سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ’’یوم نجات‘‘ کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔ اس وقت سندھ کے ادبی اور صحافتی حلقوں میں یہ سوال ابھرا ہوا ہے کہ ’’اب پیپلز پارٹی کس منہ سے ووٹ مانگنے جائے گی؟‘‘مگر یہ سوال اٹھانے والے یہ بات بھول رہے ہیں کہ سیاست کی ناک فولادی ہوتی ہے۔ وہ اس بات کو بھی فراموش کر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر سرگرم افراد کا تعلق مڈل کلاس سے ہوتا ہے۔ جب کہ ووٹ کی طاقت اس طبقے کے پاس ہے جن کی اکثریت کو اب تک معلوم نہیں کہ سوشل میڈیا کس چڑیا کا نام ہے۔ سندھ میں ووٹ بینک اب تک ان وڈیروں کے پاس ہے جو آصف زرداری کے ہاتھ چومتے ہیں۔ کیا سندھ کے کسان اور ان کے مقروض خاندان آصف زرداری کے خلاف بغاوت کر پائیں گے؟ کیا وہ اپنے گاؤں کی پولنگ اسٹیشنوں پر پی پی مخالف امیدواروں کو ووٹ کر پائیں گے؟ کیا وہ اس نظام میں ایسی بغاوت کرسکتے ہیں؟ سندھ میں پیپلز پارٹی کے روایتی مخالف وہ قوم پرست رہے ہیں جن پر طنز کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے لیڈر یہ کہتے ہیں کہ ’’وہ تو بلدیاتی انتخابات میں کونسلر کی سیٹ بھی نہیں جیت سکتے‘‘ مگر وہ وقت گزر گیا جب قوم پرست انتخابی سیاست سے بیزاری کا اعلان بڑے فخر سے کیا کرتے تھے۔ اب دور بدل گیا ہے۔ اب تو جی ایم سید کا پوتا جلال محمود شاہ انتخابی سیاست کی سب سے بڑی قوم پرست علامت ہے۔ رسول بخش پلیجو بہت ضعیف ہوچکے ہیں مگر ان کا بیٹا ایاز لطیف پلیجو اپنے والد سے بغاوت کرکے پیر پگاڑا کی جی ڈے اے کا سرگرم کردار بن چکا ہے۔ ڈاکٹر قادر مگسی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے اعلانات کر رہا ہے۔ اس وقت سندھ میں چند مخالف وڈیروں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے خلاف ایسی کوئی قوت میدان میں موجود نہیں جس کو پی پی کا متبادل قرار دیا جاسکے۔ پیپلز پارٹی اس بات سے آگاہ ہے کہ اس بار اس کو سندھ سے پاپولر ووٹ نہیں ملے گا مگر چار دہائیوں سے انتخابی سیاست کا تجربہ رکھنے والی پیپلز پارٹی کا ایک ایسا منظم انتخابی نیٹ ورک موجود ہے جس کا مقابلہ اس بار بھی سندھ کے وہ قوم پرست نہیں کرسکتے جو اب تک اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کرنے میںکامیاب نہیں ہوپائے۔ سندھ کا مڈل کلاس ان قوم پرستوں کو اسمبلیوں میں دیکھنا چاہتا ہے جو سندھ کے حقوق کی بات کرتے ہیں مگر اسمبلیوں میں آنے کے لیے صرف مڈل کلاس کے ووٹ کافی نہیں ہوتے۔ انتخاب جیتنے کے لیے اس غریب عوام کا ووٹ بنیادی شرط ہے جو قوم پرستوں کو جانتے تک نہیں۔ سندھ کے وڈیروں نے قوم پرستوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ جب انتخابات قریب آتے ہیں تو وہ سندھ کے حقوق کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے اعلانات کرتے ہیں اور مڈل کلاس کا ایک حصہ ان کی حمایت کرنے کے لیے اپنے آپ کو مجبور بھی پاتا ہے مگر قوم پرستوں نے ابھی تک سندھ کے وڈیروں سے کچھ نہیں سیکھا۔ اگر وہ سندھ کے وڈیروں کو اپنا انتخابی استاد مانتے اور پورے سندھ کے دورے کرنے کے بجائے اپنے انتخابی حلقوں میں عوام سے رابطے میں رہتے تو وہ پیپلز پارٹی کے لیے انتخابی چیلنج بن سکتے ہیں۔ سندھ کے قوم پرست پانچ برس انتخابی تیاری کے سلسلے میں کچھ نہیں کرتے۔ جب انتخابات قریب آتے ہیں تب بھی وہ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ انہیں کس حلقے سے انتخاب لڑنا ہے۔ وہ اپنے حلقے کا فیصلہ انتخاب سے تین ماہ پہلے کرتے ہیں اور جب وہ اپنے انتخابی حلقے میں جاتے تب وہ عوام کی نظروں میں اجنبی ہوتے ہیں۔ اس بار سندھ کے قوم پرست حلقے میں ایک نئے نام کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ نام ہے سندھی زباں کے سب سے بڑی اخبار کے مالک علی قاضی کا! علی قاضی اس بار ’’تبدیلی پسند‘‘ کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں اور چند روز قبل انہوں نے سیاست میں باقاعدہ شامل ہونے کے لیے اخبار سے علیحدگی کا اعلان بھی کیا ہے۔ مگر ان کی تیاری بھی ادھوری ہے۔ وہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے اس حلقے سے انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں جہاں سے آصف زرداری کے قریبی دوست اور کرپشن کے کیس میں قید سابق انفارمیشن منسٹر شرجیل انعام میمن انتخاب لڑتے اور کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ اس طرح یہ مقابلہ بھی دلچسپ ہے جس میں ایک سابق ایڈیٹر ایک سابق وزیر اطلاعات سے مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں۔ رسول بخش پلیجو کے چھوٹے بھائی غلام قادر پلیجو اور ان کی بیٹی سسی پلیجو تو پہلے سے پیپلز پارٹی میں شامل ہیں مگر سندھ کے معمر قوم پرست کے بیٹے ایاز پلیجو نے پیر پگاڑو کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ گزشتہ انتخابات میں حیدرآباد کے سندھی علاقے قاسم آباد سے پیپلز پارٹی کے جام خان کا شورو کا مقابلہ کرتے ہار گئے تھے اور اس بار بھی اس کے جیتنے کے امکانات روشن نہیں۔ اس لیے ایاز پلیجو کے حوالے سوشل میڈیا میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ پیر پاگاڑو ان کو وہ سیٹ دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جہاں ان کے مریدوں کی تعداد اتنی ہے کہ وہ کسی کو بھی کھڑا کریں تواس کی فتح یقینی سمجھی جاتی ہے۔ اگر پیر پاگاڑو ایاز پلیجو کو اپنے مریدوں والی سیٹ دیتے ہیں تو وہ آسانی سے کامیاب ہوکر سندھ اسمبلی میں پہنچ جائیں گے۔ جب کہ جی ایم سید کے پوتے اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما جلال محمود شاہ کا اس بار بھی جامشورو کے اس ملک اسد سکندر سے سخت مقابلہ ہوگا جو پیپلز پارٹی میں ہوتے ہوئے بھی آصف زرداری کے قریب نہیں ہے۔ مگر وہ اپنے علاقے کا سردار ہے۔ اس سے مقابلہ آسان نہیں ہے۔ ملک اسد سکندر اپنے علاقے میں پیپلز پارٹی کے خلاف بھی انتخاب جیتنے کی طاقت رکھتے ہیں اور خاص طور پر تب جب پیپلز پارٹی اپنی روایتی مقبولیت کھو چکی ہو۔ جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ وہ واحد قوم پرست لیڈر ہیں جو اپنے انتخابی حلقے سے جڑے رہتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ہمیشہ پیپلز پارٹی اور ملک اسد سے سخت مقابلے کے بعد ہرایا ہے۔اس باراس حلقے کی صورتحال بھی ذرا مختلف ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کے خلاف جلال محمود شاہ نے لوکل سطح پر پاکستان تحریک انصاف انڈراسٹینگ کی ہے۔ اس طرح جلال محمود شاہ سندھ کے وہ واحد قوم پرست امیدوار ہیں جو سخت مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ جب کہ سندھ کے باقی قوم پرست امیدوار اپنے گھر والا پولنگ بوتھ بھی جیت جائیںتو بڑی بات ہے۔ سندھ کے قوم پرست ستر کی دہائی سے پیپلز پارٹی کے مخالف رہے ہیں مگر انہوں نے انتخابی سیاست میں عملی طور پر دلچسپی نہیں لی۔ وہ انتخابی سیاست کے میدان میں ہمیشہ آخر میں اترنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب وہ سندھ کے نام پر ووٹ مانگیں گے تو لوگ ان کی جھولی ووٹوں سے بھر دیں گے مگر انتخابی سیاست کے اپنے انداز ہیں۔ انتخابی سیاست میں ووٹ صرف نعرے پر نہیں ملتے۔ پیپلز پارٹی کے پاس صرف ’’جیئے بھٹو‘‘ کا نعرہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس وہ سارے وسائل بھی ہیں جو انتخابی سیاست میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ سندھ کے قوم پرست تقریر اچھی کر لیتے ہیں اوران کی حمایت میں پرنٹ میڈیا میں تحریر کرنے والے ادیب اور صحافی بھی ہیں مگر سندھ کے قوم پرست ابھی تک اس فن سے آشنا نہیں جو انتخابی جیت کے لیے ضروری ہے۔ سندھ کے قوم پرست جب بھی پیپلز پارٹی کے خلاف میدان میں اترے ہیں تب ان کا مقابلہ ’’بھٹو خاندان‘‘ سے ہوا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ’’شہیدوں کا کارڈ‘‘ استعمال کیا۔ اس بار پیپلز پارٹی کے پاس اپنی دس برس کی ناقص حکمرانی اور کرپشن کے الزامات کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس بار پیپلز پارٹی بہت کمزور ہے۔ مگر وہ اس قدر بھی کمزور نہیں کہ سندھ کے قوم پرست انہیں شکست دے پائیں۔ سندھ کے قوم پرستوں کو پیپلز پارٹی سے فتح حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کو انتخابی میدان میں مات کرنے کے لیے سندھ کے قوم پرستوں کو اس عوام سے جڑنا ہوگا جو عوام سماجی اور اقتصادی طور پر وڈیروں کے پاس یرغمال ہیں۔ جب تک سندھ کے غریب عوام وڈیرہ شاہی کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوتے؛ تب تک سندھ میں قوم پرستوں کی کامیابی ایک خواب ہے۔ ایک ایسا خواب جو برسوں سے اپنے تعبیر کی راہ تک رہا ہے۔