کب کہاں ہے کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر مجھ سے اشکوں کی نہیں بات کرو دریا کی میں تو اک دشت ہوں آ جائوں اگر پینے پر آج میرا دل چاہا کہ آپ سے سخن کی راہ پر چلوں کچھ خیالات گوش گزار کروں بام شہرت پہ مجھے دیکھ کے حیران نہ ہو۔ پائوں رکھا ہی نہیں میں نے ابھی زینے پر۔ وہ میرا نام بھی لیتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے گل کاری کرے ہے کوئی پیمانے پر۔ سعد یہ کار سخن کس کو بتائوں کیا ہے ایک مزدور کی صورت ہوں میں روزینے پر۔ بہت ہی سینئر اینکر جو کہ ہمارے دوست ہی نہیں کرکٹ میں اوپننگ بھی کرتے رہے ہیں کہنے لگے وہ نہایت راز کی بات بتائیں گے کہ پرویز الٰہی کو پی ٹی آئی میں کس نے انسٹال کیا اگر آپ نام جاننا چاہیں تو وہ محترم وارث میر کے فرزند ہیں میں اس بات پر دیر تک ہنستا رہا کہ یہ کیا دعویٰ ہے کہ اور کیا راز ہے ہم انگریزی میں تو اسے اوپن سیکریٹ کہتے ہیں سخن کی زبان میں اگر میں سمجھائوں تو میرے لئے زیادہ آسان ہو گا: راز کی کچھ حقیقت نہیں ہے فقط اک تمنا کہ اب وہ جو خود ہم بتانا نہیں چاہتے راز داں کھول دے اب تو بڑوں کو بھی معلوم نہیں کہ ایک لے مین یعنی تھڑے پر بیٹھنے والے شخص کا شعور کتنا بیدار ہو چکا ہے ۔گستاخی کی معافی چاہتا ہوں اللہ تو بے نیاز ہے اور یہ اس وقت پتہ چلتا ہے جب سپید و سیاہ کے مالک بننے والے ذلت سے دوچار ہوتے ہیں وہ جو مقدس پیشے کے ساتھ ہاتھ کرتے ہیں اور منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے یہ تو کھل چکا کہ ڈکیٹ اور چور صرف عوام ہی میں نہیں ہوتے۔ خیر میں بات کر رہا تھا کہ سیاست میں وہ اپنا کورنگ کینڈی ڈپٹ بھی رکھتے ہیں جو بظاہر سہارا بن کر آیا ہوتا ہے انسٹال ہونے والا ایک تھریٹ بھی ہوتا ہے کہ اصل ملازم کا دماغ خراب ہونے لگے تو اسے کچوکا لگا سکے۔ میں ایسے بات کرتا ہوں کہ تو جھوٹا نہیں لگتا دوسری طرف ایک محترمہ ہیں کہ مستند دروغ گو۔ مجھے منیر نیازی کی ایک بات یاد آ جاتی ہے نیازی صاحب نے سردار جعفری کو انگریزی میں تقریر کرتے سنا تو کہا کہ یہ اتنی روانی سے انگریزی بولتا ہے جتنی روانی سے فلا خاتون جھوٹ بولتی ہے۔ نام میں نے اس لئے نہیں لکھا کہ کشور ناہید محسوس نہ کر جائے ہو سکتا ہے خوش بھی ہو جائے خیر اس پر شہزاد احمد بھی یاد آئے ۔ یہ سمجھ کہ مانا ہے سج تمہاری باتوں کو اتنے خوبصورت ہونٹ جھوٹ کیسے بولیں گے تاہم 92نیوز کی شہ سرخی نے متوجہ ضرور کیا کہ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ملکی ترقی کے لئے تعلیم کا فروغ ضروری ہے اس میں تو کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی اس بات سے لامحالہ مجھے تو جعلی ڈگریوں والے قومی ممبران یاد آئے ۔ جہاں تک تعلیم کے ثمرات کا تعلق ہے تو اب کلرک بنا بھی دشوار ہے تعلیم کا تذکرہ تو میڈیا کے کسی بھی چینل پر ممنوع ہے من حیث القوم سب معاش کے چکر میں ہیں تعلیم کو صرف کاروباری آدمی ہی افورڈ کر سکتا ہے مگر تعلیم اس کا مسئلہ ہی نہیں ذہین بچے بھی اب ذہن کو بیچنے کی طرف سوچتے ہیں میں اپنے بیٹے کی اس بات پر حیران رہ گیا کہ اسے شیف بننا ہے میں نے حیران ہو کر پوچھا تو رسان سے کہنے لگا کہ ہمارے والدین پرانی سوچ رکھتے ہیں شیف لاکھوں کماتا ہے یہ ہمارے عہد کی سوچ کا پر تو ہے اسی لئے برین ڈرین بھیہو رہا ہے۔ شہباز شریف صاحب کی دوسری بات اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے کہ شہری آبادیاں کنکریٹ کا جنگل بنتی جا رہی ہیں یقینا اس سے ہمارا دھیان جنگلہ بس کی طرف بھی گیا کہ جس نے بھری آبادوں کو دولخت کر کے رکھ دیا اور لمبے لمبے یوٹرن لوہے کا بے دریغ استعمال اور درختوں کا کٹنا اور پرندوں کا بے آشیاں ہونا۔ میں تو گلہریوں کو دیکھنے کا رسیا تھا اب کوئی گلہری کہیں نظر نہیں آتی۔ ہائے ہائے کلیجہ منہ کو آتا ہے ہر طرف بھیڑ‘ بمپر ٹو بمپر ٹریفک سانس گھٹتا ہے مگر کوئی جائے فرار نہیں ہائے احمد مشتاق یہ رستے رہرووں سے بھاگتے ہیں یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں کیا شک ہے کہ ہماری ہوائیں بھی آلودہ ہو چکی ہیں خاص طور پر ہمارا دل یعنی پاکستان کا دل لاہور تو یوں ہے کہ جیسے اس کے چاروں وال بند ہیں اور بائی پاس پر چل رہا ہے پوری دنیا میں سب سے زیادہ آلودہ شہر۔ بے ہنگم ٹریفک اور ہمارے رویے سب قابل دید ہیں یہ آلودگی صرف فضائوں اور ہوائوں میں نہیں سیاست معیشت اور ہر شعبے میں ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کہاں زندگی کی شام ہو جائے سب کچھ ایڈہاک پر چل رہا ہے جو ہمارے ملک کو برباد کرنے آئے تھے کامیاب نظر آ رہے ہیں کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ بے چینی رگ و پے میں پھیل چکی ہے یقینا کسی ایک نے اس برباد کی اساس رکھی اور پھر تازہ دم لوگوں کو لایا گیا کہ اب اس کو مکمل کرو یعنی کچھ باقی نہ رہے اب سب سے بڑی صلاحیت اور لیاقت یہی کہ اپنا اور بچوں کا کوئی پیٹ بھر سکے اور مزے کی بات یہ کہ مسئلہ صرف پیٹ کا بھی نہیں ان کی ضروریات موجود نظام نے بڑھا دی ہیں۔ ان کی ضرورت بجلی پیٹرول گیس اور پانی ہے اور اس کی وجہ انور مقصود کے جملے کو داد دوں گا کہ پاکستان نے نمک سے زیادہ نمک حرام پیدا کئے ہیں میں سجھتا ہوں کہ ہڈ حرام بھی پتہ نہیں کیا ۔ نوید صادق کے دو شعروں کے ساتھ اجازت: اپنی ہنسی اڑانا بڑا سخت کام ہے خوش ہوں کہ کوئی کام بڑا کر رہا ہوں میں قوس قزح کی طرح کبھی گرد کی مثال پامال راستوں کو نیا کر رہا ہوں میں ٭٭٭٭٭