بعض اوقات کالم لکھنے کے لئے بیٹھیں تو کئی مختلف طرح کے خیالات ذہن کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں اور کبھی کسی تازہ پڑھی ہوئی کتاب کی گونج ذہن میں بازگشت کرتی ہے تو کبھی کسی پسندیدہ شخصیت سے گفتگو کی سرخوشی سے سوچ کا آنگن مہکاہوتا ہے۔ کالم نگار کو مگر حالات حاضرہ پر سوچنا اور لکھنا پڑتا ہے کم از کم 90فیصد کالم سیاسی حالات جو سماج کو متاثر کرتے ہیں انہی پر لکھنا پڑتاہے۔ آج بھی کچھ ایسا ہی دن ہے۔ خوب صورت اور باوقار شاعرہ عنبرین صلاح الدین کی کتاب ’’صدیوں جیسے پل‘‘ زیر مطالعہ تھی اس کی دلنشین نظمیں اور دل پذیر غزلیں اٹھتے بیٹھتے پڑھتی رہی اور خوب حَظّ اٹھایا۔ مگر عنبرین کی ایک غزل تو گویا ایک بازگشت بن کر میرے دماغ پر چھائی رہی۔ اس غزل کا مقطع تو خاصا معروف ہوا: عنبرین ایک ہے‘ بکھیڑے سو اور گزر بھی گیا ہے آدھا دن یہ شعر تو بس دماغ میں اٹک گیا ہم سب کا یہی Delimmaہے۔ ان گنت مصروفیات کو بھاگتے وقت کے ساتھ ماپتے ماپتے۔ ہم تھک جاتے ہیں مگر بکھیڑے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔عنبرین کے اس شعر کو آپ اپنی ذاتی زندگی کے محدود سے کینوس سے اٹھا کر ملکی اور پھر بین الاقوامی کینوس تک لے جائیں۔ آپ کو یہی صورت حالات دکھائی دے گی۔ میرا بھی مسئلہ یہی ہے کہ کاموں کی فہرست طویل ہے۔ دوستوں سے ملاقات کے دعوے کرتی ہوں کسی تقریب میں جانے کی حامی بھی بھر لیتی ہوں۔ گھر چائے پر بلانے کا قصد بھی ظاہر کرتی۔ یہ کام مکمل کر لوں گی وہ کام مکمل کر لوں گی اس برس کتاب آ جائے گی۔ اعلانات‘ امیدیں ‘ دعوے مگر پھر دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ یہی Delimmaحکومت وقت کا ہے۔ معیشت کنٹرول سے باہر ہے۔ مہنگائی قابو نہیں ہو رہی۔ کاروبارکے حالات ایسے ہیں کہ اچھے بھلے نوکریوں پر لگے ہوئے لوگوں کو بے روزگار کر کے ان کی لائف لائن کاٹی جا رہی ہے ڈینگی پھیل رہا ہے۔ ٹیم ناتجربہ کار ہے۔ غرض کہ سو بکھیڑے اور ایک سال گزر چکا۔ دوسرا تیزی سے گزر رہا ہے۔ حالات کی سمت سیدھی ہوتی دکھائی نہیںدیتی۔ بین الاقوامی منظر نامے پر دیکھیں ۔ کشمیر کے لوگوں کو محصور ہوئے ساٹھ اکسٹھ روز ہو گئے۔ سفارتی کوششیں ہو گئیں شاندار تقریروں سے عالمی طاقتوں کو جگانے کی سعی کی گئی مگر عالمی طاقتیں جاگ کر بھی خوابیدہ ہی رہیں۔ مسئلہ کشمیر تو وہ بکھیڑا ہے جو ستر سال سے انتظار میں ہے کہ اسے سمیٹا جائے۔ لیکن ساتھ اس بکھیڑے کو سمیٹنے میں طاقتوں کی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر جیسے اور کتنے بکھیڑے عالمی منظر نامے پر دکھائی دیتے ہیں جن کی پشت پناہی ہی عالمی طاقتیں کر رہی ہیں۔ قلم حالات حاضرہ پر گھیسٹ رہا ہے۔ مگر دل مجھے واپس عنبرین کی شاعری کی طرف بلاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ ان عالمی طاقتوں کا ذکر ہمیشہ میرے اندر غم و غصہ بھر دیتا ہے۔ سوال اٹھتے ہیں کہ یہ طاقت اتنی بے حس کیوں ہوتی۔؟بے اختیار مجھے جان ایف کینیڈی کی باکمال لائنیں یاد آتی ہیں جو طاقت اور شاعری کا موازنہ کس خوبی سے کرتا ہے۔ Power narrows the area of man,s concern poetry reminds him of the richness and diversity of existence. when power corrupts, poetry cleanses. تو چلئے ۔ پھر عنبرین کی شاعری کی طرف چلتے ہیں۔ ذہن پر جمی سیاسی بازی گروں کی اڑائی ہوئی اس گرد کو عنبرین کی خالص اور خوب صورت شاعری سے نکھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عنبرین کا ایک مختصر سا تعارف یہ ہے کہ وہ شاعرہ ہونے کے ساتھ ایک استاد اور محقق بھی ہیں۔ فلسفہ اور تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ جینڈر سٹڈیز پر ان کی ریسرچ ہے۔ ایک یونیورسٹی میں جینڈر سٹڈیز کے شعبہ کی سربراہ ہیں اور شاعرہ بہت اچھی ہیں۔ عنبرین بطور شخصیت اور بطور شاعرہ دونوں طرح ہی مجھے پسند ہیں۔ ایک گہرے اعتماد اور نکھرے ہوئے خالص پن کی جھلک ان کی ذات میں موجود ہے۔ اپنی اقدار سے جڑی ہوئی بھی ہیں اور دشت تمنا میں اپنے قدم امکانات کی دور دراز زمینوں پر بھی بڑی کامیابی سے رکھ رہی ہیں۔ کہانی اور کھڑکی دو پر معنی اورطاقتور اور ستارے ان کی نظموں اور غزلوں میں جا بجا نظر آتے ہیں۔عنبرین صلاح الدین کی یہ کھڑکی مجھے ورجینیا وولف کے اس کمرے کی طرح کی علامت دکھائی دیتی جس کا ہونا وہ ایک تخلیق کار خاتون کے لئے ضروری قرار دیتی ہے۔ A woman must have money and a room of her own if she wants to write fiction اس کتاب کی پہلی نظم کا نام بھی دریچہ ہے۔ مزید کچھ نظموں کے نام دیکھیے۔’’کھڑکی‘‘ میری کھڑکی سے آ کر آسمان دیکھو، کتنا ضروری ہے ایک تخلیق کا عورت کی تخلیقی تنہائی کے لئے۔ ایک کمرہ اور اس کمرے میں ایک کھڑکی جو کسی خوش کن منظر کی طرف کھلتی ہو۔ اس سے پہلے کہ کالم کی جگہ تمام ہو عنبرین کی شاعری کے کچھ نمونے دیکھئے۔ آپ کہیں تو تین زمانے ایک ہی لہر میں بہہ نکلیں آپ کہیں تو سب باتوں میں ایسی ہی آسانی ہے اپنے اپنے طرز سخن ہیں اپنے اپنے دل کی بات آپ کہیں تو دانائی ہے ہم جو کہیں نادانی ہے واہ عنبرین۔ اس شعر میں تو آپ نے سماجی لسانیات کی پوری تھیوری جینڈر اینڈ لینگوئج کو سمو دیا ہے۔ لنگوسٹکس پڑھنے کے دوران میں اس پر پریزینٹیشن دے چکی ہوں۔ چند اور اشعار: آپ گر فیصلہ کر لیں تو اٹھالوں ان کو شب کی دہلیز پہ جو خواب پڑے ہیں صاحب حرف درحرف مرے دل میں اترتا آیا مجھ سے پہلے مرے الہام نے دیکھا اس کو اور آخر میں وہی آدھا دن والی غزل ہر شعر خوبصورت ہے: بام سے ڈھل چکا ہے آدھا دن کس سے ملنے چلا ہے آدھا دن بھاگتی دوپہر کے سائے میں مجھ سے پھر لڑ پڑا ہے آدھا دن اس نے دیکھا جہاں پلٹ کے مجھے بس وہیں رک گیا ہے آدھا دن اس کی آہٹیں جگائے ہوئے کھڑکیوں میں سجا ہے آدھا دن کالم تمام ہوا مگر عنبرین کے شعر کی گونج باقی ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی منظر نامے پر زمانوں سے وہی بکھیڑے ہیں۔ آدھا دن محض ایک علامت ہے یہاں تو پوری زندگیاں نارسائی میں گزر رہی ہیں: سر ٹپکتے ہوئے اک عمر کے آزار کے ساتھ خود بھی دیوار کوئی ہو گیا دیوار کے ساتھ!!