انگریزی زبان کا ایکسپریشن ہے۔آسان ترجمہ یہ ہے کہ دولت سے طاقت حاصل کی جاتی ہے اور طاقت سے دوبارہ دولت۔مگر جمہوریت اس لیے بنائی گئی کہ جب طاقت اور دولت کا نکاح چل پڑے تو باقی ذلتوں کے مارے لوگ اِس پر انگلی نہ اٹھا ئیں۔تنقید نہ کریں،نہ لکھیں نہ بولیں،بس جمہوریت بنانے والوں کے جعلی دانشوروں کا یہ قول صابر و شاکر عوام کے سامنے ٹرے میں سجا کر پیش کر دیں۔بد ترین جمہوریت بہتر ہوتی ہے،بہترین آمریت سے۔میں سیاسیات کا طالبعلم بھی ہوں اور استاد بھی۔میری سمجھ میں یہ قول کبھی نہیں آیا۔روسو سے جان لاک تک۔جمہوریت کا مشروب پینے والوں کی آنکھ کبھی کبھی کھل جائے تو دیوار پر یا سوشل میڈیا کی دیوار پر یہ لکھ کر لگا دیتے ہیں"بول کہ لب آزاد ہیں تیرے"۔پھر جمہوریت کی خوشی میں کسی ڈھابے یا فائیو سٹار میں دانشوری کر کے دانتوں میں خلال کرتے ہوئے باہر آ جاتے ہیں۔جمہوریت کی آئے گی بارات،مگن میں ناچوں گی۔مگر لوٹ جاتی ہے اُدھرکو بھی نظر کیا کیجیے۔ساغر بے پناہ شاعر تھے،کہہ گئے ہیں،جس دور میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی۔اُس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے۔یہ بھول ہمارے سلطانوں سے۔کب ہوئی؟کہاں ہوئی اور کیوں ہوئی؟یہ کہانی پھر سہی۔مگر آج کل پاکستان کی انگلش میڈیم دانشور کلاس میں ایک اصطلاح بہت مقبول ہو رہی ہے، شاید ملکی حالات میں غریب اور عجیب جمود کی وجہ سے۔یہ اصطلاح ہے "Elite Capture"۔سوچا اس کیRecipe آپ سے بھی شیئر کی جائے۔لفظِ Eliteانگریزی میں بڑا خوبصورت ہے مگر اُردو میں اس کا ترجمہ"اشرافیہ"مجھے کبھی پسند نہیں آیا،شاید آپ کو سمجھ آ جائے۔یہ اُس طبقے اور کلاس کو کہتے ہیں جو یا تو طاقتور ہوتی ہے یا دولتمند اور ملکی وسائل کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے۔حکومت میں جنرل ضیاء ہو،بے نظیر، شریفس یا کھلاڑی۔یہ کلاس ہر جگہ آپ کو اُن کے ارد گرد ملے گی جو فیصلے کرتے ہیں۔ان کے مشینی تعلقات کمپیوٹرآئزڈ ہوتے ہیں۔سیاسی جماعت،الیکشن،سیاسی کارکن،پارلیمنٹ وغیرہ ان کے مسئلے نہیں ہوتے۔ جمہوریت ان کے لیے ٹیڈی بیئر جیسے ہوتی ہے۔اور جب جمہوریت پاکستانی ہو تو پارٹی پارٹی نہیں،لیڈر لیڈر نہیں اور الیکشن، الیکشن نہیں،بس نقل ہے وہ بھی اصل کی بدصورت شکل۔تھڑے کی زبان میں"چائنہ کا مال"ہے۔ پاکستان میں ڈالر کیوں مہنگا ہے؟افغانستان کی امپورٹ آٹھ ارب کی ہے اور ایکسپورٹ دو ارب کی۔چھ ارب ڈالر وہ کہاں سے ادا کرتے ہیں؟پاکستان سے ڈالر سمگل ہوتا ہے۔اسی کو بلیک اکانومی کہتے ہیں۔ یہ سبEliteکی ملی بھگت کے بغیر تو نہیں ہو سکتا ناں۔یہ طاقتور مافیاز اور کارٹلز نظر نہیں آتے مگر ہر جگہ موجود ہیں۔یہ ایک یا دو فیصد ہوتے ہیں مگر98فیصد پر غالب اور قابض ہوتے ہیں۔یہ نہیں کہ یہ صرف ہمارے ہاں ہیں،یہ دنیا کے ہر ملک اور سماج میں ہوتے ہیں مگر ان کی حدود بھی ہوتی ہیں اور قیود بھی۔امریکہ سے بھارت تک اور بنگلہ دیش سے ایران تک یہ مافیاز سبھی جگہ ہیں مگر یہ قومی مفاد کی سرخ لکیر کراس نہیں کرتے۔