اگلے روز حکومت قومی اسمبلی میں ایک مالی بل پیش کرنے جارہی ہے جس کا مقصد عالمی مالیاتی فنڈز(آئی ایم ایف)کی شرائط پورا کرنے کی خاطرنئے ٹیکسوں کا نفاذہے۔ اسے مِنی بجٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے اُودھم مچایا جارہا ہے کہ وہ اس مسودۂ قانون کی سخت مخالفت کرے گی۔ مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ انکی جماعت اس بل کو پاس ہونے سے روکنے کی کوشش کرے گی۔ پیپلزپارٹی نئے مالی اقدامات پر کڑی تنقید کررہی ہے۔ آصف زرداری نے اپنی خراب صحت کے باوجودکراچی سے اسلام آباد جا کر چند روز گزارے ۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی مل کر منی بجٹ کی مخالفت میں ووٹ دینے کی تیاریاں کررہے ہیں ۔ اگر یہ بل اسمبلی سے منظور نہ ہوا تو پارلیمانی روایات کے مطابق اسے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ سمجھا جائے گا۔ تاہم پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن ) دونوںکے پاس مل کر بھی اِتنے ارکانِ قومی اسمبلی نہیں ہیں کہ وہ حکومت کو شکست دے سکیں۔ البتہ حکومتی اتحادمیں شامل اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اورمسلم لیگ(ق) اپوزیشن سے مل جائیں تو حکومت کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے ۔ خاص طور سے ایسی صورت میں جب حکومت کے اپنے بیس پچیس ارکان قومی اسمبلی سے غیر حاضر ہوجائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیںکمال منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدہ کو ہدف ِملامت بنارہی ہیں۔ حالانکہ ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی حکومتیں آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے قرض حاصل کرچکی ہیں۔انہوں نے عالمی ادارہ سے کم و بیش ایسی ہی شرائط پر سمجھوتہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا معاشی نظام اور حکومت کا مالیاتی نظام کئی دہائیوں سے قرض پر چل رہے ہیں۔ ہم بحیثیت ِقوم اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلا کر زندگی گزارتے آرہے ہیں۔ ہمارے ملک کی درآمدات ہمیشہ برآمدات سے بہت زیادہ ہوتی ہیں۔اس فرق کی وجہ سے زرِمبادلہ (امریکی ڈالرز) کی شدید قلت ہوجاتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کی غرض سے بیرونی ممالک اور مالی اداروں‘ بینکوں سے زرِمبادلہ حاصل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اگر ہم قرض کی صورت میں زرِ مبادلہ حاصل نہ کریں تو اربوں ڈالر کا پیٹرولیم اور صنعتوں کی مشینری بیرون ممالک سے منگوانے کے لیے ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟ پیٹرول‘ ڈیزل کے بغیر ملک کا گزارہ نہیں۔اب تو قدرتی گیس بھی باہر سے منگوانا پڑتی ہے۔ ملک میں طویل عرصہ تک زراعت کو نظر انداز کیا گیا اور آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہورہاہے۔ اس وجہ سے کھانے پینے کی ضروری چیزیں جیسے گندم‘ کھانے کا تیل ‘ دالیں ‘ چینی ‘ چائے باہر سے منگوانا پڑتی ہیں۔گندم اور چینی کی پیداوار ملک میں ہوتی ہے لیکن وہ اگر وافر مقدار میںدستیاب نہ ہوں تو بیوپاری ان کی مصنوعی قلت پیدا کرکے نرخ بڑھا دیتے ہیں۔ ہر طرف ہاہا کار مچ جاتی ہے اسلیے حکومت کو ان اشیا ء کا اضافی اسٹاک رکھنا پڑتا ہے۔ جس مَد میں حکومت کچھ بچت کرسکتی ہے وہ کاریں اور دیگر اشیائے تعیش ہیں جیسے چاکلیٹ‘کھانے پینے کی پیکٹ بند اشیا ‘ صابن‘ میک اپ کا سامان وغیرہ ۔