سکوں نہیں ہے میسر مجھے وطن میں کہیں دہک رہی ہے کوئی آگ سی بدن میں کہیں مجھے ہے حکم اذاں اور اس پر قدغن بھی خدا کا نام نہ آئے مرے سخن میں کہیں اخبار پڑھیں تو پڑھا نہیں جاتا عوام کو ذبح کرنے کا کوئی نہ کوئی نیا بندوست ہوتا ہے ہماری تمام تر سرگرمیوں کا مقصد آئی ایم ایف کو خوش کرنا ہے اس چکر میں حکمرانوں کے چہرے سرخ اور عوام کے زرد ہیں میں جانتا ہوں کہ جان لیوا ہے گھٹن اب کے میں جی رہا ہوں مگر سعد اس گھٹن میں ،کہیں شرح سود میں تین فیصد اضافہ جس کا مطلب یہ کہ یہ وہ رسی جو عوام کے گلے میں ڈالی گئی تھی اس کو تین بل اور دے دیے گئے ہیں ڈار سے کے ریڈار میں اب کچھ نہیں آ رہا پہلے معاشرت تباہ ہوئی اور اب معیشت بھی ڈار صاحب تو ڈالر کو دو صد پر لانے کے لئے آئے تھے اور ڈالر کسی کے ہاتھ میں بھی نہیں آ رہا۔ بالکل بے لگام آئی ایم ایف کی شرط پوری مگر حق مہر ابھی کم ہے۔ بڑے بڑے وعدے اور عہد کئے گئے کہ یہ کم کر دیں گے اور وہ کم کر دیں گے اعلانات بہت سہانے ہیں حکومت میں کسی بھی عہدے کے بغیر پروٹوکول سب کے سینے پر مونگ دل رہا ہے عدیم ہاشمی نے کہا تھا: غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر بچے بازار جائیں تو ہزار روپے ایسے ہی مانگتے ہیں جیسے کبھی ایک سو روپ مانگا کرتے تھے۔ یقین نہیں آتا کہ سو روپے کا نوٹ دس روپے کے برابر چلا گیا ہے نئی رجیم کا یہ ثمر ملا ہے کہ پھلوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتے میں نے کینو کا ریٹ پوچھا تو جواب ملا آپ کے لئے 500روپے کے درجن خربوزے پر اکتفا کیا کہ وہ 200صد روپے مل گئے ۔کیلے اڑھائی سو روپے ہاں ایک دودھ ہے جو دھڑا دھڑ بک رہا ہے کہ دو گڑوی کے ساتھ ایک گڑوی فری ہے وہ دو گڑویاں بھی مفت میں دے سکتے ہیں کہ کیمیکل کا کمال ہے بھینس کا تو اس دودھ میں عمل دخل ہی نہیں دوائیاں بے اثر یہ مستند بات ہے چلیے پھر بھی اچھا ہے کہ کوئی مضر شے کیپسول میں نہیں سب اپنے اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں حرام حلال تو دقیانوسی باتیں ہیں ہر شعبہ ایسے لوگوں سے بھرا ہوا جب حفاظت کرنے والے بھی حفاظت کے بہانے جیبیں خالی کریں تو باقی کیا بچتا ہے۔لکھنا کیا تھا اور لکھا گیا کچھ اور یہ پریشان خاطری اسی عہد کی دین ہے۔ خیالات مجتمع نہیں ہو رہے صرف احتجاج کا کچھ فائدہ اور نہ حرف ملامت ان پراثر انداز ہوتا ہے یہ سب چکنے گھڑے ہیں یا آپ انہیں رولنگ سٹون کہہ لیں ریت پر گھی ڈالنے کا کچھ فائدہ نہیں آواز بلند کرنے والے اپنی تسلی کر رہے ہیں مگر ان کا حال لاتوں کے بھوت والا ہے باتوں والا نہیں عابد حسین عابد کے عوامی اشعار دیکھیے ان آگ کے شعلوں کو بجھانا تو پڑے گا مرتے ہوئے لوگوں کو بچانا تو پڑے گا گھر بیٹھ کے ظالم کی مزمت نہیں کافی سڑکوں پر مرے یار اب آنا تو پڑے گا یہ اس عہد کی آواز ہے مگر عابد کو نہیں معلوم کہ یہ لوگ بہت بے حس ہیں یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا۔ اب جو طرح طرح کی بحث ہو رہی تھی کیا فائدہ آپ ہمارے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں جو عمران خاں نے بویا تھا تو اسے کاٹنے دیتے آپ نے آگے بڑھ کر ذمہ داری کیوں قبول کی اگر آپ نے آئین کی رو سے عدم اعتماد کیا تھا تو اسمبلیوں کا توڑ کر 90دن کے اندر انتخاب بھی تو آئین کے حساب سے ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خاں کا ناقد ہوں مگر جو بات سچ ہے وہ میرے قلم پر واجب ہے آپ نے سیاست کو لال رومال کا کھیل بنایا اب کوئی آپے سے باہر ہے تو آپ ڈرتے کیوں ہو۔ بہرحال تماشہ دیکھنے والے تماشہ دیکھ رہے ہیں ہائے ہائے فراز نے کہا تھا آواز دے کہ چھپ گئی ہر بار زندگی ایسے ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے سب یہی کچھ کرتے رہے اپنی باری لیتے رہے اب معاملہ ذرا گھمبیر ہو گیا ہے اور مجھے منیر نیازی کا چہرہ یاد آ رہا ہے کہ وہ کس بانکپن سے سناتے تھے؎ یہ حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا اب شرمانے والے اس کے سوا کیا کر سکتے ہیں اک تماشہ لگا ہوا ہے۔تقریریں جاری ہیں توہین عدالت کا نوٹس ہو چکا مگر اب یہ نوٹس ستارے ٹانک دیتے ہیں۔ مہنگائی میں 75سالہ دور کا ریکارڈ ٹوٹ چکا پیسے کی بے وقعتی کہ روپیہ آدھے سے بھی زیادہ کم ہو چکا مہنگائی کے اشاریے بلند اور چیزیں ڈبل قیمت یعنی ڈبل اب کر چکی ہیں ایک اور بات نہایت دلچسپ ہے کہ سب ایک ہی بات کہتے ہیں کہ وہ اداروں کا احترام کرتے ہیں یعنی سب کو یہ یقین کروانا پڑتا ہے یہ ان کا گلٹ بولتا ہے اداروں کو زیادہ معلوم ہے کہ ان کا کتنا احترام کیا جا رہا ہے ویسے ادارے خود بھی تو اپنا احترام نہیں کرتے جو خود اپنا احترام کرتا ہو دنیا کی کوئی طاقت اسے بے عزت نہیں کر سکتی: کیا بتائوں کہ بندگی کیا ہے میں نے خود اپنا احترام کیا برطانوی وزیر نے تو مسئلہ حل کر دیا کہ ٹماٹر اور کھیرا نہیں ملتا تو شلجم کھائیں مگر یہ نہیں بتایا کہ اگر شلجم بھی نہ ہو تو پھر کیا کھائیں یہاں تو کھانے کوقسم نہیں سوجھتی اب نئے لیڈر سامنے آئیں گے فرح گوگی نے ایف آئی اے کا دائرہ کار اختیار چیلنج کر دیا ہے اینٹی کرپشن پہلے ہی تحقیق کر چکا ہے سب بے مقصد کارروائی اور سرگرمی ہے۔کرپشن تو کسی کی بھی نہیں پکڑی گئی۔ شہباز شریف کا دھیلہ بھی نہیں ثابت ہوا چلیے آخر میں ہم اپنے پیارے محترم دوست کا ایک شعر لکھ دیتے ہیں خوشی ہوئی ہے کہ میرے سینئر میرا کالم پڑھ کر کبھی کبھی کچھ تحفہ کرتے ہیں محترم کنور راجہ نے اپنا ایک شعر بھیجا: چھت پر میری حالت دیکھنے والی تھی اس نے پائوں رکھا تھا پہلے زینے پر