ابھی بہاول نگر میں فوج اور پولیس کے درمیان تصادم کی خبر یں بھی چل رہی تھیں کہ بھارت کے شہر پونا میںبھارتی ٹریفک پولیس اور آرمی کے دو افسران کے درمیان ہاتھا پائی کی ویڈیو بھی وائرل ہوگئی ۔ بھارتی فوج کے دو افسران نے نوگو ایریا میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی کہ بھارتی ٹریفک پولیس نے اُن کو ناکے پر روک دیا جس پر بھارتی فوجی طیش میں آگئے اور اُنہوں نے اپنے مزید ساتھیوں کو کال کر کے بلایا ۔ تازہ دم بھارتی فوجیوں نے پولیس والوں پر حملہ کر کے اُن کی دلائی کر دی۔ اس کے بعد ایک اور بھارتی شہر میں ٹریفک پولیس کے ایک جوان اور ایک آرمی باوردی اہل کار میں تکرار اور توں توں میں میں کی ویڈیو بھی سامنے آگئی۔ پولیس اور فوج کے درمیان مڈبھیڑ کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ فوج اور پولیس دونوں فورسز کے درمیان اختیارات کے استعمال کی وجہ سے تکرار ہوجاتی ہے جو سر پھٹول تک پہنچ جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے آبائی علاقہ مری میں ستر کی دہائی میںمری کے مال روڈ پر آرمی کے ایک جونیئر آفیسر اور گشت پر مامور ایک پولیس والے کے درمیان کسی معاملے پر تلخ کلامی ہوئی اور پھر باقاعدہ تصادم کی شکل اختیار کر گئی ۔ جونیئر آفیسر نے اپنے باوردی ساتھیوں کو اطلاع دی جو پولیس والوں پر ٹوٹ پڑے تھے اور یہ معاملہ اعلیٰ افسروں کی مداخلت پر ختم ہو اتھا ۔ اس واقعہ کی انکوائری کے لئے ایک مشترکہ ٹیم بھی تشکیل دی گئی تھی۔ راولپنڈی کے فورارہ چوک میں ایک ریسٹورنٹ ستر اور اسی کی دہائی میں فوجی جوانوں اور ریسورنٹ کے مالکان کے درمیان ہاتھا پائی کا میدان بنا تھا۔ یہ ریسٹورنٹ 1977 ء کے مارشل لا ء لگنے کے بعد پہلے فوجی اہلکاورں کیلئے ’’آئوٹ آف بائونڈ‘‘قرار دے دیا گیا تھا اور بعد میں اسے مکمل طورپر بند کرایا گیا تھا ۔ اس ریسٹورنٹ کی انتظامیہ پر الزام تھا کہ وہ دوسرے ریسٹورنواں کے مقابلے میں چائے اور کھانے کے زیادہ پیسے وصول کرتے ہیں۔ اوورچارجنگ کی وجہ سے اس ریسٹورنٹ میں آئے دن جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ا سطرح کا ایک جھگڑے کے بعد اس ریسٹورنٹ کو سیل کردیا گیا تھا اور پھر یہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔ نوے کی دہائی میں لاہور شہر کے ایک تھانے میں بھی کسی فوجی آفیسر کے ساتھ بدسلوکی پر تھانے میں توڑ پھور ہوئی تھی جس کی تحقیقات پر متعلقہ افراد کے خلا ف کاروائی کی گئی تھی ۔ 1997 ء کے موسم گرمامیں مری میں جھیکاگلی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نے بے احتیاطی کا مظاہر کرتے ہوئے ملٹری پولیس کے ایک اہلکار کے پائوں پر گاڑی کاٹائر چڑھا دیا تھا جس کے بعد ایک سخت جھڑپ ہوئی جو بعد میں مقامی تاجروں کی شٹر ڈائون ہڑتال میں تبدیل ہوگئی ۔ اس ہڑتال کے خاتمے اور امن و امان بحال کرنے کیلئے اعلیٰ سطح پر فوجی حکام اور سول انتظامیہ نے مل بیٹھ کر معاملہ حل کروایا تھا۔ 1988 ء میں جب پاکستان میں محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے تو راولپنڈی میں ایک ایسا واقع رونما ہوا تھا جوسول حکومت اور اُس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق کے درمیان کشیدگی کا سبب بن گیا تھا۔راولپنڈی میں پشاور روڈ پر چوہڑ کے علاقہ میں اُس وقت کے پنجاب اسمبلی کے ایک رُکن بشیر الحسن خان کی ایک جونیئر فوجی آفیسر سے تکرار ہو گئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ رُکن پنجاب اسمبلی بشیر الحسن خان اپنے گھر کے پورچ سے گاڑی نکال رہے تھے کہ اُن کی گاڑی ایک فوجی آفیسر کی گاڑی سے ٹکرا گئی تھی ۔ جس پر ایم پی اے اور مذکورہ آفیسر میں تلخ کلامی ہوئی ۔ بشیر الحسن خان اس حلقہ کے ایم پی اے تھے اور اُن کے کئی حامی بھی موجود تھے۔ ان لوگوں نے آفیسر کو زودکوب کیا ۔ آفیسر نے اپنے کمانڈنگ آفیسر سے شکایت کی تو قریب ہی موجود فوجی اہلکار بشیر الحسن خان کے گھر تک پہنچ گئے۔ ہاتھا پائی ہوئی اور بعد میں یہ ہاتھا پائی دونوں فریقوں میں پُرتشدد واقعہ میں بدل گئی ۔ اس واقع کی انکوائری کیلئے بھی ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔ لیکن اس واقع کے سیاسی اثرات بھی سامنے آئے۔ 1985 ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر بننے والی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا نظام ابھی چل رہا تھا کہ اُس وقت کے صدر ضیاء الحق جوآرمی چیف بھی تھے کے تعلقات اپنے ہی بنائے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجوکے ساتھ بگڑ گئے تھے اورمحمد خان جونیجو جمہوری ذہن رکھتے تھے اور وہ ملک میں جمہوری کلچر کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ وہ جمہوری اور شہری آزادیوں کے حامی تھے۔ اُن کی یہ پالیسی جنرل ضیاء الحق کو پسند نہ تھی ۔ محمد خان جونیجو نے افغانستان سے روس کی فوج کے نکلنے کے بعد افغان بحران کا حل نکالنے کیلئے روس کے ساتھ جنیوا سمجھوتے پر دستخط دکئے تھے ۔ جس پر جنرل ضیا ء الحق سخت برہم تھے۔ اس وجہ سے بھی جنرل ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو کے تعلقات مزید بگڑ گئے۔ دونوں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاںاُس وقت عروج پر پہنچ گئی تھیں ۔ جب بے نظیر 10 اپریل 1986 ء کو لندن سے جلاوطنی ترک کر کے لاہور آئی تیں۔ جنرل ضیاء الحق بے نظیر کے عوامی استقبال کوروکنا چاہتے تھے جب کہ وزیراعظم جونیجوعوامی استقبال کو لوگوں کا حق سمجھتے تھے۔ یہ بات بھی ضیاء اور جونیجو کے درمیان تنازعہ میں شدّت کا سبب بن گئی تھی ۔ اوجڑی کیمپ کا واقع بھی ضیا ء جونیجو اختلافات میں اضافہ کا باعث بن گیا تھا۔ کیوں کہ وزیراعظم جونیجو اوجڑی کیمپ کی تحقیقا ت کراکے ذمہ دارافراد کو سزا دینا چاہتے تھے لیکن راولپنڈی میں پنجاب اسمبلی کے ایم پی اے بشیر الحسن اور ایک فوجی آفیسر کی لڑائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا ۔ اس واقعہ کے بعد جنرل ضیا ء الحق نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دست راست اور مسلم لیگ (جونیجو گروپ ) کے سیکریٹری جنرل اقبال احمد خان کو فون کر کے سخت لہجے میں کہا تھا ’’اقبال خان صاحب اب آپ نے فوج کے افسروں پر بھی حملے شروع کر ا دئیے ہیں‘‘ یہ بات اس خاکسار کو اقبال احمد خان مرحوم نے خود بتائی تھی۔ جو جونیجو حکومت میں وزیر قانون اور پارلیمانی اُمور بھی تھے۔ ان اختلافات کے باعث جنرل ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل 58 (B ) بی کے تحت 29 مئی 1988 ء کو جونیجو حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔ ضیاء جونیجو تنازعہ کا ذکر ذرا طویل ہوگیا ہے ۔ اصل مقصد یہ عرض کرنا تھا کہ اس طرح کے کئی واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس مرتبہ اس واقع کو سوشل میڈیا خاص طورپر یوٹیوبرز نے اس قدر پھیلایا کہ گویا یہ کوئی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا کی ایک خرابی یہ ہے کہ جب تک کسی واقعہ کو مرچ مصالحہ لگ اکر سنسنی خیز نہ بنایا جائے تو چسکا پور انہیں ہوتا۔