1997ء کے الیکشن سے چند ہفتے قبل ایک معروف کالم نگار نے میاں نواز شریف کو اپنے گھر پر مدعو کیا‘ ظہرانے میں معروف ادیب اشفاق احمد مرحوم اور بزرگ صحافی مجید نظامی مرحوم سمیت کئی دانشور اور اخبار نویس شریک تھے۔ مسلم لیگ میں ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ بھی زیر بحث آیا جس پر نیو یارک سے آئے ایک مسلم لیگی کارکن نے موقف اختیار کیا کہ اگلے انتخابات میں مسلم لیگ کی جیت یقینی ہے۔ میاں صاحب کو چاہیے وہ مخلص‘ باکردار اور اُصول پسند کارکنوں کو ٹکٹ دیں تاکہ الیکشن جیت کر ترقی اور سول بالادستی کے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ میزبان نے بھی تائید کی اور دیگر کئی مہمانوں نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ میاں صاحب نے بھولے کی طرف دیکھا اور کہا تمہاری کیا رائے ہے؟ بھولے نے لگی لپٹی بغیر کہا میاں صاحب! ان دانشوروں اور مثالیت پسندوں کی باتوں پر کان نہ دھریں آپ کو ہر قیمت پر الیکشن جیتنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے جو چور‘ اُچکا فصلی بٹیرا الیکشن جیت سکتا ہے اسے ٹکٹ دیں اور ایک بار اقتدار میں آئیں پھر دیکھا جائے گا کہ ایجنڈے اور منشور کا کیا کرنا ہے۔ میاں صاحب مسکرائے تو اشفاق صاحب بول پڑے’’پر بھولے تمہارے جیسے دو سو چور اُچکے فصلی بٹیرے میاں کہاں سے ڈھونڈیں‘‘ یہ اشفاق صاحب کا بھولے کی سوچ سے زیادہ میاں نواز شریف کی مسکراہٹ پر ردعمل تھا کیونکہ میاں صاحب نے اشفاق صاحب‘ مجید نظامی صاحب اور دیگر کے مشوروں پر بھولے کو رائے زنی کی دعوت دے کر ایک لحاظ سے سب کا مذاق اڑایا تھا۔ 1997ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف کو ہیوی مینڈیٹ ملا۔ بے نظیر بھٹو کے حصے میں قومی اسمبلی کی صرف اٹھارہ نشستیں آئیں اور تحریک انصاف کا بولو رام ہو گیا۔ اقتدار میں آتے ہی میاں صاحب نے قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگا کر پوری قوم اور بیرون ملک پاکستانیوں سے مالی امداد طلب کی تاکہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے قرضے اُتار کر ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔ اس سکیم کے ذریعے پانچ ارب ڈالر کی خطیر رقم اکٹھا کرنے کا یہ آئیڈیا جس کسی کا بھی تھا خوش فہمی پر مبنی تھا۔ میاں صاحب نے اپنے خاندان کی طرف سے ایک کروڑ روپیہ بطور قرض حسنہ دینے کا اعلان کیا جو قوم کے ساتھ مذاق تھا ۔اگلے چھ سات ماہ کے دوران انہوں نے صدر فاروق لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ سینگ پھنسائے رکھے اور بالآخر فتح یاب ہوئے‘ سردار فاروق لغاری اور سید سجاد علی شاہ کی رخصتی کے بعد ان کے حوصلے مزید بڑھ گئے۔1998ء میں ایٹمی تجربات کے بعد بلا شبہ مقبولیت کی لہر اٹھی اور سیاسی مخالفین تتر بتر ہونے لگے۔ بے نظیر بھٹو گرفتاری کے خوف سے بیرون ملک چلی گئیں اور ’’گلیاں مرزا یار کے پھرنے کے لیے سنجیاں‘‘ ہو گئیں۔ میاں صاحب کو اور کچھ نہ سوجھا تو وہ ہیوی مینڈیٹ کے زعم میں پہلے آرمی چیف جہانگیر کرامت اور پھر پرویز مشرف پر چڑھ دوڑے۔ جہانگیر کرامت کے استعفیٰ کو میاں صاحب نے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا ابدی پیغام سمجھا اور دوسرے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف سے وہ سلوک کرنا چاہا جو جہانگیر کرامت سے ہوا مگر وہ مرد شریف چپکے سے گھر چلا گیا۔12اکتوبر 99ء کو میاں صاحب نے اپنے کارکنوں کے مقبول عام نعرے’’نواز شریف قدم بڑھائو‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کو سچ جان کر پرویز مشرف کی طرف قدم بڑھایا مگر کرنل ستی کی قیادت میں فوجی جوانوں نے وزیر اعظم ہائوس کا گھیرائو کر لیا اور نواز شریف کے نامزد چیف آف آرمی سٹاف جنرل خواجہ ضیاء الدین کے احکامات کو پیروں تلے روندتے ہوئے میاں نواز شریف کے بڑھتے قدموں کو روک دیا تو میاں صاحب کے ساتھ قدم سے قدم کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونے والوں میں سے کوئی بھی نہ نظر نہ آیا۔میاں شہباز شریف وضاحت کرتے رہے کہ وزیر اعظم نے یہ قدم بے سوچے سمجھے خود اٹھایا اور ہمیں پھنسا دیا۔ کوئی چور اُچکا ‘ فصلی بٹیرا اپنے قائد کی حمائت میں نہ نکلا البتہ احسن اقبال ‘خواجہ سعد رفیق‘ زعیم قادری اور چند دیگر سر پھرے دیواوں سے سر ٹکراتے رہے۔ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو ایک بار پھر 1997ء کی طرح کے حالات کا سامنا ہے تحریک انصاف کا خیال ہے کہ اس کے لیے میدان صاف ہے اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ پکی ہے جبکہ تمام تر حماقتوں کے باوجود مسلم لیگ (ن) اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر فوج اور عدلیہ سے حساب چکا سکتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر دونوں جماعتیں انتخابی معرکہ اپنے مخلص‘ آزمودہ اور ایثار پیشہ کارکنوں کے بل بوتے پر نہیں بلکہ روائتی سیاستدانوں اور وفاداریاں بدلنے میں طاق امیدواروں کی معیت میں سر کرنا چاہتی ہیں۔ تحریک انصاف کو مصور پاکستان علامہ اقبال کا پوتا ولید اقبال اور مسلم لیگ (ن) کو سید سلیم حسین قادری کا بیٹا زعیم قادری کمزور امیدوار نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ پر الزام ہے کہ وہ نظریاتی جماعت نہیں مگر تحریک انصاف تبدیلی کی علمبردار ہے اور عمران خان اپنی تقریر کو علامہ اقبال کے ذکر سے پُر اثر بناتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں وجود میں ہی اس لیے آتی ہیں کہ وہ انتخابی اور سیاسی عمل میں دھن دولت‘ ذات برادری‘ نسلی لسانی تعصبات کا عنصر کم کر کے اصولوں‘ نظریات اور منشور کی بنیاد پر عوام کو متحرک کریں اور مخلص نظریاتی کارکنوں کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی لائیں جو شخص مال حرام اور ذات برادری کے بل بوتے پر الیکشن لڑنے کی اہلیت رکھتا ہے اسے کسی جماعت میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے؟۔ الیکٹ ایبلز سیاسی جماعتوں کا ٹکٹ الیکشن جیتنے کے لیے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے مخلص و پرجوش کارکنوں کو انتخابی مہم میں استعمال کرنے کے لیے لیتے ہیں۔ ہر حلقے میں چار پانچ سو سر پھرے کارکن انہیں مفت مل جاتے ہیں جو ان کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ آزاد امیدواروں کو کرائے پر کارکن حاصل کرنے پڑتے ہیں ’’جو کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے ‘‘۔ ولید اقبال دولت مند نہیں‘ شائد اپنے والد گرامی کی طرح جز رس ہوں گے لیکن یہ تحریک انصاف کا نرم‘ ترقی پسند اور نظریاتی چہرہ ہیں انہیں ایسے طاقتور اور دولت مند صوبائی امیدوار فراہم کرنا پی ٹی آئی کی ذمہ داری تھی جو ایک نیک نام اور نامور امیدوار کے انتخابی اخراجات برداشت کرتے۔ اگر ہر شخص نے الیکشن اپنے بل بوتے پر جیتنا ہے تو پھر حکومت سازی کے مرحلہ پر عمران خان یا تحریک انصاف ان جیتے ہوئوں کو کسی نظم و ضبط میں کیسے لائیں گے اور ان سے تبدیلی کے ایجنڈے پر عملدرآمد کیسے کرائیں گے؟۔مجھے تحریک انصاف یا کسی دوسری جماعت میںالیکٹ ایبلز کی شمولیت اور موجودگی پر اعتراض نہیں کہ ہماری سیاست کی تلخ حقیقت ہے مگر مخلص کارکنوں کی حق تلفی کر کے ان کو نوازنا زیادتی ہے۔ اگر خدانخواستہ عمران خان یا تحریک انصاف کسی آزمائش سے دوچار ہوئے تو ان الیکٹ ایبلز کا رویہ ان چوری کھانے والے مجنوئوں سے کیسے مختلف ہو گا جو 12اکتوبر کی شام میاں نواز شریف کو اٹک قلعہ کی راہ دکھا کر اُڑنچھو ہو گئے۔ مسلم لیگ ن ایک بار پھر 1997ء کی طرح مخلص کارکنوں کو فراموش کرنے کی راہ پر گامزن ہے شائد ماضی سے اس نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ تاہم یہ غنیمت ہے کہ سیاسی کارکنوں میں بھی اب اپنی قیادت کے خلاف بولنے اور اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے کا حوصلہ پیدا ہو رہا ہے ۔بنی گالہ اور لاہور میں تحریک انصاف کے کارکنوں کا احتجاج اور مسلم لیگ (ن) میں اندرونی کشمکش جمہوریت کے لیے حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ مخلص سیاسی کارکن گونگے شیطان بن جائیں تو سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں مافیا کا روپ دھار لیتی ہیں پیپلز پارٹی کی تباہی کا سبب یہی ہے اور اس طرز عمل کی بنا پر مسلم لیگ (ن) بدترین انجام کا سامنا کر رہی ہے تحریک انصاف آخر سبق کیوں نہ سیکھے۔؟