آئی پیڈ، ایک مختصر سکرین، ایک عجیب و غریب دریافت ہے۔ بیک وقت ایک لعنت بھی اور نعمت بھی…آئی پیڈ نے لوگوں کو ایک دوسرے سے بیگانہ کر دیا ہے۔ انسانی اور معاشرتی سطح پر جو مسائل جنم لیتے ہیں ہم ان کے بارے میں دوسروں سے تبادلہ خیال کرنے کی بجائے اپنے اپنے آئی پیڈ پر جھکے فلمیں، سیریل، ڈاکومینٹریز اور گیمز وغیرہ کھیلنے میں غرق رہتے ہیں۔ آس پاس کی کچھ خبر نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ آئی پیڈ کی سکرین سے آنکھیں جڑ چکی ہیں۔ بچے کہیں بھی جا رہے ہوں۔ اپنا آئی پیڈ نہیں بھولتے، وہ بھی اپنے ماں باپ کی رفاقت سے بیگانے ہوتے جاتے ہیں لیکن یہ آئی پیڈ بے شک ایک لعنت سہی، مریضوں، بیکاروں اور مجھ ایسے بوڑھوں کے لیے ایک نعمت ہے۔ جب دوسرے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول آپ کو زیادہ وقت نہیں دے سکتے، یہ آپ کا دوست ہو جاتا ہے، آپ کو مصروف رکھتا ہے۔ ایک رفیق ہو جاتا ہے۔ میرے بیٹے سلجوق نے پچھلے برس ایک آئی پیڈ مجھے تحفے میں دیا اور اب مجھ سے شکایت کرتا ہے کہ ابو آپ تو ہم کو بھولتے جاتے ہیں۔ ہمہ وقت اس پر فلمیں اور سیریل دیکھتے رہتے ہیں۔ دیگر جدید دریافتوں کی مانند آئی پیڈ کے بھی منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب مجھے آئی پیڈ تحفے میں ملا تو مجھے کچھ پتہ نہ تھا کہ میں نے اس پر کیا ایسا دیکھنا ہے جو میرے وقت کا زیاں نہ ہو۔ تب عثمان پیرزادہ سے بات کی تو وہ کہنے لگا تارڑ صاحب اپنی پہلی فرصت میں ترک ٹیلی ویژن سیریل ’’ریزرکشن‘‘ کے صرف پونے دو سے ایپی سوڈ دیکھ لیجئے۔ پونے دو سو ایپی سوڈ میں نے حیران ہو کر کہا، میرے پاس اتنا وقت نہیں۔ پیرو بابا، عثمان کہنے لگا آپ دیکھئے تو سہی پھر پتہ چلے گا کہ یہ عثمان کہاں سے آیا جس نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی تھی اور وہ درست کہتا تھا میں اگلے کچھ ماہ کے لیے اس ترک سیریل میں بندھ گیا۔ میں نے ایسی شاندار پروڈکشن اور اداکاری پہلے کہاں دیکھی تھی۔ یہ ان زمانوں کی داستان ہے جب ترک قوم مختلف خانہ بدوش قبیلوں میں بکھری ہوئی سنٹرل ایشیا کی وسیع چراگاہوں میں نقل مکانی کرتی رہتی تھی۔ غالیچے بنتی تھی، بھیڑیں اور مویشی پالتی تھی اور ایک آزاد زندگی بسر کرتی تھی۔ شام اور بازنکائن کی سلطنتیں ان جنگجو اور غیرت مند قبائل کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی تھیں۔ مسلمان حکمران کے علاوہ عیسائی ریاستیں بھی ان کی دشمن تھیں۔ ان میں سے ایک قبیلہ کے سردار کے ہاں اس کا تیسرا بیٹا عثمان پیدا ہوتا ہے جس نے سلطنت عثمانہ کی بنیاد رکھی۔ اس سیریل میں ابن العربی بھی ایک عظیم مومن کے طور پر نظر آتے ہیں۔ ’’ریزرکشن‘‘ کے بعد ایک اور ترک سیریل ’’سیت اور سُورا‘‘ میری شدید دلچسپی کا باعث بنا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ 1918 ء سے پیشتر کریمیا میں مختلف ترک خاندان صدیوں سے آباد تھے ۔ ترک زارِ روس کے حفاظتی دستوں میں فوجی افسروں کے طور پر خدمات سرانجام دیتے تھے اور رُوسی زار ان پر بے پناہ اعتماد کرتا تھا۔ ان میں ایک نہایت ڈیشنگ ترک فوجی افسرسیّت نام کا شاہی خاندان کی ایک سنہری بالوں والی لڑکی سُورا کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس سیریل کی پروڈکشن بھی نہایت شاندار اور شاہانہ ہے۔ اکتوبر انقلاب کے بعد زار کے شاہی خاندان کے علاوہ ترک فوجی افسر بھی زیر عتاب آ جاتے ہیں اور انہیں کریمیا میں اپنے آبائی گھر او زمین چھوڑ کر مجبوراً استنبول منتقل ہونا پڑتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں یہ دو سیریل نہ دیکھتا تو ترک تاریخ اور ترک مزاج سے مکمل طور پر آشنا نہ ہو سکتا۔ پچھلے چند برس سے ایک برطانوی امریکی ٹیلی ویژن سیریل ’’گیم آف تھرونز‘‘ یعنی ’’تخت و تاج کے کھیل‘‘ کی بہت ہی دھوم تھی۔ بلکہ ایک ماہ پیشتر جب اس سیریل کی آخری قسط آن ایئرگئی تو پوری دنیا میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ اس سیریل کی مثال ملنا مشکل تھا۔ چونکہ یہ سیریل پاکستان میں میسر نہ تھی اس لئے امریکہ آنے سے پیشتر میں نے اپنے نواسے نوفل کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ اسے میرے لئے آئی پیٹڈ پر منتقل کر دے۔ میں نے ’’گیم آف تھرونز‘‘ کو مسلسل دن رات دیکھا کہ یہ اس طرح اپنے آپ کو وقف کر کے دیکھنے کے لائق تھا۔ اس سیریل کی بنیادی تھیم کو پنجابی کا ایک مصرع تخت نہ ملدے منگیاں۔ بخوبی بیان کرتا ہے یعنی تخت مانگنے سے کبھی نہیں ملتے۔ تخت چھینے جاتے ہیں۔ قتل و غارت سے‘ سازشوں اور بے وفائی سے اور دروغ گوئی سے۔ ایک ترک سلطان نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے درجنوں بھائیوں کو گلے میں ریشمی پھندے ڈال کر مروا دیا تھا اور پھر ان کا سوگ بھی منایا تھا کہ بھائیوں کی موت کا دکھ تو ہوتا ہے۔ بغداد کے تخت کے لئے کیسی کیسی قتل و غارت ہوئی۔ یورپ کی تاریخ میں بھی’’گیم آف تھرونز‘‘ کا راج رہا۔ ہمارے ہاں اورنگزیب صرف اس لئے بدنام ہوا کہ وہ ایک ٹوپیاں سی کر گزارہ کرنے والا عبادت گزار بادشاہ تھا ورنہ بھائیوں کو قتل کروانا تو معمول کا دفاعی عمل تھا۔ کسی ایک پر رحم کھا کر چھوڑ دیجیے تو وہ کہیں سے مدد حاصل کر کے دارلسلطنت پر چڑھ دوڑتا تھا۔ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ داراشکوہ اصل وراثت تھا۔ اگر وہ تخت پر متمکن ہوتا تو شائد مغل سلطنت سو ڈیڑھ سو برس مزید قائم رہتی۔’’گیم آف تھرونز‘‘ میں ایک فینٹسی تخلیق کی گئی ہے۔ نامعلوم زمانوں میں جانے کہاں تین چار عجیب سے ناموں والی ریاستی ہیں۔ ان میں سے ایک نے اپنے دفاع کے لئے ایک بہت عظیم الشان برف کی دیوار تعمیر کر رکھی ہے جسے عبور کرنا ناممکن ہے۔ ایک اور نہائت شائستہ اور بڑے شہر والی ریاست جس کا طرز تعمیر بہت عظیم ہے اس کے تخت کا نام ’’تھرون اور آئرن‘‘ ہے۔ ایک نوجوان اور بیوقوف شہزادہ بادشاہ بن کر اپنے قریبی ساتھیوں کو مسلسل قتل کرواتا ہے یہاں تک کہ اپنی ملکہ کے باپ کا بھی سر اڑا دیتا ہے لیکن ملکہ اُف نہیںکرتی۔ باپ کی قربانی تخت کے لئے بہت معمولی ہے۔ ایک اعلیٰ نسب کی سنہری بالوں والی شہزادی کو اس کا بھائی ایک نیم وحشی قبیلے کے سردار سے بیاہ دیتا ہے تاکہ اس کی مدد سے حاصل کر کے وہ تخت پر براجمان ہو جائے اور کہتا ہے کہ تخت حاصل کرنے کے لئے میں اپنی سو بہنیں وحشیوں کو سپرد کر دوں۔ قبیلے کا سردار مر جاتا ہے اور اس کی چتا میں سنہری بالوں والی شہزادی کو بھی ڈال دیا جاتا ہے لیکن آگ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی اور اس کے کاندھوں پر آگ اگلنے والے ڈریگن کے بچے بیٹھے ہیں اور وہ اپنے آپ کو ’’ڈریگنز کی ماں‘‘ ڈیکلیئر کر دیتی ہے۔ جب یہ عفریت بڑے ہوتے ہیں تو وہ ان پر سواری کر کے دوسری ریاستوں پر حملہ کر دیتی ہے اور ڈریگنز کے منہ سے نکلنے والی آگ دشمنوں کو بھسم کر دیتی ہے۔ وہ جہاں جاتی ہے غلاموں کو آزاد کر دیتی ہے۔ اُدھر نوجوان اور بیوقوف بادشاہ کو زہر دے دیا جاتا ہے اور اس کی ماں تخت پر بیٹھ جاتی ہے اس دوران مذہبی بنیاد پرستوں کا ایک گروہ جنم لیتا ہے جو بے حیائی اور گناہ کے خلاف تحریک چلاتا ہے جس کے نتیجے میں ملکہ کو برہنہ کر کے شہر کے بازاروں میں گھمایا جاتا ہے جب کہ ایک راہبہ ’’شرم‘‘ ’’شرم‘‘ پکارتی جاتی ہے اور لوگ ملکہ پر تھوکتے ہیں۔ غلاظت پھینکتے ہیں۔ پتھر مارتے ہیں یہ ایک عجیب خوفناک منظر ہے جسے دیکھ کر ملکہ پر ترس آنے لگتا ہے۔ آخر میں ڈریگن کی ماں اس شہر پر حملہ کر دیتی ہے اور اس کے آگ اگلتے عفریت اسے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔ ’’گیم آف تھرونز‘‘ دیکھتے ہوئے میں ایک عجیب احساس جرم میں گرفتار رہا۔ ایک بے چینی میں مبتلا رہا کہ ان دنوں پاکستان میں بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ گندگی ‘ غلاظت اور جھوٹ کا۔ آغاز بے نظیر اور بیگم بھٹو کی نازیبا تصاویر سے ہوا۔ نون لیگ نے بسم اللہ کی اور توپوں کے دہانے کھل گئے۔ رانا ثناء اللہ ‘ عابد شیر علی وغیرہ اور پھر تحریک انصاف نے بھی یہی گالم گلوچ اپنا لی۔ نون لیگ کا تخت چھینا گیا تھا اور تحریک انصاف اس تخت کو اپنا حق سمجھتی تھی۔ فواد چودھری اور شیخ رشید نے خوب جوہر دکھائے۔ جہاں عمران کے بچوں کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا گیا وہاں بلاول کی مردانگی کو نشانہ بنایا گیا۔ مریم اب تو گوشے میں قفس کے آرام سے ہیںفریقین نے تمام حدیں پار کر لی ہیں تو اب کہاں جائیں گے۔ سب کے سب ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گر سکتے ہیں اور اپنے ساتھ اس ریاست کو بھی رسوا کر سکتے ہیں۔ عمران خان کرپشن کے ڈریگن پر سوار ہیں جو مخالفوں پر آگ برسا رہا ہے۔ لیکن ان ڈریگنوں کا کیا پتہ‘ یہ کب منہ موڑ کر اپنے مالک پر آگ اُگل دیں۔ اس ’’گیم آف تھرونز‘‘ کا خاتمہ ہونا چاہیے ورنہ اس کی زد میں آ کر ریاست بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