جب عمران خان برسراقتدار آہی گئے ہیں تو ان پہ اسٹیبلشمنٹ کے آشیر باد سے آنے ، لائے جانے، مسلط کئے جانے وغیرہ جیسے طعنے دینے والوں کو اتنی عقل ہونی چاہئے کہ اب وہ مذکورہ طریقے سے لائے گئے ہیں تو جائیں گے ہی کیوں۔ وہ بھی محض چارماہ میں؟اسٹیبلشمنٹ دو سال کا وقت تو اپنے کٹر مخالفوں کو بھی دے دیتی ہے جو دو بار باری لے چکے۔یہ تو پھر ان کے بقول لاڈلے ہیں ۔پھر خوامخواہ کی بڑھکیں مارنے کا فائدہ۔ اس سے طرفین کو گریز کرنا چاہئے۔نہ سندھ پہ لشکر کشی کے عزائم نیک نامی میں اضافہ کریں گے نہ بلاول بھٹو کے خندہ آور بیانات کہ زرداری ایک اشارہ کریں تو حکومت گرائی جاسکتی ہے۔انہیں بھی پتہ ہے کہ والد صاحب ایسے اشاروں کے لائق رہ گئے ہوتے تو آج سندھ میں پیپلز پارٹی کا یہ حال نہ ہوتا۔اگر وہ اس لائق ہیں تو دیر کس بات کی ہے۔اشارے کیجیے اور اس لنگڑاتی حکومت کے نیچے سے چارپائی گھسیٹ لیجیے۔ہاں مگر کہتے تو ہیں کہ انہیں یہ نظام عزیز ہے۔ایسا نظام جس میں ان کی کرپشن کو کوئی خطرہ نہ ہو۔یہی نظام بچانے کے لئے تو دل پہ پتھر رکھ کر میثاق جمہوریت کیا تھا۔ اسی نظام کے صدقے این آر اوہوا۔ ایسی گنگا بہی جس میں ہر پاپی اشنان کر،پوتر ہوگیا۔ایک صدر بن گیا۔ دوسرا وزیراعظم۔بدعنوانی، کرپشن منی لانڈرنگ کے سارے مقدمات اس گنگا کی تہہ میں جا بیٹھے۔ اب یہ لاشیں پھول کر پانی پہ تیر رہی ہیں تو آٹھوین ترمیم کی دہائیاں دی جارہی ہیں۔وہ آٹھویں ترمیم جس میں مقدمات بھگت کر بگلا بھگت بننے والے صدر محترم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کئے۔اس تقریب سے جمہوریت افروز خطاب کرتے ہوئے جناب صدر آصف علی زرداری نے فرمایا تھا۔ امید ہے اب پاکستان میں آمریت کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے۔اس کے بعد جو دو حکومتیں آئیں،اللہ کی مرضی اور منشا سے آئیں۔زرداری صاحب کو اطمینان ہونا چاہئے کہ دنیا میں جب بھی کبھی آمریت آئی ہے آئین کا مطالعہ کرکے نہیں آئی کہ اس میں اس کی کتنی گنجائش نکلتی ہے۔ ہاں اٹھارویں ترمیم کے بعد دستاویزی طور پہ اس کا راستہ ضرور روک لیا گیا ہے اگر ایسا سمجھا جائے تو۔یعنی اگر آئین معطل کرنے والے کمانڈو کے خلاف آرٹیکل ۶ کے تحت غداری کا مقدمہ قائم کرکے اسے قرار واقعی سزا دی جاسکے تو۔اب جو ہوا سو ہوا لیکن صدر مشرف کے ایڈونچر کے بعد فوجی آمریت کچھ موڈ میں نہیں ہے ورنہ گزشتہ حکومت نے سنیگ پھنسانے کی کئی بار کوشش تو کی تھی۔جب اس طرف سے اطمینان ہوا کہ جمہوریت کو بدقسمتی سے کوئی خطرہ لاحق نہیں اور گزشتہ حکومت میں اپنے ہی دور حکومت میں نااہل وزیراعظم پیشیاں بھگتاتے رہے تو دل کے خوش رکھنے کو غالب ہی نہیں حکومت کے پاس بھی کوئی نہ کوئی خیال تو آنا ہی تھا۔ ایسے میں جانبدارانہ اور انتقامی احتساب سے اچھا نعرہ کیا ہوسکتا تھا سو جی جان سے لگایا گیا۔ کون کس سے انتقام لے رہا تھا اور کس بات کا یہ اصولی سوال کسی کو اس ہائو ہو میں نہ سوجھا۔پاناما کیس کوئی عمران خان نے تو کھولا نہیں تھا نہ ایف آئی اے کی منی لانڈرنگ تحقیقات ان کے دور میں شروع ہوئیں۔ نہ ہی یہ فوج کی کارستانی تھی جس نے ہر حال میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا حتی کہ ڈان لیکس پہ بھی مفاہمت کرلی تھی ۔ بدعنوانی اور کرپشن کی ہوش ربا داستانیں میڈیا اور اپوزیشن کے طفیل زبان زد عام ہوچکی تھیں۔ ایسے میں مناسب ترین حکمت عملی یہی تھی کہ جو آتا نظر آرہا تھا اس پہ اسٹیبلشمنٹ کا ٹھپہ لگا کر بچی کچھی عزت اور اثاثے بچانے کی کوشش کی جائے۔دیکھا جائے تو سب کچھ ٹھیک تو جارہا تھا۔ سندھ سے زیادہ پیپلز پارٹی نے چاہا بھی کیا ہوگا ۔ وہاں ان کی حکومت ہے ۔ اسے خطرہ صرف اس صورت میں لاحق ہے اگر زرداری اپنی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں ایسے حالات پیدا کردیں کہ گورنر راج لگایا جاسکے اور وہ اس کی اہلیت رکھتے ہیں اور ظاہر ہے اس لئے نہیں کہ وہ ہر دلعزیز قائد ہیں اور سندھ کے عوام ان کی نقلی بتیسی والی مسکراہٹ پہ جان دینے کو تیار ہیں۔ یہاں مجھے عزیر بلوچ کیوں یاد آرہا ہے اور مقتول رضا علی عابدی سے قتل سے کچھ دیر عرصہ قبل ان کی ملاقات بھی۔خیر چھوڑیے اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں گورنر راج لگانا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اس کی تجویز پہلے متعلقہ صوبے کی اسمبلی میں جائے گی وہاں سے منظور ہوئی تو دونوں ایوان میں جائے گی ۔اب وہ سندھ اسمبلی سے منظور ہی کیوں ہوگی جبکہ حکومت کی اتحادی جی ڈی اے نے بھی اس معاملے میں حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے۔ ایم کیو ایم بھی نہیں مان رہی ۔ اب خود فواد چودھری کہتے ہیں ایسا ممکن نہیں تو یہ شوشہ چھوڑا کس نے تھا؟اسے ڈھونڈنا اور پوچھنا چاہئے کہ اس بزرجمہر کو ان حالات کی خبر کس نے دی جن میں اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں گورنرراج لگ سکتا ہے۔کہیں وہ جی ڈی اے میں ہی نہ چھپا بیٹھا ہو اور عجلت میں ترپ کا پتہ نہ کھول بیٹھا ہو۔حکومت کا یہ مطالبہ بھی بے جا ہے کہ مراد علی شاہ کو استعفیٰ دینا چاہیے۔اگر شہباز شریف نیب کی پیشیاں بھگتنے کے باوجود پبلک اکاونٹس کمیٹی کے سربراہ بن سکتے ہیں بعد از خرابی بسیار سہی، تو مراد علی شاہ ایک جے آئی ٹی رپورٹ میں نام آنے پہ وزیر اعلیٰ کیوں نہیں رہ سکتے۔ ایسا ملک یا اخلاقیات کے کسی آئین میں لکھا ہوتا تو وزیر اعظم نوز شریف پاناما کیس میں نام آنے پہ استعفیٰ دیتے،نااہل ہوکر گھر نہ جاتے۔تو وہ بات کی ہی کیوں جائے جس پہ عمل ممکن نہیں۔خوش گمانی کی سرحد نہیں ہوتی۔ ممکن ہے چیف صاحب نے اس غصے کا اظہار ماحول کے تنائو کو کم کرنے کے لئے کیا ہو اور تنائو کم ہوگیا۔ حکومت منہ کی کھا کر واپس آئی اور فواد چوہدری کو کہنا پڑا کہ ای سی ایل میں شامل افراد کے ناموں پہ غور کیا جائے گا۔برسبیل تذکرہ مشتہر سابق وزیر خزانہ اور نواز شریف کے صاحب زدگان اسی کارن لندن میں محفوظ ومامون بیٹھے ہیں۔حکومت کو بہرحال ان اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے یہ تاثر ابھرے کہ وہ چاروں صوبوں میں مطلق العنان حکمرانی چاہتی ہے۔ عمران خان احتساب کا نعرہ لگا تے آئے اور اسی نام پہ ووٹ بھی لئے۔احتساب ہوتا ہے یا نہیں۔منی لانڈرنگ ، کرپشن اور بدعنوانی کی ہوش ربا داستانیں رقم کرنے والوں کے چہرے کون نہیں پہچانتا خواہ وہ کتنا ہی آٹھوین ترمیم کی چھتری تلے چھپنے کی کوشش کریں۔