میرے عزیز ہم وطنو اور خدا ہمارا حامی و ناصر ہو کے درمیان ستر سال سے اونگھنے پہ مجبور کردینے والی رٹی رٹائی اصطلاحات سے بوجھل غیر متاثر کن تقریروں کے انبار میں یہ ایک چونکا دینے والا خطاب تھا کیونکہ یہ عمران خان کا خطاب تھا جو چونکا دینے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ آخر انہوں نے ایک ماہ میڈیا اور کل کی حکومت اور آج کی اپوزیشن ہی نہیں خود اپنی پارٹی کے برزجمہروں اور ان گھاگ سیاست دانوں کو جو اڑتی چڑیا کے پر گننے ہی نہیں کترنے میں بھی ماہر سمجھے جاتے ہیں،تجسس میں مبتلا رکھا اور اپنے جاگنگ سوٹ کی جیب سے نکالا بھی تو کون ؟ایک ایسا غیر معروف سیاست دان جسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ جو پہلی بار ایم پی اے منتخب ہوا اور ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بن گیا جہاں گردن میں پوری اتفاق فونڈری ڈالے،ایک خاندان کم و بیش دو عشروں سے بلا شرکت غیرے حکومت کررہا تھا۔ تخت لاہور کے وارثین منہ دیکھتے رہ گئے۔ آپ اسے کتنا ہی غیر دانشمندانہ فیصلہ سمجھیں یہ عشروں سے اکڑی اور تنی ہوئی نفسیات پہ ایسی ضرب تھی جس نے ان اعصاب کو جھنجھنا کے رکھ دیا جو جی سر‘ یس سر کی گردان کے خوگر تھے۔ بیوروکریسی کی راہداریوں میں جن کے تصرف کا حال کسے معلوم نہیں۔ وہ تو خیر بادشاہ وقت تھے، ان غلام گردشوں میںتو ان کی سابقہ محبوبائوں اور مطلقائوں کا سکہ چلتا تھا۔ عمال و افسران کی فوج در فوج تھی جو احتساب کے خوف سے آزاد قوم کے سرمائے کے ساتھ مونوپلی کھیل رہی تھی۔ اس کے باوجود ہمہ وقت معطلی کی تلوار سر پہ لٹکتی رہتی تھی۔کتنے ہی شرفا ماتھے سے عرق مذلت پونچھتے اس کمرے سے باہر آتے جہاں تکبر کی بادشاہی تھی۔ تعلیم اور صحت سے لے کر تعمیرات اور پولیس تک کون سا شعبہ تھا جو ان کی سیاسی دخل اندازی بلکہ درانہ وار دست برد سے محفوظ تھا۔ انہیں زعم تھا اور بلا وجہ نہیں تھا کہ ہر شاخ پہ انہوں نے خود اپنا الو سیدھا کرکے بٹھارکھا تھا کہ تخت لاہور ان کے ہاتھوں سے کہیں نہیں جائے گا۔ جب وہ چلا گیا تو انہیں زعم تھا کہ وہ سلوک تو ہوگا جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے مقابل جو آئے گا کوئی نامور ہوگا ، ذی حشم ہوگا، ان کے شایان شان ہوگا تو ٹوٹی پھوٹی انا کو کچھ تسکین ملے گی۔ انہیں لیکن علم نہیں تھا کہ اس بار ان کا مد مقابل وہ ہے جو کھیل بعد میں کھیلتا ہے پہلے نفسیات سے کھیلتا ہے۔ سیدھے سادے غیر اہم سے شخص کو جسے کوئی نہیں جانتا تھا، ان کے سامنے لاکر کھڑا کردیا جنہیں اپنے سوا کچھ نظر ہی نہ آتا تھا۔ کچھ دیر تو سناٹا چھا گیا۔ یہ عمران خان نے کیا حرکت کی۔ جب حواس ٹھکانے آئے تو شور مچنا شروع ہوا۔یہ شور کیا تھا؟ یہ تو پہلے نون لیگ میں تھا۔پھرجنوبی صوبہ محاذ میں آیا جہاں خسرو بختیاربھی تو تھا ۔ اس کا باپ تو نون لیگ کا ایم پی اے تھا۔