اپوزیشن کچھ بھول رہی ہے ۔ کسی فریب میں مبتلا ہے یا اپنے پیروکاروں کو مبتلا رکھنا چاہتی ہے ۔صحرا میں بیٹھے ایک اونٹ کو سامنے بیٹھا گیدڑ گھورے جاتا تھا۔تنگ آکر اونٹ نے پوچھا۔کیا مسئلہ ہے؟گیدڑ بولا تیرا نچلا ہونٹ لٹک رہا ہے۔بس کوئی دن جاتا ہے جب وہ گر پڑے گا اور میں مزے لے لے کے کھاؤں گا۔اونٹ اپنی معروف کروٹ سے جس پہ وہ بیٹھا تھا اور جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی، کھڑا ہوا۔گیدڑ کو ایک لات رسید کی اور کہا:احمق یہ ہونٹ صدیوں سے ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا۔نہ اسے گرنا ہے نہ گرے گا۔ عمران خان کا شہرہ آفاق دھرنا چار ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہا اس دھرنے کی بنیادی وجہ گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی تھی۔ تحریک انصاف کا نوجوان ووٹر انتخابی نتائج سے شاکی تھا۔ بات چار حلقوں کی نہیں تھی۔ یہ عمران خان کا وہ موقف تھا جس میں انہیں مکمل فتح کا یقین تھا۔اصل کہانی بے شمار حلقوں کی تھی۔سمندر پار پاکستانیوں کی بڑی تعداد تحریک انصاف کی ابتدا سے ہی اس کا ووٹ بینک بن چکی تھی۔اسی باعث انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو انہوں نے صرف ووٹ ڈالنے کے لئے لاکھوں کی ٹکٹ خرید کر پاکستان کا رخ کیا۔انہیں پورا یقین تھا کہ اس بار حکومت تحریک انصاف کی ہوگی اور عمران خان کی بائیس سالہ جدو جہد رنگ لائے گی۔اس فضا میں 2013 ء کے انتخابات کے نتائج نے نہ صرف تحریک انصاف کے ووٹر کو شاک پہنچایا بلکہ کراچی میں جماعت اسلامی نے نتائج کا بائیکاٹ بھی کیا۔ عمران خان چودہ ماہ اسمبلی میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہے۔بالاخر سڑکوں پہ آئے اور دھرنا دیا۔ پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا۔ اسی سال سترہ جون کو ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاون کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی عوامی تحریک بھی نوا زشریف حکومت کے خلاف سراپا احتجاج تھی جس کی احتجاجی تحریک کی بنیاد نہایت مضبوط اور حقیقی تھی۔ یعنی چودہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتل جس کا بار گناہ اس وقت کی سرکار پہ تھا۔یہ ایسا واقعہ تھا جس پہ حکومتیں مستعفی پہلے ہوتی ہیں اور تحقیقات بعد میں ہوا کرتی ہیں۔پاکستان کا لیکن باوا آدم ہی نرالا تھا۔ بعد از خرابی بسیار اس وقت کے وزیرقانون رانا ثنا اللہ جو اس مقدمے میں فریق تھے بلکہ عوامی تحریک کے مطابق شریک جرم تھے،باکراہت مستعفی ہوئے۔ وزیر اعلی شہباز شریف نے استعفے کے مطالبے کو ایک کان سے سنا اور دوسرے سے اڑا دیا۔ انہوں نے باقر نجفی پہ مشتمل ایک رکنی ٹریبونل لاہور ہائی کورٹ کے نو حلف یافتہ چیف جسٹس امتیاز علی خواجہ کے حکم پہ قائم کردیاجسے ڈاکٹر طاہر القادری نے یہ کہہ کر یکسر مسترد کردیا کہ وزیر اعلیٰ کے مستعفی ہوئے بغیر غیر جانبدارانہ تحقیقات ممکن ہی نہیں۔ اس کے باوجود شہباز شریف آخری لمحات تک نہ صرف وزیر اعلی رہے بلکہ پورے کروفر کے ساتھ سولا ہیٹ اور ماؤ سوٹ پہنے سرکاری افسران کو میٹنگوں میں حسب مراتب ذلیل کرتے اور جس جس کو معطل کرسکتے تھے ، معطل کرتے رہے۔ حکومت کو چودہ جانوں کے ضیاع اور ایک بھرپور عوامی احتجاج کے باوجود کوئی خطرہ نہیں ہوا۔عمران خان کے دھرنے کے چار مطالبات تھے،نواز شریف کا استعفیٰ،وسط مدتی انتخابات،دھاندلی کرنے والوں کے نام افشا کئے جائیں ان کو سزا دی جائے اور کچھ نہیں تو صرف چار حلقے کھول دئے جائیں۔یہ دھرنا 126 دن جاری رہا۔ عمران خان کے مطالبات کی حمایت جماعت اسلامی نے کی اور وہ اس کی مخالفت کرہی نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ کراچی میں دھاندلی کے خلاف نتائج کا بائیکاٹ کر چکی تھی لیکن اس نے آزادی مارچ میں تحریک انصاف کا ساتھ نہیں دیا۔وجہ یہ بیان کی کہ اس سے جمہوری عمل کو خطرہ ہے گویا تحریک انصاف کا چار حلقے کھولنے کا مطالبہ جمہوریت کو خطرہ تھا۔ اگر واقعی یہ خطرہ موجود تھا تو فوج کو آنے سے اسی صورت روکا جاسکتا تھا اگر یہ حلقے کھول دیے جاتے لیکن دھاندلی کی اینٹوں پہ کھڑی حکومت اس کے لئے تیار نہیں تھی۔پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے احتجاج کا حق تسلیم کیا اور اس کے مطالبات بھی اخلاقی طور پہ درست تسلیم کیے لیکن چونکہ میثاق جمہوریت کے تحت دونوں بڑی جماعتوں کی باریاں لگی ہوئی تھیں اور فرینڈلی اپوزیشن کا کردار اس سے قبل نون لیگ نبھاتی رہی تھی اس لئے اس کی حمایت اعتزاز احسن کے بیانات تک محدود رہی۔عملی طور پہ حقیقی اپوزیشن کا کردار صرف تحریک انصاف ادا کررہی تھی۔ اس دوران تحریک انصاف کے منحرف رکن ، اس سے قبل نون لیگ کے قائم مقام صدر اور نواز شریف کے دیرینہ ساتھی اور اس سے بھی قبل اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن جاوید ہاشمی نے دھرنے پہ آئی ایس آئی کی درپردہ حمایت کا الزام لگایا ااور بیچ راستے سے واپس ہولئے۔ انہوں نے اس حوالے سے کچھ ایسے انکشافات کئے جن کی رو سے بالواسطہ طور پہ فوج اس دھرنے کی سہولت کار تھی اور نواز شریف کے خلاف اسے استعمال کررہی تھی۔ان کے انکشافات نے نہ صرف اس وقت سیاسی ماحول میں ہلچل مچائی بلکہ آج تک عمران خان پہ فوج کی حمایت سے برسراقتدار آنے کا داغ لگادیا جسے آج تک اپوزیشن نے مقبول بیانیہ بنایا ہوا ہے۔مشاہد اللہ خان نے جنرل ظہیر الاسلام کا نام لے کر دھرنے کی پشت پناہی کا الزام لگایا۔حالانکہ دھرنا سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ایک آزاد جے آئی ٹی کی تشکیل کے وعدے پہ ختم ہوا جس کے بعد پورے تین سال نواز شریف برسراقتدار رہے۔ اس دوران کئی ایسے معاملات ہوئے جب ان سے کہیں کم درجے کے سنگین معاملات پہ جمہوری حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا رہا ہے لیکن نواز شریف وزیر اعظم رہے حتیٰ کہ پاناما کیس منظر عام پہ آگیا۔ اس کے بعد وہ نااہل ہوئے لیکن جمہوری حکومت قائم رہی اور اپنے وقت پہ شیڈول کے مطابق انتخابات ہوئے۔اگر عمران خان کی پشت پہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا تو اتنے سنگین سانحات کے باوجود نواز شریف کی حکومت گرنے سے کون روک رہا تھا؟اس وقت عمران خان جیسا مضبوط اپوزیشن لیڈر حکومت نہ گرا سکا تو یہ ٹوٹی پھوٹی اور بکھری اپوزیشن جس کی چولیں ہی ٹھیک نہیں بیٹھ رہیں، کس برتے پہ حکومت گرانے کی تحریک چلائے گی اور کیونکر کامیاب ہوگی؟یہاں حال یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی حکومت کے خلاف احتجاج کرتی ہے لیکن ساتھ ہی اعلان کرتی ہے کہ اگر پی اے سی کا اعلامیہ ان کی خواہش کے مطابق نہ ہوا تو وہ علیحدہ ہوجائے گی۔جسٹس فائز عیسی معاملے پہ اپوزیشن سے پہلے وکلا تقسیم ہوچکے اور پنجاب بار نے ریفرینس کو قطعی آئینی قرار دیتے ہوئے خود کو الگ کرلیا ہے۔ اب احتجاجی تحریک کا بار بلوچستان اور سندھ بار پہ ہے۔ شہباز شریف پہ پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ کا الزام ہے اور وہ مخالفین کے من بند کرنے کو لندن سے آتو گئے ہیں لیکن کسی احتجاجی تحریک کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ایسے میں حکومت کا اونٹ کتنا ہی بے تکا بیٹھا ہو اس کا ہونٹ گرنے کے انتظار میں بیٹھنے والے کسی خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