دوستوں کے حلقے میں ہم وہ خوش مقدر ہیں شاعروں میں شاعر ہیں افسروں میں افسر ہیں یہ شعر تو کچھ اور طرح کا ہے اور زبان زد عام بھی ہے مگر اس تحریف نے اس کی ذومعنویت دو چند کر دی ہے۔ایسی تحریف ایک بیوروکریٹ کو ہی روا ہے۔سید افسر ساجد ایک تقریب میں سٹیج پرحسن نثار کے ساتھ بیٹھے تھے۔افسر ساجد نے حسن نثار سے پوچھا کالج میں آپ کے انگریزی کے کون استاد تھے۔حسن نثار کے کہا افسر ساجد۔جب حسن نثار کو معلوم ہوا کہ ان کے استاد ان کے ساتھ بیٹھے ہیں تو وہ روسٹرم پر آئے اور کہا اس تقریب کی صدارت مجھے نہیں میرے استاد صاحب کو روا ہے۔جیسے اس شعر کی تحریف انہیں روا ہے ہمیں نہیں۔ سید افسر ساجد نے بتایا کہ سلیم بیتاب ان سے ایک سال سینیئرتھے۔فیصل آباد کے اور معروف شاعر بھی سلیم کے کلاس فیلو تھے۔یہ 1963 کا سن ہے۔آج اور سن میں نصف صدی پھیلی ہوئی ہے۔ان پچاس سالوں میں سلیم کی شاعری پہلے دن کی طرح تروتازہ ہے۔اپنے اسلوب اور لفظیات میں بھی اور اپنی تاثیر میں بھی۔ میرے شعروں میں نہ ڈھل پایا ترا عکس جمیل یہ سمندر کیا سمٹتا کوزہ ِ اظہار میں بارش ِ درد سے دھل جاتا ہے سینوں کا غبار برف آئینہ بنا دیتی ہے کہساروں کو یوں سنہری دھوپ بکھری ہے رخ کہسار پر جس طرح غازہ چمکتا ہے ترے رخسار پر لمحوں کی زنجیر سلیم بیتاب کی غزلوں اور نظموں کا ایک نایاب مجموعہ ہے۔ جس شعر کے لیے ہم اس مجموعے کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے وہ اس میں شامل نہیں ان کے بس دو مجموعے ہیں۔ ایک یہی لمحوں کی زنجیر اور دوسرا ہوا کی دستک۔عین ممکن ہے وہ شعر جو بچپن سے ہمارے حافظے میں محفوظ ہے اور ہمارے پسندیدہ اشعار میں شامل ہیں وہ ہوا کی دستک میں شامل ہو اہل زباں تو کر کے فغاں مطمئن ہوئے سوز دروں میں جتنے جلے بے زباں جلے مگر جتنے اعلٰی اشعار کی تعداد اس مجموعے میں شامل ہے وہ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ پھر سرخ پھول شہر کے پیڑوں پہ آگئے روحوں کے جتنے زخم تھے چہروں پہ آ گئے فکر کا جذبہ ملا افکار کی کائی ملی ذہن کے تالاب پر کیا نقش آرائی ملی آنکھ کھلتے ہی عجب دھڑکا سا دل کو لگ گیا وہ کہاں سپنوں میں تھا جو ان کی تعبیروں میں ہے کیا ہمیں تفویض ہوتی اس کے رازوں کی کتاب ہم تو انساں تھے کسی کمرے کی الماری نہ تھے سلیم بیتاب نے شکیب کی طرح محض چونتیس سال عمر پائی۔شکیب کی لفظیات سلیم کی شاعری میں موجود ہیں۔ سلیم کی شاعری میں البم یوکلپٹس نائٹ کلب سٹیج بک سٹال اخبار اتوار کار اور اس جیسے درجنوں الفاظ جہاں جہاں استعمال ہوئے ہیں غزل کی زبان میں رچ بس گئے ہیں۔ان کی اجنبیت محسوس ہو ہی نہیں پاتی۔ سلیم نے فیصل آباد نے ہم عصروں اور بعد کی آنے والوں کی فکری رہنمائی کی داستانوں میں وہ جادو ہے نہ تفسیروں میں ہے جو تری آنکھوں کی بے آواز تقریروں میں ہے آنکھ کھلتے ہی عجب دھڑکا سا دل کو لگ گیا وہ کہاں سپنوں میں تھا جو ان کی تعبیروں میں ہے ان کی تخلیقی عرصے کے دوران معاشرے میں آگے بڑھنے زندگی میں نئی راہیں بنانے کی جستجو تھی۔ایک نئے معاشرے ایک نئے تخلیقی ماڈل کی تلاش تخلیق کاروں کے دل میں ابل رہی تھی۔ان کی غزل میں آگے بڑھنے کا حوصلہ ہے۔ان کی تخلیق کا عرصہ اس نئی غزل کے خدوخال بننے کا عرصہ تھا وہی غزل جو آج کا سکہ رائج الوقت ہے۔ پچاس سے ستر کے بیس سالوں میں ہی وہ غزل سامنے آئی جن کو پڑھتے ہم جوان ہوئے تھے۔موجودہ عہد کی غزل کا راستہ انہی لوگوں نے بنایا تھا جو ان دو عشروں میں مصروف کار تھے۔ایک رو وہ تھی جو منیر نیازی کی تھی جس میں نہ ان کا کوئی شریک تھا وہ ان کے ساتھ ہی مخصوص تھا۔سلیم احمد، ظفر اقبال، شہزاد احمد اور شکیب جلالی وہ عناصر اربعہ تھے جو غزل کی نئی تحریک کے ہراول دستہ تھے۔اب اس کو توڑ پھوڑ کہیں یا کوئی اور نام دیں ایک نئے آہنگ غزل کی تشکیل ضرور ہو رہی تھی۔ سلیم کا تعلق جالندھر سے تھا۔اہل جالندھر کے بارے میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہے۔ حفیظ جالندھری ایک بار ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ان کے سامنے والی سیٹ پر ایک صاحب موجود تھے۔ حفیظ جالندھری مشہور شاعر تھے۔ان کے دل میں طلب آئی کہ یہ صاحب مجھے پہچان نہیں رہے ورنہ خوش ہوتے کہ مشہور شخصیت کے ساتھ سفر کر رہا ہوں۔آخر کچھ دیر بعد خود ہی ان سے مخاطب ہوکر آہستہ آہستہ اپنا تعارف کرانے کے لئے اپنا نام بتایا اور کہا کہ میرا نام حفیظ جالندھری ہے۔ یہ سنتے ہی وہ صاحب سیٹ سے اٹھے اور گرمجوشی سے ان کی طرف بڑھے۔ حفیظ جالندھری دل میں خوشی محسوس کر ہی رہے تھے کہ ان صاحب نے گلے ملتے ہوئے کہا ’’بڑی خوشی ہوئی کہ آپ بھی جالندھر کے ہیں۔ " ان کی شکل چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر سے ملتی ہے، اصل میں وہ فیصل آباد کے شاعروں کے چیف آف آرمی سٹاف ہی توہیں۔ میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی