجیدہ ہے یا نہیں؟

میاں نواز شریف نے جس طرح آج کسی بھی صورت پاکستان آنے کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ’’جیل جانا پڑے یا پھانسی دی جائے ؛ اب نہیں رکیں گے‘‘ اگر یہی موقف وہ اس وقت اختیار کرتے جس وقت وہ پرویز مشرف کے قیدی تھے اور قید سے آزاد ہونے کے لیے انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور اس معاہدے پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے برسوں تک نہ سیاسی بیان دیا اور نہ پرویز مشرف کی حکومت کے لیے کوئی پریشانی پیدا کی۔ مگر اب وہ جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں انہیں سخت سزا نہیں ملے گی۔ اس لیے وہ بڑے دعوے کرتے ہوئے بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ اگر وہ صرف دل کے کہنے پر واپس آتے تو وہ سزا سنائے جانے والے دن یعنی جمعہ کو تیاری کرتے اور ہفتہ کو پاکستان پہنچ جاتے۔ مگر انہوں نے اپنی واپسی کو اپنی بیگم کلثوم نواز کے ہوش میں آنے سے مشروط کیا۔ کلثوم نواز اب بھی ہوش میں نہیں ہیں۔ مگر بقول میاں نواز شریف وہ انہیں اللہ کے سپرد کرکے واپس آ رہے ہیں۔ اگر انہیں سیاسی فرض ادا کرنا ہوتا تو یہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہوتا مگر ان کے ذہن میں ایک مکمل حکمت عملی ہے۔ وہ اس حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے واپس آ رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ اعلی عدالتوں کی طرف سے انہیں ضمانت حاصل ہوجائے گی مگر وہ انتخابات کے دس دن جیل میں رہ کر ہیرو بننا چاہتے ہیں۔ میاں نواز شریف بہت تجربہ کار لیڈر ہیں۔ وہ ایسے لیڈر ہیں جن کے سیاسی داؤ پیچ کا لوہا اس زرداری نے بھی تسلیم کیا ہے جس کے بارے میں کچھ عرصہ قبل یہ تاثر عام تھا کہ اس کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے مگر جس طرح میاں نواز شریف نے انہیں چھت پر چڑھا کر نیچے سے سیڑھی نکال لی اس کے بعد آصف زرداری اپنے قریبی حلقے میں کہتے ہیں کہ وہ  سیاست میں سانپ پر اعتبار کرسکتے ہیں مگرنواز شریف پر کسی صورت نہیں۔ جب نواز شریف احتساب کے شکنجے میں آ رہے تھے تب نہ صرف نواز شریف بلکہ پوری نواز لیگ نے بھرپور کوشش کی وہ کسی طرح سے میاں نواز شریف سے صرف ملاقات کرلیں مگر آصف زرداری کسی طرح راضی نہیں ہوئے۔ حالانکہ اس دوران قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے انہیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر زرداری نے انہیں صاف انکار کردیا۔ اس وقت آصف زرداری منی لانڈرنگ کیس کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ زمینی حقائق کے حوالے سے وہ ایک کشتی کے سوار ہیں مگر آصف زرداری ماضی کے تلخ تجربات کے باعث اس کشتی میں سوار ہونا نہیں چاہتے جس کشتی میں میاں نواز شریف بیٹھے ہیں۔ کاش! میاں نواز شریف جان سکتے کہ سیاست میں سب سے زیادہ اہم لفظ ’’اعتبار‘‘ ہے۔ اعتبار سیاست کی بنیاد ہے۔

میاں نواز شریف اب کچھ بھی کہیں مگر سب جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ انہیں لوڈ شیڈنگ پر قابو پاتے ہوئے پانچ برس گزر گئے۔ انہوں نے آخری وقت میں عجلت میں جو منصوبے زبردستی پورے کیے اور جس طرح کھینچ تان کر لوڈ شیڈنگ ختم ہوتی دکھانے کی کوشش کی وہ لوڈ شیڈنگ ان کے جانے سے پھر عوام کے مقدر کو تاریک کرنے پر تل گئی۔ میاںنواز شریف کو بخوبی معلوم تھا کہ وہ کسی طور پر بھی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ سے ووٹ حاصل نہیں کرپائیں گے۔ اس لیے انہوں نے کامیابی کے لیے وہ راستہ چنا جو عام طور پر تیسری دنیا اور خاص طور پاکستان میں بہت آسانی سے حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ راستہ ہے ہمدردی کا راستہ۔ جس طرح پیشہ ور گداگر راستے پر کھڑے ہوکر اپنے دکھوں کی کہانی سناتے ہیں اسی طرح ہمارے سیاستدان ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی نام نہاد قربانیوں کے قصے بیان کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف دس دن کے لیے جیل جانے کے لیے اس لیے آ رہے ہیں کہ وہ پنجاب سے ہمدردی کا ووٹ حاصل کرپائیں۔ پوری دنیا میں سیاسی کامیابی کے لیے یہ طریقہ استعمال نہیں کیا جاتا۔ ہمدردی کی سیڑھی رکھ کر امریکہ یا یورپ میں کوئی اقتدار کی بلندی پر نہیں پہنچ سکتا مگر جس طرح ہمارے معاشرے میں لوگوں کے حساس مزاج کا استحصال کرنے کے لیے ہمارے سیاستدان ایسی قربانیاں بیان کرتے ہیں جنہیں سن کر باشعور لوگوں کو غصہ آجاتا ہے۔ مگر عوام سے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے وہ جھوٹی اور من گھڑت کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی ان کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کا فرض ادا نہیں کررہا۔ اس وقت پاکستان کا پورا میڈیا جانتا ہے کہ میاں نواز شریف ’’چند ججوں اور چند جرنیلوں‘‘ سے مقابلہ کرنے نہیں آ رہے ۔اب تو یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ان کے ’’بیانیے‘‘ سے خود مسلم لیگ (ن) کی اکثریت اتفاق نہیں کرتی۔ مسلم لیگ ن کے سینئر ارکان تو کیا ان کے اس انداز سیاست سے میاں شہباز شریف بھی متفق نہیں ہیں۔ مگر ان کی پوری پارٹی اس بات سے آگاہ ہے کہ اگر وہ آج پاکستان واپس آکر دس دن کی گرفتاری کا ڈرامہ رچاتے ہیں تو اس سے ان سب کو ہمدردی کا ووٹ حاصل ہوگا۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) اس موقع پر طاقت کی بھرپور نمائش کرنا چاہتی ہے۔ 

مسلم لیگ (ن) بھی پیپلز پارٹی کی طرح ایک اقتدار پرست جماعت ہے۔ اگر مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف موجودہ پارٹی کے ساتھ پاکستان میں بہت بڑا جمہوری انقلاب لانا چاہتے تو ان کی اس معصوم ادا پر سب کو مسکرانے کا حق حاصل ہے۔ کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف ریاست سے ٹکرانے کے لیے نہیں بلکہ ریاست سے اپنی جان چھڑانے کی کوشش میں ہیں۔ اگر ان کے ذہن میں یہ بات ہے کہ وہ اس پارٹی کے ساتھ ملکی اسٹیبلشمنٹ کو جھکنے پر مجبور کر دینگے تو اس قسم کی سوچ پر ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے ‘‘دودھ کے دانتوں سے پہاڑ چبانے نکلے ہو؛ اے سادہ انسان !کیا خواب دیکھنے کے لیے رات کافی نہیں؟‘‘