شیکسپئیر نے کہا تھا۔ مسکراہٹ اور آنسو ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔(Tear and smile go together) زندگی کا بے لگام گھوڑا تو سرپٹ بھاگتا رہتا ہے۔اسے غرض نہیں کہ اس کے سوار پر کیا گزر تی ہے۔ اس کا ہاتھ باگ پر اور پاؤں رکاب میں ہے یا نہیں۔یہ تو بس ایک دن کسی گہرے گڑھے کے پاس رکے گا اور سوار کو اس میں دے پٹخے گا۔ایک ابدی کیفیت میں چھوڑ جانے کے لیے۔ کچھ بھی کہہ لیں قرار نہیں آتا۔کسی بھی کام میں لگ جائیں ،چین نہیں پڑتا ۔ سانحہ ساہیوال کے معصوم بچوں کی تصویریں دل سے دماغ تک سفر کرتی رہتی ہیں۔ میاں بیوی اور13 سالہ بچی کی لاشیں جھنجھوڑتی رہتی ہیں۔ خروٹ آباد میں حاملہ اور زخمی چیچن عورت کا سفید رومال لہراتا ہاتھ بالآخر بے جان ہوکر گرپڑتا ہے اور ان کا نشان صرف خون کے دھبے اور چند لاشیں رہ جاتی ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی خوں چکاں میتیں محضر نامے لیے شکوہ کناں سامنے آجاتی ہیں۔ادھر سے آنکھ چرائیں تو کراچی کے سرفراز کی منتیں ،التجائیں اور چیخیں کانوں میں گونجنے لگتی ہیں۔ بہ لوح ِ تربت ِ من یافتند از غیب تحریرے کہ ایں مقتول را جز بے گناہی نیست تقصیرے (میری لوح مزار پر غیب سے یہ تحریر لکھی پائی گئی کہ یہ وہ مقتول ہے جس کا بے گناہی کے سوا کوئی گناہ نہیں تھا) کس کس راستے کو بند کیجیے۔ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں ؟اخبارات سے آنکھ بچا کر گزر جائیں؟فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا کے دروازے بھیڑ دیں؟ ان لوگوں سے بات کرنا چھوڑ دیں جنہیں ان دل خراش موضوعات پر بات کرنی ہے؟آخر کریں کیا؟ اقبال عظیم نے کہا تھا آدمی اس زندگی سے بچ کے جائے بھی کہاں مے کشی بھی جرم ہے اور خود کشی بھی جرم ہے کبھی خلیل اور اس کی بیوی اور بیٹی کے چہرے سوال کرتے ہیں کبھی بچ جانے والے تینوں بچے پوچھتے ہیں کہ ہمیں بے قصور بے سایہ کردینے والے کون ہیں؟ پولیس، ایجنسیاں‘سی ڈی ٹی‘ حکومت یا معاشرہ؟ سی ڈی ٹی کے بدلتے مؤقف اور پریس ریلیز اس کے آپریشن کے جواز کو کمزور کرتے رہے ہیں۔ ایک اور درست مؤقف پر ہی مضبوطی سے قائم رہنا ان کی پوزیشن ٹھیک کرسکتا تھا لیکن انہوں نے فرضی واقعات شامل کرکے خود اپنے آپ کو مشتبہہ بنا لیا۔محافظ ہی قاتل بن جائیں تو کوئی کہاں بچ کر جائے ۔ ریاست ہی دشمن ہو جائے تو زمین کے آخری کنارے تک کوئی پناہ نہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو جن اہلکاروں نے فائرنگ کی، ان کی بھی مقتولین سے کوئی ذاتی عناد ذاتی دشمنی نہیں تھی۔انہیں جو حکم ملا اس پرعمل کرنے کے لیے وہ پابند تھے۔وہ اسی کی نوکری کرتے تھے اور اسی نوکری کی تنخواہ سے اپنے بچوں کے پیٹ پالتے تھے۔ فائرنگ کرنے والے قصور وار ہیں تو اس کا حکم دینے والے؟ اور پھر ان حکم دینے والوں کو حکم دینے والے؟ یہ سلسلہ کہاں رکتا ہے؟ یہ سب اسی معاشرے کے لوگ ہیں اور بہت سی صورتوں میں اتنے ہی مجبور اور بے بس جتنے ہم اور آپ ہیں۔لیکن کیا کیجیے کہ مجبوری اور بے بسی بھی ایسے لفظ ہیں جو سچ سہی لیکن ان کے لباس میں بہت جھوٹ بولے جاتے رہے ہیں۔لفظ جو مجرموں کی ڈھال بھی ہوتے ہیں اور حفاظتی پناہ گاہ بھی۔ بچوں کو سرکاری سرپرستی میں لینے اور ان کے اخراجات کی کفالت کا اعلان کیا گیا ہے۔سرپرستی ؟کیا ماں باپ سے بڑھ کر سرپرستی؟ کیا دودھ پیتی بچی کو سرکاری گود میں وہ گرمی اور گداز مل سکے گا جو اس کی تقدیر سے کھرچ دیا گیا؟ کیا کچھ روپوں سے وہ لمحے ان بچوں کی آنکھوں اور حافظوں سے محو ہوسکتے ہیں جو ساری زندگی بھیانک خواب کی طرح ان کو چمٹے رہیں گے؟ کیا رات کو ڈر کر آنکھ کھل جانے پر سرکار ان کو تھپکی دیکر سلا سکے گی؟ بے سایہ ہوجانے پر تو قریبی عزیزوں کی نظریں بدل جاتی ہیں ۔خون کے رشتوں کی نگاہیں وراثت اور ترکوں کا طواف کرنے لگتی ہیں ۔ کیا ان بچوں کے اثاثوں کی حفاظت کی جاسکے گی ؟ ان اثاثوں کے رخصت ہوجانے کے بعد جو اصل تھے اور جن کا کوئی نعم البدل کبھی نہیں ہوسکے گا ؟ اور کیا کبھی ایسا ہوسکے گا کہ جن جن واقعات پر صف ماتم بچھتی رہی ،جن جن مقتولین کا دکھ پوری قوم نے محسوس کیا، گزشتہ دس پندرہ برس کے ان تمام واقعات کی تحقیقات، ان کے نتائج ،ذمے داران کا تعین، ان کو دی جانے والی سزائیں اور ان سزاؤں پر عمل درآمد وزارت داخلہ ایک پرچے کی صورت میں مشتہر کر دے۔ لوگوں کے لیے ایک ایسا مرہم جو کاغذ کی شکل میں ہو جس میں جھوٹ کی آمیزش نہ ہو اور جس میں واقعے اور اس پر ریاست کی طرف سے مجرموں کے تعین کی تفصیل ایک ہی نظر میں سامنے آسکے؟ ان لوگوں کے دلوں میں ٹھنڈک پڑ سکے جو یہاں جنگل کا قانون نہیں، انصاف کی عمل داری چاہتے ہیں۔ان باپوں، ماؤں ،بہنوں ،بھائیوں اور بچوں کی اشک شوئی کا کچھ سامان ہوسکے جن کے چراغ بجھے ہیں اور وہ بے بسی کے سمندر میں آج بھی موجوں کے سپرد ہیں۔کیا کبھی ایسا ہوسکے گا؟ کیا یہ بہت مشکل کام ہے؟ جو کرنے کا کام ہے وہی نہیں کیا جاتا ۔ اور نہ کرنے والے سارے کام اتنی عجلت میں کر لیے جاتے ہیں جیسے اس کے بعد پھر کبھی موقعہ نہیں ملے گا۔لوگ جانتے ہیں کہ سانحہ ہوجائے تو کچھ لوگوں کو ادھر ادھر کرنے ، کمیشن بنانے کا اعلان کرنے ، مقدمات چلانے کا فیصلہ کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔کوئی اور واقعہ رونما ہوگا جو پچھلے واقعے کو بھلا دے گا اور سب اسی طرح چلتا رہے گا۔ نظام بدلے بغیر ، سبق حاصل کیے بغیر اور انصاف کیے بغیر۔ کیا صوبائی وزارت داخلہ اور وفاقی وزارت داخلہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ ایسے معاملات میں اپنی کارکردگی سامنے لائے ۔لوگوں کو یہ تو پتہ چلے کہ یہ کس کام کی تنخواہ لیتے ہیں ۔ لوگ جو صرف زخم کو جانتے ہیں ، مرہم نام کی کسی شے سے واقف تو ہوں۔ وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا۔صحرا کی ہوائیں پہاڑوں جیسے ریت کے ٹیلوں کو ادھر سے ادھر لا ڈالتی ہیں۔شہروں کے خد و خال بدل جاتے ہیں۔خاندان اپنی نسلی خصوصیات تبدیل کردیتے ہیں تو واقعات کیا چیز ہیں۔کتنا ہی بڑا حادثہ ہو،کتنا ہی جان لیوا،کتنا ہی دل کاٹ کر گزرے ،یہ لگے کہ ہم اس واقعے کے بعد جی نہیں پائیں گے لیکن یہ دنیا ہے۔کچھ دن گزریں گے کہ یہ بڑے اور جان گداز واقعات چھوٹی اور اندرونی صفحات کی خبروں میں بدل جائیں گے۔پھر یہ خبریں بھی غائب ہوجائیں گی۔مقدمے، رپورٹیں فائلوں کا پیٹ بھرتے رہیں گے اور حافظوں پر ہلکا سا نشان بھی کچھ عرصے بعد ختم ہوجائے گا۔یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوگا۔لوگ ایک دوسرے کو شادیوں ، سالگرہوں اور کامیابیوں کی مبارک بادیں دیتے رہیں گے۔ریستورانوں کا ہجوم کم نہیں ہوگا اور بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا رہے گا۔یہ تحریر لکھنے والا جس دکھ سے یہ لفظ لکھ رہا ہے کیا وہ ہمیشہ اس کیفیت میں رہے گا؟ حادثے وقت کے دھارے کو کتنا روک سکیں گے ۔آنسو کب تک مسکراہٹوں پر بند باندھیں گے۔؟ tear and smile go together۔یہ تو دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔خدایا! زندگی کتنی خوبصورت اور کتنی سفاک شے ہے۔