محکمہ آبپاشی نے پنجاب میں نہری پانی چوری کے خلاف گرینڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پانی چوری میں ملوث زمینداروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے والے افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ زراعت کی نشوو نما کا دارومدار پانی پر ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں نہری پانی زراعت کے تناسب سے کافی کم ہے، اگر زمیندار ٹیوب ویل یا موٹر لگا کر خود اپنی زمین کے لئے پانی کا بندوبست کرتا ہے تو اس کے اخراجات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ جب فصل اٹھائی جاتی ہے تو کسان کے حصہ میں کچھ نہیں آتا۔ نہری پانی میں بھی وہ کسان فائدے میں ہیں جن کی زمینیں موگے کے قریب ہوتی ہیں۔ جو کسان ٹیل کے قریب ہوتے ہیں ان تک پانی پہنچتا ہی نہیں، اگر پہنچ بھی جائے تو اسکی رفتار اس قدر سست ہوتی ہے کہ کھیت سراب نہیں ہو پاتے۔ اس کی بڑی وجہ کسانوں کا پانی چوری کرنا ہے۔ پرویز الٰہی دور حکومت میں پانی چوری پر باقاعدہ سزائیں مقرر تھیں اور بلا تفریق اس کا نفاذ بھی تھا ان کے بعد زراعت سے ناواقف وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے دس برسوں میں اس جانب توجہ ہی نہیں دی، جس بنا پر کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔درحقیقت 2008ء سے لے کر 2018ء تک صرف شہروں میں بڑے بڑے پل بنائے گئے ہیں جبکہ دیہی علاقوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اب حکومت نے پانی چوری کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی ہے،امید ہے اس کے دور رس اثرات نظر آئیں گے اور ہر کسان کو بلا تفریق پانی ملے گا۔