انقلاب کی ہاہاکار ہے اور انقلاب ہے کہ آ ہی نہیں رہا۔ اتنے انقلابی‘ اتنے لیڈر لیکن انقلاب کا دور دور تک نشان نہیں۔ ان کو کون سمجھائے کہ انقلاب قوموں میں آتے ہیں‘ایک ہجوم میں انقلاب کیسے آ سکتا ہے۔فرقوں‘ قبیلوں گروہوں اور خیالات میں بٹا ہوا ہجوم ملک میں انقلاب چاہتا ہے۔حیرت ہے! خدا کے بندو!یہ ممکن ہی نہیں کہ ایسا ازدحام جسے قوم ہونے کا گمان ہے‘اسے کوئی خبر کیوں نہیں کرتا کہ قوم بنو گے تو انقلاب آئے گا۔ یہ مداری جو اس قوم کو موم کی ناک سمجھ کر گھماتے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں یہ انہیں رہبر جان کر پیچھے چل پڑتے ہیں۔ وہ لے جا کر اس ہجوم کوکسی گڑھے میں اتاردیتے ہیں۔ امام العصر نے کہا تھا ’’سکتے کے مریض کا آخری امتحان اس طرح لیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں اگر کچھ دھندلاہٹ پید اہو توسمجھاجاتا ہے ابھی کچھ جان باقی ہے ورنہ زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہو جاتی ہے۔‘‘اب وہ لمحہ ہے کہ سکتے میں ڈوبے اس نظام کو آئینے کے سامنے لایا جائے اوراپنی ناتمام حسرتوں کا جنازہ پڑھ لیا جائے۔ کیاعجیب منظرہے کہ ایک صاحب آتے ہیں ،تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں اوریہ ہجوم بھاگ کر اس کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہے۔ دوسرے صاحب آتے ہیں وہ اپنی چرب زبانی سے اس ازدحام کو اپنے انقلابی ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔ یہ اس کے پاس پہنچ کر ’’جیوے جیوے‘‘کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔قدم قدم پر دھوکے لیکن یہ ہجوم ہر بار لٹ کر پھر لٹنے کے لیے تیار رہتاہے۔حیرت ہے اس گروہ در گروہ تقسیم ہوتے عوام پر جو گاؤں اور دیہات کی سطح پر ان خود ساختہ قائدین کے چنگل میں پھنسے ہیں مگر اف تک نہیں کرتے۔ وہ معاشرہ جس پرلوڈ شیڈنگ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور اپنا حق مانگنے کے بجائے یہ موم بتیاں اور یو پی ایس خرید لیتا ہے۔گیس نہیں ملتی تو لکڑی اور کوئلہ خرید لیتے ہیں۔ سی این جی اور پیٹرول کی لمبی لمبی قطاروں میں لگا یکسو ہجوم بڑے فخر سے کہتا سنا جاتا ہے۔’’آج فجر کے بعد سی این جی ڈلوانے گیا تھا اللہ کے فضل سے دو گھنٹے میں فارغ ہوگیا۔‘‘ جسے آٹے اور چینی کے لیے قطار میںکھڑا کیا جاتا ہے اور اف تک نہیں کرتا۔جنہیں بنکوں میں بل جمع کرانے کے لیے دھوپ اور سردی میں لمبی لمبی قطاروں میں سڑکوں پر کھڑا رکھا جاتاہے،جن سے بجلی کابل کم اور ٹیکس زیادہ لیا جاتاہے۔جن کے وسائل لوٹے جاتے اور اپنے بنک بھرے جاتے ہیں۔متعفن نظام کی باہوں میں جھولتے عوام،کیا حیرت انگیز منظر ہے۔ اسے اللہ کی رضا جان کر قبول کر لیا گیا ہے۔۔ا س قدر صابر شاکر لوگوں کو جب چند ’’انقلابی‘‘ لیڈر نظر آتے ہیں تو یہ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ چلتا ہوں تھوڑی دیر ہر راہرو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں ہمارے تھانے رشوت کا گڑھ ہیں لیکن وہاں لکھاہوتاہے '' رشوت لینے والااور دینے والا دونوں جہنمی ہیں '' یہاںعدالتوں میں گواہی کے لئے پانچ سو روپے میں گواہ مل جاتا ہے ۔