ان کی درآمد پر خاصا زرِمبادلہ خرچ ہوتا ہے لیکن ہمارا امیر طبقہ اتنا بااثر ہے کہ حکومت کی مجال نہیں کہ ان اشیا ء کی درآمد روک سکے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آئی ایم ایف کے دروازہ پر دستک دی جاتی ہے۔ ہر پارٹی کی حکومت ایسا کرتی ہے لیکن جب وہ پارٹی اپوزیشن میں ہو تو عوام کو اُلّو بنانے کے لیے آئی ایم ایف کی مخالفت کرتی ہے۔ دہائیوں سے بیرونی قرض لینے کے باعث اب معاملہ صرف ہمارے تجارتی خسارہ کا نہیں رہا بلکہ بیرونی قرض کی واپسی بذات ِخود بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ماضی میںحکومتوں نے جو قرض لیے ان کی واپسی کے لیے ہر سال دس سے بارہ ارب ڈالر اصل زر اور سود کی مد میں واپس کرنا ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس تودرآمدت کے لیے پورا زرمبادلہ نہیں تو یہ قرض کہاں سے واپس کریں؟ یہ صورتحال اسوقت تھی جب دو ہزار اٹھارہ میں جب عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی۔ اگر بیرونی قرض کی قسط ادا نہ کی جاتی ملک باقاعدہ دیوالیہ قرار دے دیا جاتا۔ پاکستانی کرنسی کی قدرکئی سو فیصد گر جاتی۔عمران خان نے بھاگ دوڑ کرکے سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور چین سے سود پر قرض لیا اور پرانے قرض کی قسطیں ادا کی۔ اسے معیشت کی زبان میں قرض کا پھندا (ڈیٹ ٹریپ) کہاجاتا ہے یعنی آپکو پرانا قرض اُتارنے کے لیے نیا قرض لینا پڑتا ہے۔ پندرہ سولہ سال سے پاکستان اس ٹریپ میں پھنسا ہوا ہے۔ جب امریکہ ہم پر مہربا ن ہوتا ہے تو آئی ایم ایف سے نسبتاًآسان شرائط پر قرض دلوادیتا ہے اور خود بھی چند ارب ڈالر عطیہ کردیتا ہے۔ اس سے ہمارے حالات کچھ بہتر ہوجاتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف کے ادوار میں امریکہ کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت تھی ۔ اسلیے اس نے ہمیںعطیہ (گرانٹ) کی صورت میں ڈالرز دیے۔اس رقم سے ہم نے صنعت کاری نہیں کی بلکہ کھایا پیا موج اُڑائی۔ آجکل ہمارے امریکہ سے تعلقات خوشگوار نہیں اسلیے معاشی تنگدستی زیادہ ہوگئی ہے۔ پاکستان کے خوشحال طبقات اپنے الّلے تلّلے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ عوام پٹرول‘ گیس کی قلت برداشت کرنے پر راضی نہیں۔ ہمارے ملک کو ایک صارف معاشرہ کے طور پر پروان چڑھایا ہے۔ لوگوں کا زور خرچ کرنے اور چیزوں کے استعمال کرنے پر ہے۔ ہم پیداواری معاشرہ نہیں بن سکے۔یعنی ایک ایسا معاشرہ جس میں زرعی اور صنعتی پیداوار بہت وافر مقدار میںہو۔ اس فاضل پیداوار کو بیرون ملک برآمد کرکے ہم کثیر زرمبادلہ کماسکیں ۔ ہماری برآمدات بہت محدود ہیں ۔ امریکہ‘ یورپ‘ جاپان اور چین میں پیداواری معاشرے ہیںاسلیے خوشحالی ہے۔ پاکستان کا وہی حال ہے جو آخری مغل دور میں مسلمانوں کا تھا۔ انکی زمینیں ہندو مہاجنوں کے پاس رہن تھیں اور مسلمان حکمران‘ نواب‘ جاگیر دار سود پر قرض لیکر کام چلا رہے تھے۔ برّصغیر کے مسلمانوں نے اپنے زوال اور انگریزوں کی غلامی سے سبق نہیں سیکھا۔ یہ جو آئی ایم ایف کا پھندا ہے اس سے نجات ایک د وبرس میں ممکن نہیں۔ آئی ایم ایف ہمیں قرض لینے پر مجبور نہیں کرتا۔ ہم خود اپنے کرتوتوں کے باعث اس کے پاس بھاگے بھاگے جاتے ہیں۔ملک میںپندرہ بیس برس تک ہر چیز کو پسِ پشت ڈال کر صنعت کاری کی جائے اور تعلیم کو فروغ دیا جائے تو ہم آئی ایم ایف اور منی بجٹوں سے چھٹکارا پاسکیں گے۔ لیکن کیا ہماری قوم میں اتنا تحمل‘ صلاحیت اور دوراندیشی ہے؟ ٭٭٭٭٭