مولانا ابو الکلام آزاد نے دلی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جہاں پر مسلمانوں کو اُن کا شاندار ماضی یاد دلایا اور کہا تھا کہ اے مسلمانو ! یہی جمنا کا کنارا تھا کہ مسلمانوں کے قافلے جب توحید اور رسالت کا پیغام لے کر آئے تھے تو اِسی جمنا کے کنارے اُترے تھے اور اِس کے پانی سے وضو کر کے یہاں پر اذانیں دے کر نمازیں ادا کی تھیں لیکن افسوس کہ آج کی سیاست نے مسلمانوں کو ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا ہے اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سیاست ایک ایسی شے ہے کہ جس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی باتیں آج ہمارے ملک کی سیاست میں سہی ثابت ہو رہی ہیں لیکن اِ س کے باوجود کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو سیاست کو بھی عبادت سمجھ کر مخلوق خدا کی خدمت کرنا اپنے لیے فرض سمجھتے ہیں ہمارے ملک کی سیاست اب آخری کنارے پہنچ چکی ہے سیاست دانوں کو اقربا پروری اور غلط پالیسوں نے ملک کو آج اِس نہج پر پہنچا دیا ہے لیکن پھر بھی ہمارے سیاست دان اپنے عوام اور ملک کے ساتھ مخلص ہو جائیں تو ہماری مٹی آج بھی سونا بن سکتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے اپنی ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے یہاں کی سیاست میں حکومت برطانیہ کے دور سے لے کر ابتک بلوچ سردار اور تمن دار ہی چھائے رہے ہیں۔ دراصل تمن کا لفظ ترکی زبان کے لفظ تمان سے نکلا ہے جس کے معنی دس ہزار کے لشکر پر سپہ سالار کے بنتے ہیں انگریزوں نے جب 1849ء میں ڈیرہ جات کے علاقوں پر قبضہ جما لیا تو اُنہوں نے یہاں کے بلوچ سرداروں کو تمن دار بھی بنا دیا اور اُن کو اپنی مرضی سے ہزاروں ایکڑ رقبہ جات بھی الاٹ کر دیئے جس پر بلوچ سردار مزید مستحکم ہو گئے پہلے بھی اُنہوں نے ڈیرہ غازی خان کے میدانوں میں آکر بر زور طاقت تلوار یہاں کی زمینوں پر قبضہ کیا تھا (مرحوم )محمود بٹ 1998ء میں ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر تھے اُن کی وفات بھی یہی ڈیرہ غازی خان کے ڈی سی ہاوس میں اچانک ہارٹ اٹیک ہونے سے ہوئی تھی۔ محمود بٹ بڑے مرنجان مرنج قسم کے انسان تھے اُس زمانے میں ہم نے نئی نئی صحافت شروع کی تھی ایک مرتبہ کسی تحقیقی فیچر کی تیاری کے لیے ڈی سی آفس میں رکھے ریونیو ریکارڈ کی ضرورت پڑی تو (مرحوم )محمود بٹ نے بڑی مدد کی اور انہوں نے 1913ء کی جمع بندیاں آگے رکھ کر پوچھا کہ اِس ضلع کے ریونیو ریکارڈ میں جو رقبہ جات ہیں اُن کے ملکیت کے ریکارڈ میں برزور شمشیر قبضہ لکھا ہوا ہے یعنی بلوچوں نے ڈیرہ غازی خان کی زمینوں پر برزور شمشیر (تلوار) قبضہ کیا تھا پھر یہاں کی سیاست میں زیادہ تر عمل دخل بھی لغاری ، مزاری ، کھوسہ ، دریشک ، گورچانی وغیرہ کا رہا ۔ سردار جمال خان لغاری (مرحومٰ اول) میر بلخ شیر خان مزاری (مرحوم) ، سردار شیر باز خان مزاری ، پھر اِس کے بعد سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری (مرحوم) جبکہ کھوسہ قبیلہ میں سے سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ نے یہاں کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کیے ۔ لیکن اِن سرداروں کے سیاسی جھرمٹ میں ایک سفید پوش خاندان کا شخص جماعت اسلامی کے ٹکٹ سے 1970ء میں کامیاب ہونے والا ڈاکٹر نذیر شہید تھا کہ جس نے سرداروں کے مقابلے میں پہلی مرتبہ ڈیرہ غازی خان سے کامیابی حاصل کی تھی ڈاکٹر نذیر شہید ایک مرد درویش اور حق گوئی کا نشان تھے لیکن بھٹو دور حکومت میں جب ملک غلام مصطفیٰ کھر پنجاب کے ایک جابر گورنر تھے تو ڈاکٹر نذیر شہید کو 8 جون 1972ء میں اُن کے کلینک ڈیرہ غازی خان میں شہید کر دیا گیا اور یوں آج تک اُن کے اصلی قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا ۔ڈاکٹر نذیر شہید کے بعد جس شخصیت نے ڈیرہ غازی خان کی سیاست میں ایک روشن باب کی حیثیت اختیار کی وہ جمعیت اہل حدیث کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم ہیں ۔ڈاکٹر حافظ عبدالکریم وہ مرد مجاہد ہیں کہ جنہوںنے سابق قومی اسمبلی کے فلور پر ناموس صحابہ کرام ؓ اور اہل بیت بل بھاری اکثریت سے منظور کرایا۔ ہمارے یہ دنیاوی عہدے اور جاہ جلال سب کچھ ایک نہ ایک دن ختم ہو جانے والے ہیں جب انسان خود ہی فانی ہے تو پھر اُس کی کرسی اور عہدے کو کیسے بقا ہو سکتی ہے لیکن جو لوگ اپنے اِن عہدوں کی وجہ سے اسلامی تاریخی کارنامے سر انجام دے جاتے ہیں تو وہ تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو کی اسمبلی میں علما ء کرام ہی نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوایا تھا جس میں مولانا مفتی محمود ، مولانا شاہ احمد نورانی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اب اِس دفعہ یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کے حصہ میں لکھ دی ہے کہ جنہوں نے اسمبلی اور سینیٹ کے فلور سے صحابہ کرام ؓ کی نا موس اور عزت کا بل پاس کرایا۔ً حافظ عبدالکریم اپنے اخلاق اور صلح کن طبیعت کی وجہ سے سردار فاروق لغاری (مرحوم) کے حلقہ سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے حالانکہ یہ نشست لغاری سرداروں کی آبائی نشست ہوا کرتی تھی اور وہاں سے لغاری سردار ا ِس نشست پر اپنے آپ کو نا قابل تسخیر سمجھتے تھے لیکن ڈاکٹر حافظ عبدالکریم نے اِس نشست پر کامیابی حاصل کر کے بڑے بڑوں کو حیران و پریشان کر دیا۔ اب آنے والے الیکشن میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے دوبارہ سیاسی طور پر میدان میں اُتر چکے ہیں اُنہوں نے گذشتہ دنوں لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کر کے اُن کی 21 اکتوبر کو واپسی حوالے سے مشورہ بھی دیا جبکہ میاں نواز شریف کے جلسہ میں جمعیت اہل حدیث کے کارکنوں کی بھرپور شرکت کا بھی یقین دلایا ویسے میاں نواز شریف ذاتی طور پر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کے اچھے کردار اور اخلاق کی وجہ سے اُن کی ہمیشہ عزت افزائی کرتے ہیں کیونکہ۔ ڈیرہ غازی خان کی سیاست میں ڈاکٹر حافظ عبدالکریم اپنے کردار ہی کی وجہ سے ایک روشن باب کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اس لیے ن لیگ سرداروں کی بجائے حافظ عبدالکریم پر زیادہ اعتماد کرتی ہے ۔