جیسے عمران خان پہ یہ فرض کردیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کی کل آبادی کو ملیا میٹ کرنے کے بعد خالص اپنے زور بازو پہ ایک نئی نکور نسل پیدا کریں گے تاکہ زمام کار اس کے سپردکر کے بقیہ عمر یاد الہی میں گزاریں۔پھر یہ عمران خان کے بیان کے مطابق غریب کب ہے یہ تو سردار ہے۔ اس کے گھر میں بجلی بھی ہے۔عمران خان کو پتا ہی کچھ نہیں۔ سیاست ایسے ہوتی ہے۔ اتنے اہم صوبے کا ایسا وزیراعلیٰ ؟ لفظ ایسا کے بعد وہ کچھ کہا گیا کہ عثمان بزدار چاہیں تو کچھ اینکروں پہ ہتک عزت کا دعوی کردیں۔ اس ایسے وزیراعلیٰ کا قصور بس یہ تھا کہ وہ سمارٹ نہیں تھا اور میڈیا کی چکا چوند میں اسے کوئی نہیں جانتا تھا اور اس سے پہلے وہ کسی پر حشم عہدے پہ فائز نہیں تھا ۔تب بہت جان مار کے بیس سال قبل کا ایک مقدمہ اور ایف آئی آر نکال کے میڈیا میں پھیلا دی گئی کہ دیکھو یہ ہے تبدیلی۔ یہ بھی نہ سوچا کہ یہ کونسا عام انتخابات ہیں جو اس قسم کے حربے انہیں وزیراعلیٰ بننے سے روک دیں گے؟ہوا وہی جو ہونا تھا۔ آج وہ شخص تخت لاہور پہ براجمان ہے جسے کوئی نہیں جانتا تھا۔عمران خان کے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں۔بظاہر پریشان کن لیکن اعصاب پہ دیر تک سوار رہنے والے۔ پارلیمنٹ میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ان کی آتش فشانی تقریر کو بھی ایسے ہی روایتی طبقات کی جانب سے اعتراض کا نشانہ بنایا گیا ۔عمران خان نے کب ہومیو پیتھک تقریر کی ہے؟اس باروہ ایسا کرتے تو مایوس ہی کرتے۔وہ بولے اور ایسا بولے جیسا ہم سننا چاہتے تھے۔ ہمیشہ کی طرح بے لاگ اور دوٹوک۔ آواز اور خطاب میں یہ گھن گرج تب ہی آتی ہے جب بولنے والے کا ضمیر صاف ہو اور اسے کوئی بلیک میل نہ کرسکے۔ یہی بات انہوں نے بغیر کسی جھجھک کے کہہ ڈالی۔ عجیب بات ہے یہی بات میں نے ان کے متعلق کئی لوگوں سے پہلے بھی سنی جب انہوں نے ریحام خان سے شادی کی غلطی کی۔ ان کی خوش قسمتی اور ان کے مخالفین کی بدقسمتی ہے کہ ان کے چاہنے والے انہیں ان کے حریفوں سے زیادہ جانتے ہیں اور انہوں نے کبھی اپنے چاہنے والوں کی توقعات پہ پجارا نہیں پھیرا ہاں مخالفین کو پریشان ضرور کیا ہے جن کی کل سیاست کا حاصل چند ٹھیکے، کچھ کمیشن اور منی لانڈرنگ سے بنائے گئے وہ محلات ہیں جن میںانہیں رہنا نصیب نہیں ہوتا ۔ یہ عرصہ دراز پہلے بھول چکے ہیں کہ عوام کی نبض کہاں دھڑکتی ہے۔ یہ عمران خان جانتے ہیں ۔انہوں نے غالباً SUN TZU کی قدیم کتاب آرٹ آف وار پڑھ رکھی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اب تک اسپورٹس مین ہیں۔کرکٹ سے ریٹائرمنٹ صرف کیریئر کا ایک واقعہ تھی۔ اگر ان روایتی سیاست دانوں نے کرسی کے علاوہ کوئی کھیل کھیلا ہو تو انہیں پتا ہوگا کہ اسٹیمنا کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور حریف کی نفسیات سے کیسے کھیلا جاتا ہے کہ وہ خود ہار مان لیتا ہے۔ کیا انہیں علم نہیں کہ یہ عمران خان کی مسلسل تقریروں کا نتیجہ ہے کہ آج اربوں کی کرپشن کرنے والوں کے بینک اکاونٹ تو بھرے ہیں لیکن عزت کا اکاونٹ کب کا خالی ہوچکا۔ وہ لندن میں ہو ں یا میں کوئی بھی ایرا غیرا سرپھرا پاکستانی ان کی جا ن کو آجاتا ہے اور کہتا ہے نکالو میرے پیسے ۔ لندن فلیٹس کے باہر روز پاکستانی نوجوان کھڑے ہوکر اس پہ حق ملکیت جتاتے ہیں اور نواز شریف کا نازوں پلا بیٹا گندے انڈے پھینکنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ کیا کوئی شریف انسان یہ تصور کرسکتا ہے کہ وہ نماز پڑھ کر نکلے اور کوئی شریر لونڈا اس کے پیچھے لگ کر کہے کہ آپ ہیں کون نام تو بتادیں جبکہ آپ اپنے ملک کے مشہورو معروف اور مطلوب وزیر خزانہ رہے ہوں۔یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ چوروں لٹیروں اور قومی خزانے کو شیر مادر کی طرح ڈکارنے والوں کو عزت کے لالے پڑ گئے۔ وہ شرفا میں شمار نہیں ہوتے ۔ ان کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے انہیں ذلیل کیا جاتا ہے وہ گھروں سے نکلتے ہیں تو منہ چھپاکر اور داخل ہوتے ہیں تو چوروں کی طرح ادھر ادھر دیکھ کر۔ اور انتقام کیا ہوتا ہے۔ یہ وہی پاکستانی معاشرہ تھا جہاں رشوت لینے والے کو بیٹی نہیں دی جاتی تھی اور حرام کھانے والے کا معاشرتی مقاطعہ کیا جاتا تھا۔ عمران خان نے پاکستانی معاشرے کو اس کا جوہر لوٹا دیا ہے جو روایتی ذہن کو معیوب معلوم ہوتا ہے لیکن انقلابی ذہن اس پہ مسرور ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب ہر لحاظ سے ایک غیر روایتی اور متاثر کن خطاب تھا۔ یہاں نہ تکلفات تھے نہ گھسے پٹے بور کردینے والے فقرے۔ سیدھی سچی باتیں تھیں جو دل سے نکلیں اور دل میں اتر گئیں۔یہ وہی انداز تھا جس سے ان کے محبت کرنے والے واقف ہیں۔انہوں نے کسی استاد کی طرح اپنی قوم کو مخاطب کیا۔ مسائل سنائے ہی نہیں سمجھائے بھی ساتھ ہی حوصلہ بھی دیا کہ گھبرانا نہیں یہ سب ہم مل کر کریں گے۔انہوں نے ابتدا ہی خلافت راشدہ کے حوالوں سے کی۔ حکمرانوں کی سادگی اور کم اخراجات میں کار حکومت چلانے کے حوالے بھی وہیں سے دئیے حالانکہ برطانیہ سے سیاسیات میں فارغ التحصیل وزیراعظم پاکستان ، جنگ عظیم اول کے بعد جنگ کے اقتصادی بوجھ تلے دبے برطانیہ کے اخراجات کٹوتی بل گیڈس ایکس سے واقف نہ ہو،یہ ممکن نہیں لیکن اس کے پاس حوالہ تھا تو عمرؓ و علیؓ و بوبکرؓ و عثمانؓ کا تھا اور اس کا آئیڈیل مدینہ کی ریاست تھی۔جب خطاب ختم ہوا تو بولنے والے کی آنکھ بھی نم تھی اور سننے والوں کی بھی۔ لیڈر تو وہی ہے جو دلوں میں خواب بوتا ہی نہیں اس کی آبیاری بھی کرتا ہے ورنہ اقتدار کا کیا ہے وہ تو نظام سقہ کو بھی مل جاتا ہے پھر ملک پہ چرمی سکوں کا راج ہوتا ہے۔