ہماری در س گاہیں جہالت بیچتی ہیں۔۔۔۔مگر وہاں لکھا ہوتا ہے '' علم حاصل کرو، ماں کی گود سے لے کر قبر کی گود تک ''ہمارے اسپتال موت بانٹتے ہیں مگر وہاں لکھا ہوتا ہے '' اور جس نے ایک زندگی بچائی اس نے گویا سارے انسانوں کو بچایا ''ہمارے بازارملاوٹ کے اڈے ہیں مگر وہاں لکھا ہوتا ہے '' جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ''پون صدی میں اتنے دھوکے کھانے کے بعد اتنے شعبدہ بازوں کے پیچھے چلنے کے باوجود اس ہجوم کو ابھی تک قرار کیوں نہیں آتا۔ اسے منزل کیوں نہیں ملتی۔ انقلاب کیوں نہیں آتا۔ حیرت ہے تعجب ہے۔ اے تبدیلی کے منتظر لوگو!!انقلاب کبھی بھی بکتر بند مورچوں‘ ٹیلی فون کے ڈبوں‘ نعروں دعوؤں‘ وعدوں سے نہیں آتا۔ انقلاب لانے والے اور ہوتے ہیں اور جن نسلوں‘ قوموں ملکوں میں انقلاب آتا ہے وہ اور ہوتے ہیں۔ سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا ’’جو قوم یہ نہیں جانتی کہ معاشرے کے سچے اور کھرے لوگ کون ہیں‘ سچے اور دیانت دار کون ہیں وہ یہ دیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں تو ایسے لوگوں کو قوم کہلانے کا حق حاصل نہیں ہوتا جو لوگ یہ جان سکتے ہیں کہ فلاں ڈاکٹر اچھا ہے‘ مقدمہ لڑنے کے لیے جان سکتے ہیں کہ فلاں وکیل قابل ہے اور خرید و فروخت کے لیے یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ فلاں تاجر بھروسے کے لائق ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ یہ نہیں جان سکتے ان کی زندگیوں میں کون سے لوگ ہیں جو تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتے ہیں اور جن پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہجوم،جس کے سامنے روشنی پیش کی جائے اور وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دے۔ جسے راہ راست کی طرف دعوت دی جائے اور وہ ٹیڑھے راستے پر چلنے کو ترجیح دے اس ہجوم‘ اس عوام‘ اس گروہ کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ پھر اس گروہ کو تاریکی اچھی لگتی ہے۔و ہ اندھوں کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چلنے اور ٹھوکریں کھا کھا کر گرنا پسند کرتا ہے۔ اس ہجوم کو جھاڑیاں باغ اور کانٹے پھول نظر آتے ہیں اسے ہر بد کاری میں مزہ آتا ہے۔ ہر حماقت کو تحقیق سمجھتے ہیں اور ہر فساد انگیز تجربے کے بعد اس سے بڑھ کر دوسرے فساد انگیز تجربے کے لیے اس امید پر پھر تیار ہو جاتے ہیں کہ پہلے اتفاق سے دھکتے انگارے پر ہاتھ پڑ گیا تھا تو اب لعل بدخشاں ہاتھ آ جائے گا۔‘‘ کبھی ایسا ہوتا نہیں۔ صد حیف کہ ہجوم اور ازدحام کو ہم قوم سمجھ رہے ہیں۔ انقلاب ہمیشہ قوموں میں آتا ہے۔ انقلابی ہمیشہ قوموں سے اٹھتے ہیں۔ انقلاب کی ہاہاکار میں ناابھی کوئی انقلابی ہے نہ انقلابی قوم۔ ہجوم ہیں ہم نرا ہجوم!!ہجوم سے قوم بننے میں شاید ابھی مزید’وقت کی ضرورت ہے۔