یہاں بے نظیر سے نواز شریف تک اور عمران سے قمر باجوہ تک۔ ضیاء الحق سے مشرف تک کچھ مخصوص چہرے اور خاندان سب کو گھیر لیتے ہیں۔جب ان کو پوچھا جائے تو کہتے ہیں۔سر چھوڑیے ناں۔دہی ہی تو کھاتا ہے،آپ کا کیا لیتاہے۔یہ لطیفہ کیا ہے پھر سہی۔ شریفس کے ساتھ بہت سے "ڈارز "ہوتے ہیں۔ عمران کے ساتھ بزدارز اور رزاق دائودز ہوتے ہیں۔بے نظیر کے ساتھ آصف زرادری اور۔پچھلے سال ایک سیاستدان کے نواسے کی شادی پاکستان میں ہوئی۔دولہے کی والدہ کو بہت قیمتی جیولری گفٹ کی گئی۔یہ جیولری کس نے گفٹ کی؟وہی جن کے کوئی بھی نام اور چہرے ہوں مگر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟بڑا پرانا محاورہ ہے"جرم سیاست کی گود میں پل بڑھ کر کڑیل جوان بنتا ہے"۔ ہمارے ملک کے Elitesکون ہیں؟ اسٹیبلشمنٹ ، بیوروکریسی، کچھ امپورٹرز،کچھ ایکسپورٹرز،جاگیردار اور ٹاپ کارٹلز۔رئیل اسٹیٹ ڈیویلپرز۔آئی پیز کے اژدھا،کچھ مذہب کے اجارہ دار پچھلے دنوں ایک صحافی دوست نے فیس بک پر ایک رئیل اسٹیٹ ڈیویلپر کی تصویر اپنے ساتھ اپنی وال پر لگائی۔یہ ڈیویلپر کئی جائز ناجائز ہائوسنگ سکیموں کا مالک ہے۔جب تک عمران اور زمان پارک میں کشش تھی،وہ جناتی ہورڈنگز اور بل بورڈز پر اپنی قد آدم تصویریں عمران کے گھر کے آگے لگواتا اور نیچے علامہ اقبال کے شعر لکھتا رہتا تھا،یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے۔ جب کریک ڈائون ہوا زمان پارک پر تو اگلے دن لاہورمال روڈ پر اس کی ہمالیہ جیسی تصویر پھر لگی ہوئی تھی۔اس بار خوشامد کے لیے شخصیت کاا نتخاب مختلف تھا۔شخصیت کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں،ہم تم ہوں گے بادل ہو گا۔۔۔رقص میں سارا جنگل ہو گا۔ہمارے صحافی دوست نے سوشل میڈیا پر اپنی اور اس کی تصویر لگائی اور لکھا۔درویش صفت انسان جسے اللہ نے تھوڑے سے وقت میں بہت سا امیر کر دیا اور پھر خوشامد اور دعا۔ Elite Captureکا ذکر ہے تو بتانا پڑے گا1963ء میں ایوب خان کے دور میں جب بائیس خاندانوں میں دولت کا ارتقاز ہو گیا تو دولتمندوں پر ایک ٹیکس عائد کیا گیا"ویلتھ ٹیکس"۔پھر جنرل مشرف کا دور آیاتو 2002ء میں یہ ٹیکس ختم ہو گیا۔موٹی گردنوں اور موٹے پیٹوں والے مافیاز اور کارٹلز کبھی نہیں چاہتے کہ وہ اپنی ناجائز آمدنی میں سے چند ٹکے جائز ٹیکس کے بھی دے دیں۔خود غرضی۔۔منافقت اور سنگدلی مگر مسکراتے چہرے کے ساتھ الیکشن پر اربوں روپے خرچنے کو تیار۔ نتیجہ؟ ریاست غریب سے غریب تر۔۔عوام یتیم سے یتیم تر اور یہ کارٹلز۔۔۔اللہ کی زمین پر چھوٹے چھوٹے جعلی خُدا ہیں جو عوام کی تقدیروں سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔یہ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے دانشور بھی کرائے پر لے لیتے ہیں۔جس دانشور کی مقبولیت جتنی زیادہ ہے،یہ لوگ اُس کا ریٹ بھی اُسی تناسب سے لگاتے ہیں۔پھر یہ دانشور ایسا ایسا جعلی خیال اور جملہ جھوٹ کی ٹکسال سے ڈھال کر نکالتے ہیں کہ عوام گڑبڑا جاتے ہیں۔رائے عامہ ڈگمگا جاتی ہے۔عوام کے ہاتھ مزدوری میں جُتے رہتے ہیں۔۔۔انقلاب گیا تیل لینے۔