9 اگست 2019 ء کو تھانہ فیروز آباد ایسٹ کراچی کے علاقے میں رحیم یارخان کے علاقے رکن پور سے تعلق رکھنے والے غلام یٰسین کی بیٹی کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا اور اسے خودکشی کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی گئی ۔جس کی ایف آئی آر نمبر 466 بجرم 302/34 واقعے کے 14 دن بعد 23 اگست 2019 ء کو تھانہ فیروز آباد ایسٹ کراچی میں درج کی گئی مگر ملزمان آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں ۔ مقتولہ کے ورثاء انصاف کیلئے دربدر ہو کر دھکے کھا رہے ہیں ۔ مقتولہ کے علاقے رکن پور کے نوجوان صحافی ملک آصف خالد نے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ایس ایم ایس کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ ہمارے علاقے کی تیرہ سالہ دوشیزہ فضہ سولنگی کو زیادتی کے بعد بیدردی سے قتل کر دیا گیا ، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ‘ میری درخواست ہے کہ آپ ملزمان کی گرفتاری کیلئے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سے بات کریں۔ اس کے جواب میں سید یوسف رضا گیلانی نے لکھا کہ ’’h Sure! I will talk to CM Sind ‘‘ ۔ سوال یہ ہے کہ گیلانی صاحب کب بات کریں گے ؟ مقتولہ کے ورثاء کی طرف سے یہی درخواست وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار سے بھی کی گئی کہ لواحقین مخدوم خسرو بختیار کے حلقے کے ووٹر ہیں ، مخدوم خسرو بختیار کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔ گزشتہ روز مخدوم خسرو بختیار اپنے حلقے میں تشریف لائے ‘ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے حلقے کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا ، وہ میانوالی قریشیاں کے ساتھ ساتھ ظاہر پیر، آباد پور بھی گئے مگر ان کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ کم از کم تعزیت کیلئے ہی چلے جاتے ۔ ایک واقعہ سرائیکی کی دوشیزہ کا ہے اور ایک واقعہ سندھ کی دوشیزہ ڈاکٹر نمرتا چندانی کا ہے۔ فضہ سولنگی کے واقعے کو بھی خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور ڈاکٹر نمرتا چندانی کے لواحقین کا بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر نمرتا چندانی کو قتل کر کے اسے خودکشی کا رنگ دیا گیا۔ وہاں صورتحال یہ ہے کہ سندھ کی صوبائی کابینہ کے وزراء ، ایم پی اے اور ایم این ایز روزانہ ڈاکٹر نمرتا چندانی کے لواحقین سے تعزیت کر رہے ہیں ، ڈاکٹر نمرتا چندانی غیرمسلم تھی مگر یہ دیکھئے کہ مذہبی جماعتیں بھی ان کے غم میں نہ صرف شریک ہوئیں بلکہ مجلس نفاذ فقہ جعفریہ نے ڈاکٹر نمرتا چندانی کے حق میں جلوس نکالا اور جمعیت العلماء اسلام کے رہنما راشد سومرو جو سینیٹر خالد محمود سومرو کے بیٹے ہیں نے ڈاکٹر نمرتا چندانی کے گھر جا کر تعزیت کی بلکہ وہ اس مندر میں بھی گئے جہاں توڑ پھوڑ کی گئی ۔ دوسری طرف سرائیکی وسیب کی حالت یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اور ارکان اسمبلی اتنے بے حس ہیں کہ اپنے منہ سے تعزیت کے دو لفظ بولنے کیلئے بھی تیار نہیں ، لیکن بے شرمی کی بات یہ ہے کہ جب ووٹ لینے کا وقت ہوتا ہے تو یہ نہ دن دیکھتے ہیں اور نہ ہی رات ، یہ ووٹ کیلئے سب سے بڑے بھکاری بنے ہوئے ہوتے ہیں ۔ لواحقین کے صدمے کے بارے میں میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ بچی کے قتل کی وجہ سے والد اور دوسرے لواحقین کی کیفیت ناقابل بیان ہے ۔ والدین صدمے سے اچھے طریقے سے بات بھی نہیں کر سکتے ، زبان لڑکھڑاتی ہے ، وہ رونا چاہتے ہیں مگر رو بھی نہیں سکتے کہ آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے ہیں ۔ یہی کیفیت دوسرے لواحقین کی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ ضیا الحق دور میں ایک مہاجر بیٹی بشریٰ زیدی کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو پورا کراچی بلا ک کر دیا گیا تھا ۔ یہ واقعہ اس سے زیادہ مہلک ہے کہ یہ روڈ ایکسیڈنٹ نہیں بلکہ تیرہ سال کی ایک دوشیزہ کو زیادتی کرنے کی کوشش میں قتل کر دیا گیا مگر ایم کیو ایم بھی خاموش ہے اور بختاور بھٹو زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی جو کہ صوبے میں بر سر اقتدار بھی ہے ، اس مسئلے کا ایکشن نہیں لے رہی ۔ تحریک انصاف جو کہ انصاف کے نام پر بر سر اقتدار آئی کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان بھی اس مسئلے پر خاموش نظر آتے ہیں ۔ ایک ذمہ داری وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی بھی بنتی ہے ۔ مقتولہ کا تعلق وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیر مخدوم ہاشم جواں بخت کے حلقے سے ہے ، ان دونوں کو بھی وزارتی کاموں سے ’’ فرصت ‘‘ نہیں ، انہوں نے ابھی تک مقتولہ کے لواحقین سے نہ تعزیت کی اور نہ ہی ان کی دلجوئی کی ۔ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ کراچی میں نقیب اللہ محسود کو جب ماورائے عدالت قتل کیا گیا تو اس پر پورے ملک میں احتجاج ہوا ، خصوصاً خیبرپختونخواہ کے بعد سب سے بڑے احتجاجی کیمپ کراچی میں لگائے گئے ۔ احتجاجی کیمپوں میں جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق ، جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ، اے این پی کی جملہ قیادت کے ساتھ ساتھ خود موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی پہنچے تھے اور نقیب اللہ محسود کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک نقیب اللہ محسود کو قتل کرنے والے گرفتار نہیں ہونگے ‘ تو میری ان تمام زعماء سے اتنی گزارش ہے کہ جس طرح نقیب اللہ محسود کسی کا بیٹا تھا یا جس طرح بشریٰ زیدی کسی کی بیٹی تھی تو فضہ یٰسین بھی کسی کی ماں جائی ہے ، وسیب کو ماسوا انصاف کے کچھ نہیں چاہئے ۔ لواحقین کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم سید احمد محمود کو بھی ایس ایم ایس کے ذریعے درخواستیں بھیجی گئیں جس میں لکھا گیا کہ مخدوم صاحب رکن پور کے نواحقی علاقے حبیب کوٹ کی رہائشی تیرہ سالہ فضہ سولنگی جو کراچی کے شیخ کے پاس گھریلو ملازمہ تھی ‘ اس کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ، ملزمان با اثر ہیں ، ہماری مدد کریں اور حکومت سندھ کو نوٹس لینے کے بارے میں کہیں ۔ جس کے جواب میں مخدوم احمد محمود نے لکھا… ’’ Okay I will take notice‘‘ مگر کئی دن گزر جانے کے باوجود کوئی اثر نہیں ہوا۔ پچھلے دنوں رکن پور میں سرائیکی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین راشد عزیز بھٹہ نے احتجاجی جلوس نکالا اور مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے اور انہیں سر عام سزا دیکر انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں ۔ مگر افسوس کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی خاموش ہیں ‘ حکومت بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی ‘ سرائیکی وسیب کے مظلوموں کو بتایا جائے کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں؟