ہمارے حکمران ہر بار دعویٰ کرتے ہیں کہ اب ہم کسی عالمی بنک یا آئی ایم ایف کے سامنے کشکول گدائی لے کر نہ جائیں گے‘ اپنی معیشت کو مضبوط کریں گے اور کسی کے آگے دست سوال نہ پھیلائیں گے مگر ہر بار ہوتا اس کے برعکس ہے۔ اب ہم پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دیتے دکھائی دے رہے ہیں : دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے اسد اللہ غالب نے اپنی معاشی ابتری اور بڑھتی ہوئی شراب نوشی کا نوحہ یوں سنایا تھا: قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن وظیفہ خواری کے باوجود غالب کی فاقہ مستی رنگ نہ لائی اور یہاں بھی اگر ہمارے حکمرانوں کی لوٹ مار اسی طرح جاری رہی تو عوام کی فاقہ مستی رنگ لاتی دکھائی نہیں دیتی۔ سابق حکمرانوں کی ’’دلیری‘‘ بلکہ دیدہ دلیری کی داد دیجیے کہ انہوں نے دن دہاڑے اپنے وطن کی دولت لوٹی اس لوٹی ہوئی دولت سے بیرون ملک جائیدادیں خریدیں، آف شور کمپنیاں بنائیں اور اربوں ڈالر کے بنک بیلنس بنائے۔ اس پر احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم اور ان کی مشیر و معاون صاحبزادی کو قید و جرمانے کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کی خبر ساری دنیا کے پریس میں ان کی اپنی رپورٹوں کے ساتھ شائع ہوئی اور شریف فیملی کو پاکستان کی قومی دولت لوٹنے کا مرتکب قرار دیا گیا اور ان کی مالی کرپشن کا تذکرہ کیا گیا۔ انگلستان کے ڈیلی میل جیسے ثقہ اخبار نے ان کی لندن کی جائیدادوں کی باتصویر تفصیل شائع کی۔ اب وہ سابق وزیر اعظم جن کی پالیسیوں کی بناء پر ان کا ملک اپنی بدترین معاشی صورت حال سے وقتی نجات کے لیے آئی ایم ایف کے دروازے پر سوالی بن کر کھڑا ہے اور وہ عالمی پریس رپورٹروں کے جلو میں لاہور گرفتاری دینے آ رہے ہیں۔ اس سارے شو کی منصوبہ بندی سینیٹر مشاہد حسین کے ذمے ہے۔ جی ہاں ! وہی مشاہد حسین جنہوں نے چند ہفتے قبل اپنی سیاسی وابستگی مسلم لیگ (ق) سے توڑ کر مسلم لیگ(ن) سے جوڑی ہے۔ میاں صاحب کے ہمراہ آنے والے صحافی اور میڈیا اینکرز ان سے یہ سوال تو ضرور پوچھیں گے کہ جناب‘ ذرا یہ وضاحت کیجیے کہ آپ اور آپ کے بچوں کی دولت بے حد و حساب ہو گئی ہے اور آپ کا ملک اتنا غریب کیوں ہے کہ اس کے پاس قرضوں کے سود کی قسط ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہیں اور وہ بیل آئوٹ پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے پرمجبور ہو گیا ہے۔ چلتے چلتے ایک جملہ معترضہ عرض کر دوں کہ اللہ ایسی ذہانت و فطانت سے انسان کو محفوظ رکھے جس کے ماتھے پر فار سیل کا بورڈ آویزاں ہو کہ جو چاہے آئے اور ان کی میڈیا مہارت کو خرید کر لے جائے۔ بہرحال میں عرض کر رہا تھا کہ یہاں تجزیہ کاروںسے لے کر سیاست دانوں تک کو ملک کی انتہائی ابتر معاشی صورت حال کا ادراک نہیں اور اس کی پروا بھی نہیں۔ عوام کی اکثریت مشکلات سے دوچار ہے اور چند سو خاندانوں کی دولت و ثروت میں بے بہا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ملکی دولت ناجائز ذرائع سے باہر جا رہی ہے ۔روپے کی قدر میں بے پناہ کمی آ گئی ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 125روپے تک جا پہنچی ہے۔ روپے کی قیمت کے گرنے سے باہر سے درآمد کی جانے والی ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، جس سے مہنگائی کا ایک طوفان آ جاتا ہے، ملک میں غربت کی شرح سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30فیصد مگر عملاً 50فیصد سے زیادہ ہے۔ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس دو وقت کی روکھی سوکھی کھانے کے وسائل بھی نہیں۔80فیصد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور پانی کا بحران اپنی جگہ ایک نہایت اہم معاملہ ہے جس کی ہمیں کوئی فکر نہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بھی حکمرانوں نے کوئی توجہ نہ دی اب لوگ کراچی میں پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور اسلام آباد میں بھی پانی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔40فیصد سے زیادہ آبادی خوراک کے معاملے میں خود کفیل نہیں، اڑھائی کروڑ بچے زیور تعلیم سے محروم ہیں اور عوام کے بڑے حصے کو صحت کی سہولتیں میسر نہیں۔ زراعت بھی کئی سال سے بحران کا شکار ہے۔ چندایکڑ والا کسان تو بدحالی کی زندگی گزار رہا ہے جبکہ ایک سے دو مربعے رکھنے والے سفید پوش زمیندار بھی پریشان حال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ آج پاکستان کی صرف برآمدات 20اور 22ارب کے قریب ہیں جبکہ ہماری درآمدات 50ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں اور تجارتی خسارہ 30ارب ڈالر کی حد کو چھو رہا ہے جو بہت بڑی خطرے کی گھنٹی ہے مگر نقار خانے میں اس گھنٹی کی آواز سننے کو کوئی تیار نہیں۔2008ء میں پاکستان 37ارب ڈالر کا مقروض تھا جو 2018ء میں 92ارب ڈالر کی حدوں کو پار کر گیا ہے۔ سٹیٹ بنک کے ماہرین کی تازہ ترین رپورٹ کی روشنی میں ہر سال تقریباً 15ارب ڈالر ملک سے سرکاری طور پر باہر بھیجے جا رہے ہیں اور تقریباً اتنی ہی رقم سالانہ ہنڈی کے ذریعے باہر جا رہی ہے۔ ان حالات میں تحریک انصاف نے جو منشور پیش کیا ہے وہ پاکستان کی اقتصادی و معاشرتی صورتحال کا آئینہ ہے۔ بعض تجزیہ نگار اس منشور کو خوابوں کا گورکھ دھندہ قرار دے رہے ہیں، بلا شبہ ہمارے خواب تو وہی پرانے ہیں، ہماری آرزوئیں اور تمنائیں بھی پرانی ہیں۔ ہمارے سیاست دان ان خوابوں کو ہی ایکسپلائٹ کرتے ہیں۔ مگر عمران خان نے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے جو وژن دیا ہے وہ نیا ہے۔بظاہر وہ وژن پروفیشنل ہے اور پی ٹی آئی نے ہوائی نہیں بلکہ اعداد و شمار کے ساتھ نپے تلے اہداف مقرر کیے ہیں۔عمران خان نے کسی اگر مگر کے بغیر وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست کے نقشے پر ایک فلاحی ریاست بنائیں گے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں آج سکینڈے نیویا کے سویڈن ناروے جیسے ممالک حضرت عمرؓ بن خطاب کے قوانین کا نام دے کر اپنا فلاحی نظام قائم کیے ہوئے ہیں اور امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں پر نہایت کامیابی سے خرچ کر رہے ہیں۔ یہ بہت مشکل کام دکھائی دیتا ہے، اسی طرح ملک کو قرضوں سے نجات دلانا، روپے کو اس کی قدرو قیمت واپس لانا کوئی آسان ٹاسک نہیں، مگر دنیا میں جان جوکھوں کا کام بھی تو انسان ہی کرتے ہیں۔ بیرون ملک کام کرنے والے 40لاکھ پاکستانی ہمارے لیے ایک بہت بڑی اقتصادی و پروفیشنل قوت ہیں۔ ہمیں ان کی دولت، ان کی مہارت اور سب سے بڑھ کر اپنے وطن کے لیے ان کی محبت سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وہ جن ترقی یافتہ ملکوں میں رہتے ہیں وہاں کی ترقی دیکھ کر سوچتے ہیں کہ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے پاکستان جیسے وسائل سے مالا مال خوبصورت ملک کا کیا حلیہ بنا رکھا ہے۔ وہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے بے چین ہیں۔ نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے، اس لیے جب عمران خان کہتا ہے کہ ہم پانچ سالوں میںایک کروڑ نوکریاں دیں گے، یہ کوئی انہونی بات نہیں، ہمیں معلوم نہیں کہ اس کے لیے عمران خان نے کتنا ہوم ورک اور کتنا ٹیم ورک کیا ہے۔ اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری اور مائیکرو سرمایہ کاری کے لیے سہولتیں فراہم کر کے اقتصادی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے اور ایک کروڑ لوگوں کو روزگار مہیا کیا جا سکتا ہے۔ بھر پور اقتصادی گہما گہمی کے لیے صرف دو چیزوں کی ضرورت ہے، ایک امن و امان اور دوسرے کرپشن فری انتظامی سہولتیں۔ یہ دو نعمتیں میسر ہوں گی اور آپ اوورسیز پاکستانیوں کو محفوظ ماحول فراہم کریں گے تو وہ اپنا سرمایہ لائیں گے اور طرح طرح کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کریں گے کہ آپ کے لیے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ ہر وقت منفی پہلوئوں کو اپنی سوچ کا محور بنانے والے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان کے اردگرد ایسے روایتی لوگ ہیں جن کی کرپشن کی کہانیاں عام ہیں۔ یہ خدشہ کسی حد تک درست بھی ہے مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا امریکہ اور یورپ میں سے حکومتی و نجی اداروں میں کام کرنے والے سارے لوگ فرشتے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں مگر زیادہ کرپشن اس لیے نہیں ہوتی کہ سسٹم میں اس کی گنجائش نہیں۔ اگر عمران خان صوبہ خیبر پختونخواہ میں ساٹھ ستر فیصد کامیابی کے دعویدار ہیں اور وہ سارے پاکستان کی اقتصادی و معاشرتی صورت حال کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے کا دعویٰ کر رہے ہیں تو ہمیں ان کے دعوے پر یقین کر لینا چاہیے ورنہ جہاں آج تک ہم نے اتنے دھوکے کھائے ہیں ایک دھوکہ اور سہی۔ بہرحال ابتر اقتصادی صورت حال ہی آنے والی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دیکھیے قوم کو آئی ایم ایف جیسے اداروں سے نجات کون دلاتا ہے۔