کورونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ روکنے کے لیے گھر گھر ویکسی نیشن مہم کا آغاز کردیا گیا ہے۔ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے مہم کا افتتاح کرتے ہوئے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت کاساتھ دیں۔ پنجاب کے بعد آج بروز بدھ خیبر پختونخوا میں گھر گھر ویکسی نیشن مہم شروع کی جا رہی ہے ۔امید ہے کہ اگلے چند روز میں ملک کے باقی علاقوں میں بھی انسداد کورونا کی نئی مہم کا آغاز کر دیا جائے گا۔ فروری 2020ء سے تادم تحریر کورونا وائرس کئی شکلیں تبدیل کر چکا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں میں مدت سے موجود یہ وائرس ہلاکت خیز کیسے بنا‘ اس پر تفصیلات دستیاب نہیں۔ چین کے علاقے ووہان سے پہلے پہل جب کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوئیں تو دنیا نے اسے ایک مقامی مسئلہ سمجھ کر توجہ نہ دی۔ چین نے کوشش کی کہ کورونا کا وائرس ووہان سے باہر نہ جا سکے تاہم وائرس کی خصوصیات سے ناواقفیت کے باعث احتیاطی تدابیر میں خامیاں رہ گئیں۔ کورونا کے انسداد کی خاطر شروع میں ساری توجہ احتیاطی تدابیر پر مرکوز کی گئی۔ چین میں وائرس کو قابو میں رکھنے کے لیے کئے گئے اقدامات کا تجزیہ کر کے عالمی ادارہ صحت نے تمام ممالک کے لیے ایس او پیز کی منظوری دی۔ ان ایس او پیز میں کہاگیا کہ تمام افراد ناک اور منہ کو ماسک سے ڈھانپ کر رکھیں۔ ہاتھ ملانے اور معانقہ سے پرہیز کریں۔ ہاتھوں کو تھوڑی دیر کے بعد بار بار بیس سیکنڈ تک دھوئیں۔ سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے ہجوم اور رش والی جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں۔ ماہرین کی سفارش پر ہاتھوں کے لیے سینٹی ٹائزر کے استعمال پر بھی زور دیا گیا۔ عمومی جائزہ بتاتا ہے کہ جن ممالک میں ان احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا گیا وہاں کورونا نے کم نقصان کیا۔ امریکہ‘ فرانس اور دیگرترقی یافتہ ممالک کے شہریوں نے جب ان تدابیر پر عمل کرنے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو وہاں ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ جنوب ایشیا میں بھارت بڑی آبادی والا ملک ہے۔ بھارتی حکومت نے لاک ڈائون کی پالیسی نافذ کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کروڑوں لوگ کاروبار بند ہونے اور ٹرانسپورٹ کی بندش کے باعث مشکلات میں گھر گئے۔ بھارت میں عمومی طورپر صحت کی سہولیات خطے کے دیگر ملکوں کی نسبت بہتر اور سستی سمجھی جاتی ہیں‘ کورونا وائرس پھیلا تو سارا ڈھانچہ زمین بوس ہو گیا اور بھارتی آبادی موت کے خوف میں مبتلا ہو گئی۔ خوف و ہراس کی اس صورت حال میں اس وقت کمی دیکھنے میں آئی جب انگلینڈ‘ روس‘ چین اور بھارت نے ویکسین بنانے میں کامیابی کا اعلان کیا۔ پاکستان میں طبی تحقیق کا شعبہ پسماندہ ہے‘ نئی ادویات اور ویکسین کی تیاری کا عمل ماہرین کی کمی اور سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث آگے نہیں بڑھ پایا‘ کچھ کوتاہی سابق حکومتوں کی رہی جو طبی تحقیق کے لیے موزوں حجم کا بجٹ مخصوص نہ کرسکیں۔ ویکسین وہ پہلا موثر طریقہ ہے جس سے کورونا سے بچا جا سکتا ہے۔ قرضوں میں ڈوبی معیشت اور کورونا کے دوران کاروبار بند ہونے سے پاکستان کی ویکسین خریدنے کی سکت متاثر ہوئی۔ حکومت نے ابتدائی طور پر دولت مند ممالک کی جانب سے عطیات پر انحصار کیا۔ پھر مختلف ممالک سے ویکسین خریدنے کاسلسلہ شروع کیا۔ آغاز میں صرف ان افراد کو ویکسین لگائی گئی جو صحت کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف کے بہت سے افراد کورونا سے متاثر ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں۔ طبی عملے کو بچانے اور ان میں خوف کو ختم کرنے کے لیے ویکسین کی فراہمی از حد ضروری تھی۔ طبی عملے کے بعد ہر اس اہلکار کو ویکسین لگانے کا پابند کیا گیا جو روزمرہ امور کی انجام دہی میں لوگوں سے ملتا ہے۔ پولیس‘ اساتذہ‘ دفتری عملہ اس مرحلے پر ویکسین لگوانے کا پابند کیا گیا۔ حکومت نے عام شہریوں کے لیے ویکسی نیشن کا اعلان کیا تو سب سے پہلے ستر سال سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین دی گئی۔ ویکسی نیشن سنٹر بنائے گئے‘ موبائل ایس ایم ایس سہولت فراہم کی گئی جس کی مدد سے ہر شہری اپنا اندراج کرا سکتا تھا اور باری آنے پر ایسے متعلقہ ویکسی نیشن سنٹر پر جانے کی ہدایت مل جاتی۔ شہریوں کے تعاون سے حکومت وقتاً فوقتاً ایس او پیز میں تبدیلی کرتی رہی۔ لاک ڈائون کے معاملے میں بھی این سی او سی کی ہدایات پر نرمی کی جاتی رہی۔ اس سارے انتظام کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان میں کورونا کی ہلاکت خیزی کافی حد تک قابو میں رہی۔ تین ماہ قبل بھارت میں ڈیلٹا نام کا نیا وائرس سامنے آیا‘ رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ بھارت میں 49 لاکھ افراد کورونا کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ نیا وائرس ہلاکت خیزی کے لحاظ سے زیادہ شدت رکھتا ہے۔ دو ہفتوں سے ڈیلٹا وائرس کے کیس پاکستان میں بڑھ رہے ہیں۔ حکومت کی تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود یہ وائرس پھیل رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ تمام آبادی کو ویکسین نہ لگائی گئی تو خدانخواستہ حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر کئی جگہ ایس او پیز کی خلاف ورزی نے بھی وائرس پھیلنے میں معاونت کی ہے۔ ان حالات میں صدر مملکت عارف علوی کی شہریوں کو سنجیدگی اختیار کرنے کی اپیل برمحل ہے۔ شہریوں کی بڑی تعداد سستی یا کم علمی کی وجہ سے ویکسی نیشن سنٹروں پر نہ جا سکی۔ نئے وائرس سے بچائو کے لیے سرکاری عملے کا گھر گھر جا کر ویکسین لگانے کی مہم کورونا وائرس کے انسداد میں مدد گار ثابت ہو گی تاہم ضروری ہے کہ پولیو مہم کی خامیوں کو پیش نظر رکھ کر ویکسی نیشن کی مہم شروع کی جائے۔