دشمنی کوئی یکطرفہ تو نہیں چومکھی لڑائی ہے۔ افراد نہیں اقوام کا ٹکرائو ہے۔ محض ٹکرائو نہیں‘ جلتی ہوئی آگ کا طوفان بلاخیز۔ کشمیر ‘ فلسطین ‘ افغانستان ‘ تازہ واردات اچانک ہوتی ہے ۔زمین پر قبضہ‘ وسائل پر قبضہ‘ اور آزادی پر قبضہ ۔ہر جارح اور قابض ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے رقص ابلیس سے اسلامی کے وجود کو زدو کوب کر رہا ہے ایک دوسرے کی حمایت میں ہر حربہ اور چال ان کے نزدیک بین الاقوامی قانون سلامتی کا درجہ رکھتی ہے۔ مناسب حالات اور مناسب وقت پر وہ زخم خوردہ ملت اسلامیہ کو کچوکے لگاتے ہیں اور اپنی جارحانہ منافقت سے پس پردہ رہ کر ایسا وار کرتے ہیں ؎ نہ تڑپنے کی اجازت ہے‘ نہ فریاد کی ہے گھٹ کے مر جائوں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے رفتہ رفتہ محاصرہ تنگ ہو رہا ہے۔ مسلمان کبھی پسپا نہیں ہوا۔ ہاں اندر کے بدنیت اور دشمن کے ٹکڑوں پر اپنی نیت کو غلیظ کرنے اور نام نہاد مصلحین کا گروہ ہوتا ہے جن کی ارواح خبیثہ پر عبداللہ ابن ابی کی روایتی غلاظت اثر پذیر ہوتی ہے اور وہ عین وقت وفا‘ جفا کاری کا مجسمہ بن کر قوم کو روز بد دکھانے میں معاون ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں پورے زور و شور سے ملت اسلامیہ کی مصائب کا ذکر کیا۔ اقوام کفر کی منافقانہ پالیسیوں کا برسرعام کچا چٹھہ کھول کر رکھ دیا۔ یہ تقریر مسلم امہ کے ان ممالک کے عوام کی داستان زبوں حالی تھی جن کے حکمران اپنے وقت کے فرعون بنے بیٹھے ہیں۔ وزیر اعظم کا بیان پوری امت کے مظلوم عوام کا وہ مقدمہ ہے جس میں انہوں نے ان ظالم سازش کار یہودیوں‘ ستم گر ہندوئوں کی مکارانہ‘ ظالمانہ اور انسانیت دشمن کارروائیوں کا ذکر کیا ہے جن کا اصل ہدف مسلمان اور ان کا مرکزایمان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے کیونکہ بھارت میں یہ ماحول گرم ہے کہ اگر کوئی مسلمان بھارت میں زندہ رہنا چاہتا ہے تو اس اپنا دین دھرم ترک کر کے ہندو بن کر رہنا ہو گا۔ کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی آبادی ہے۔ آسام ‘ تامل ناڈو‘ ناگا لینڈ۔ جھاڑ کھنڈ‘ گجرات میں یہ جبر اور دبائو ایک عرصے سے جاری ہے۔ ہندوستان کے باقی صوبہ جات کا حال بھی اسی طرز پر قیاس کر لیا جانا چاہئے۔ ہم کچھ الفاظ چبا چبا کر تھک گئے ہیں کہ جبر و آلام کی یہ ساری کارروائی مودی سرکار کی ہے ۔یہ ایک روایتی انداز طنز ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندو روز اول ہی سے کسی بھی روپ میں مسلمانوں کے دوست نہیں رہے۔ گاندھی کی فریب زدہ زندگی سے لے کر موذیٔ حاضر مودی تک سب ہندوئوں کا طرز فکر اور ان کے عمل کے انداز سے مسلم دشمنی شرح کی کمی و زیادتی سے چھلکتی رہی ہے اورآج کی جدید دنیا میں مسلم دشمن ممالک ان کے مستقل حلیف ہیں۔ پاکستان بہرحال عطائے خداوندی سے اسلام کا قلعہ ہے اس کا قیام ایک بلند ترین نظریہ توحید و رسالتؐ کی بنیاد پر ہے اور اس کے عوام تمام مسلکی و لسانی تہذیبی و صوبائی اختلافات سے بالاتر ہو کر کلمہ طیبہ کی برتری اور نظریہ توحید و رسالت ؐکے تحفظ پر یک ذہن، یک آواز اور یک عمل ہوتے ہیں۔ اسلامی دنیا کے عوام کے ذہن و قلب میں اسی حقیقت کارسوخ اتنا گہرا ہے کہ وہ بھی دور کی ابتلائی آندھیوں کے مقابلے میں چراغ ایمان کی حفاظت کے لئے کٹ مرنے پر تیار رہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی وسعت فکری اور ایمانی جذباتیت کے جو مناظر پوری ملت اسلامیہ کو توانائی بخش رہے ہیں اس کی بنیاد اور مرکز یہی ہے کہ ؎ بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے پوری دنیا میں انسانی عظمت کے ضامن دین اسلام کی بڑھتی ہوئی اشاعت باطل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں ہو رہی ہے اور ان کا یہ احساس بجا ہے کہ توانا اور جذبات سے معمور قوت پورے عالم اسلام کو خطہ افغانستان، پاکستان اور ایران سے میسر آتی ہے۔ اس لئے وہ ایشیا کے اس مرکزی خطے کو کسی نہ کسی طرح اپنی ستم رانیوں کا مستقل شکار رکھنا چاہتے ہیںایشیا میں ملائشیا اور ترکی کی بیدار قیادت باطل کی اس مکروہ سازش اور ظالمانہ کارروائیوںکو پوری حساسیت کے ساتھ زیر غور رکھے ہوئے ہے۔ مسلمانوں کی حساس اور توانا سلطنتوں کے قائدین اب فطرت کے رموز سے ہمقدم ہو رہے ہیں اور وہ اسی بلند عقیدہ توحید و رسالت کا علم اٹھائے امت مسلمہ کا دفاع کا عزم لئے اٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں اہم گزارش یہی ہے کہ ہمارے خارجہ امور کے خوش نیت اور تجربہ کار افرادایشیائی مسلمان ممالک کے باہمی عملی اور دیرپا اتحاد کے لئے جلد از جلد سرگرم ہو جائیں۔ دوسری اہم گزارش جناب وزیر اعظم اور دیگر فعال مقتدرہ قوتوں کی خدمت میں یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی یکجہتی اور تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے لئے اجتماعی اور عملی اقدامات اس انداز سے کئے جائیں کہ پاکستان کا ہر مسلمان اپنے ایمانی جذبات کو محفوظ سمجھے۔ ناموس رسالتؐ کے دفاع میں قومی مصلحین اور اہل درد صاحبان دین کو جو قانونی اور عملی مزاحمتیں پیش آتی ہیں۔ ان مزاحمتوں کا سرنامہ سیکولر ‘ نام نہاد فکر وسیع کے دعویدار و منافق عناصر ہیں جن کا سرمایہ ایمان اغیار کے دستر خوان سے نشو و نما پاتا ہے۔ جناب وزیر اعظم اب تک امت مسلمہ کے ایک صاحب اخلاص اور درد مند وکیل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ لیکن درون خانہ جو حقائق ہیں ان میں ایک حقیقت طشت ازبام ہے کہ حکومتی حلقوں میں بہت سے دین بیزار نام نہاد انسانی حقوق کے محافظ اور ختم نبوت پر اپنی آزادانہ اور غیر آئینی رائے رکھنے والے افراد اور دین سے بیزار لوگوں کی ایک خاموش تعداد مختلف موثر حلقوں میں موجود ہے جو کسی بھی مسلم حقوق کے تحفظ کی تحریک کو محض جذباتی بے اصول اور ناکام تحریک قرار دینے کے لئے اپنے قلم و زباںاور اختیارات کا آزادانہ و فریبانہ استعمال کرتے ہیں۔ جناب وزیر اعظم کو بین الاقوامی سطح پر دین و ملت کا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرنے پر اہل وطن اہل ملت نہایت قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود اگر داخلی محاذ پر ناموس رسالت ﷺ اور مسلم نظریہ قومیت کے دفاع کیلئے حکومتی سرپرستی میسر نہ آئی تو ان کی یہ خوش کن تقریر تاریخ خطابت میں تو زریں حروف سے لکھی جائے گی لیکن تعمیر امت اور نشاۃ جدیدہ کیلئے یہ جذبات ‘ یہ الفاظ ‘ یہ تاثرات کبھی بھی عملی پیش رفت نہیں کر سکیں گے جب تک کہ وزیر اعظم عمران خان آئینی قانونی اور قوت نافذہ سے ناموس رسالتﷺ اور نظریہ پاکستان کے استحکام کیلئے اقدام نہیں کرتے۔