معزز قارئین! مَیں نے سرگودھا سے 1960ء میں ’’مسلکِ صحافت ‘‘ اختیار کِیا۔ پھر لاہور میرے خوابوں کا شہر بن گیا (اب بھی ہے) ۔ مَیں 1969ء سے لاہور میں ہُوں اور 1987ء سے اسلام آباد میں لیکن، مَیں لاہور ہی سے میری شناخت ہے۔ میرے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں لاہور میں پیدا ہُوئیں ۔ پرسوں (3 جولائی کو ) طوفانی بارش کے بعد لاہور اور اہلِ لاہور کے ساتھ جو کچھ ہُوا اُس کی تفصیلات الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر دُنیا بھر نے دیکھیں ۔ بعض شہ سُرخیاں یوں تھیں کہ ۔ ’’ لاہور ڈوب گیا۔ پاکستان کا پیرس ڈوب گیا "Underpasses" دریا بن گئے ۔ سڑکیں ، گلیاں چھپڑ بن گئے، مال روڈ پر 20 گہرا اور 2 فٹ چوڑا گڑھا بن گیا۔ شہر کی سڑکیں ندی، نالوں کے مناظر پیش کر رہی ہیں ۔ بجلی کے کھمبے اُکھڑ گئے ، اورنج ٹرین کا سٹیشن بیٹھ گیا۔ 11 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہُوئے‘‘ ۔ بارانِ رحمت کی دُعا کرتے ہُوئے مجھے اِس وقت پنجابی کے صُوفی شاعر میاں محمد بخش ؒیاد آ رہے ہیں جنہوں نے کِس خلوص سے دُعا مانگی تھی کہ … رحمت دا مِینہ پا ، خُدایا! باغ سُکّا، کر ہریا! بُوٹا ، آس اُمید دا، میری، کر دے ، میوے بھریا! بارانِ رحمت کے لئے تو ، سبھی لوگ ہی دُعا مانگتے ہیں لیکن، طوفانی بارش کے بعد جب ، کسی گائوں یاشہر میں ہر طرف غلاظت ، نجاست ، گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگ جائیں تو، کیا اِسے حکمرانوں کی نالائقی یا نااہلی نہیں کہا جائے گا؟ ۔ میاں شہباز شریف 10 سال تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے۔ اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کی طرح لاہور ہی کی ’’جَم پَل ‘‘ ہیں اور لڑکپن ہی سے لاہور کو پیرس بنانے کا خواب دیکھتے اور بیان کرتے رہے ہیں ۔ 3 جولائی کو الیکٹرانک میڈیا اور 4 جولائی کو پرنٹ میڈیا پر میاں شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’ ہمیں گئے ہُوئے ایک ماہ ہوگیا۔ بارشوں سے ہونے والی تباہی کے ذمہ دار نگران حکومت ہے۔ نگران حکومت بارش کے 16 گھنٹے بعد باہر نکلی۔ مشکل گھڑی کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا افسوس ناک ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’’ میاں شہباز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں تو، پنجاب کے عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے بھی کچھ کیوں نہیں کِیا۔ 10 فروری 2001ء کو لاہور میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز اُلاحسن اور جسٹس منظور ملک پر مشتمل تین رُکنی بینچ میں پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی پر از خُود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کے دَوران عدالتی معاون ، عائشہ حامد ایڈووکیٹ نے بتایا تھا کہ ’’ کافی عرصہ سے دریائے راوی میں ہر روز 54 کروڑ گیلن گندا پانی پھینکا جاتا ہے ‘‘۔ اِس پر چیف جسٹس صاحب نے میاں شہباز شریف کو طلب کِیا اور اگلے روز (11 فروری کو) چیف جسٹس صاحب نے وزیراعلیٰ پنجاب کو حُکم دِیا کہ ’’ آپ تین ہفتے میں پینے کے صاف پانی کامنصوبہ پیش کریں!‘‘۔ اِس پر 13 فروری کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ راوی پِیوے گندا پانی۔ خادمِ اعلیٰ دلبر جانی‘‘۔ میاں شہباز شریف 8جون 2018ء تک وزیراعلیٰ رہے۔ اُنہوں نے پینے کے صاف پانی کے منصوبے کا کیا کِیا؟۔ راوی خاموش ہے۔ ’’اُستاد ِ اعلیٰ پنجاب ‘‘ پروفیسر حسن عسکری ، اُن کی کابینہ کے ارکان ، بیورو کریٹس اور دوسرے اہلکاروں نے بس اِتنا ہی کِیا کہ ’’ لاہور کے بعض علاقوں کے لوگوں کو کشتیوں پر بِٹھا کر اُن کے گھروں اور دکانوں سے ’’اُٹھوا کر ‘‘ محفوظ مقامات پر پہنچا دِیا۔ لاہور اور ارد گرد کے علاقوں کے جو ،لوگ بڑے گھروں ، اونچی دکانوں اور پلازوں کے مکین ہیں ۔ اُن کا طوفانی بارش کیا بگاڑ سکتی ہے ۔ اُن کے تو گھر ، دکانیں اور پلازے ہی اُن کے لئے کشتیوں ؔکاکام دیتے ہیں؟۔ بائیبل اور قرآنِ پاک کے حوالے سے ’’طوفانِ نوح ؑ‘‘ کی داستان سُنائی جاتی ہے کہ ’’ جو منکرین حق پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی صُورت میں نازل ہُوا ۔ یہ طوفان ہفتہ بھر جاری رہا اور اُس میں صِرف وہی 80 لو گ ( مرد اور خواتین ) اور ہر جانور کا ایک جوڑا ہی بچ سکا جو کشتی ٔ نُوحؑ پر سوار تھے ۔ گویا اُس طوفان میں منکرین حق ہی ہلاک ہُوئے تھے ۔ ہمارے یہاں جب ، کبھی طوفان ، خُشک سالی یا قحط کی صُورت پیدا ہوتی ہے نچلے طبقے کے لوگ بھوکوں مرنے لگتے ہیں تو، ہمارے بعض مولوی صاحبان کہا کرتے ہیں کہ ’’ قوم کو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہیے!‘‘۔ پاکستان کے مفلوک سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈارکا یہ ’’ اقبالی بیان‘‘ On Record ہے کہ ’’ پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکِیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ‘‘۔ اِس کا ذمہ دار کون ہے؟۔ 25 جولائی کے عام انتخابات میں سے 80 فی صد قومی اور صوبائی اسمبلی امیدواران ارب پتی ہیں اور اُن کی ایک بڑی تعداد پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں ۔ معزز قارئین! آپ نے حضرت موسیٰ ؑ کے دَور کے امیر ترین شخص قارون ؔکا تذکرہ تو سُنا ہوگا؟ کہ ’’ جب حضرت موسیٰ ؑ نے اُسے حُکم دِیا کہ ’’ ایک ہزار دینار ؔپر ایک دِینار زکٰوۃ دے دِیا کرو!‘‘ تو، اُس نے انکار کردِیا تھا۔ پھر حضرت موسیٰ ؑ کی بددُعا سے قارون ؔاپنے سارے خزانے کے ساتھ زمین میں دھنس گیا تھا۔ ہمارے بعض عُلماء ایک حدیث رسولِ مقبول ؐ سُنایا کرتے ہیں کہ ’’ میری اُمتّ کے عُلماء بنی اسرائیل کے انبیاء سے زیادہ افضل ہوں گے !‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا اِس وقت ہمارے پیارے پاکستان میں واقعی بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل عُلماء موجود ہیں اور اگر ہیں تووہ، پاکستان کے قارون ؔصِفت لوگوں کو بددُعا کیوں نہیں دیتے؟۔ پرسوں (6 جولائی کو) اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پانامہ لیکس کیس کی 9 ماہ تک سماعت کے بعد ملزمان ۔ میاں نواز شریف، اُن کی بیٹی مریم نواز، دماد کیپٹن( ر) محمد صفدر ، دونوں بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز اور سمبندھی اسحاق ڈار کے مقدمات کا فیصلہ ہوگا لیکن، میاں نواز شریف، مریم نواز، حسین نوا ز اور حسن نواز تو، لندن میں ہیں ۔ کیا وہ 6 جولائی کو عدالت میں پیش ہو جائیں گے ؟۔ یا لندن ہی میں رہ کر بیگم کلثوم نواز کی تیمارداری کرتے رہیں گے؟۔ عام طور پر عدالتوں کے فیصلوں پر پیشگی تبصرہ نہیں کِیا جاسکتا لیکن، شریف خاندان نے جو کچھ کِیا، اِس فانی دُنیا ہی میں اُن کا نامۂ اعمال پُوری دُنیا جان گئی ہے ۔ مَیں دسویں جماعت کا طالبعلم تھا جب، جھنگ کی ایک جامع مسجد کے خطیب نے اپنے خطبہ سے پہلے ’’اعمال نامہ ‘‘ کے بارے پنجابی کا یہ شعر سُنایا تھا کہ … جدوں ، کَڈّھ کے ، سامنے کِیتاچیخاں نِکل ّگِیّاں ! کیا ہی اچھا ہو کہ ’’ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور دوسرے جج صاحبان ، پاکستان کے قارون ؔصِفت سابق حکمرانوں اور موجودہ سیاستدانوں کو ’’ درس عبرت‘‘ کے لئے لاہور میں مدفون اپنے دَور کے ہندوستان کے دو ’’جلیل اُلقدر ‘‘ بادشاہوں ۔ قُطب اُلدّین ایبک ، نور اُلدّین جہانگیر اور اُس کی چہیتی ملکہ نور جہاں کے خستہ حال مقبروں پر جانے کا مشورہ دیں ۔ ملکۂ نور جہاں ، شاعرہ بھی تھیں۔ اُنہوں نے تو، اپنی وفات سے پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ … بَر مزار ِ ، ما غریباں ، نَے چراغے ، نَے گُلے ! نَے پرِ پروانہ سوزد ، نَے صدائے بُلبلے! یعنی۔ ’’ ہم غریبوں کے مزار پر کوئی چراغ نہیں جلاتا اور نہ ہی پھول چڑھاتا ہے۔ یہاں نہ ہی کسی پروانے کا چراغ پر منڈلاتے ہُوئے ، پَر جلتا ہے اور نہ ہی بُلبل کے گانے کی آواز آتی ہے ۔معزز قارئین!۔ امریکہ ، برطانیہ اور دُبئی میں سیٹل میرے پانچ بیٹوں سے جب ، بھی کسی ایک سے میری ٹیلی فون پر بات ہوتی ہے تو ، مَیں اُسے پیار سے ’’گندے بچے !‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہُوں۔ کل باری ، باری اُن سب نے لاہور کی گندگی پر مجھے سے ہمدردی کا اظہار کِیا ۔ سوال یہ ہے کہ ’’ اگر مَیں یہ کہوں کہ ’’ گندے بچوں ‘‘(حکمرانوں ) نے میرا لاہور گندا کردِیاہے ‘‘۔ تو کیسا رہے گا؟ ۔