کسی بھی ملک کیلئے ثقافتی پالیسی کا احیا ضروری ہے کہ ثقافت زندگی کے تمام معاملات کا احاطہ کرتی ہے ۔ بد قسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ثقافتی پالیسی نہیں بن سکی ۔ 1959ء میں فیض احمد فیض آرٹس کونسل کے سیکرٹری مقرر ہوئے تو انہوں نے کچھ کام کیا بعد میں کچھ کام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا ، اس کے بعد سے خاموشی ہے ۔ قومی ثقافتی پالیسی کا احیاء ہونا چاہئے، یہ کام وفاق کی طرف سے ہونا ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو صوبائی خود مختاری حاصل ہوئی ہے ، صوبوں کو اپنے اپنے طور پر ثقافتی پالیسی ترتیب دینی چاہئے مگر اس میں ضروری ہے کہ صوبے میں جتنی بھی ثقافتیں اور زبانیں ہیں ، ان کی ترقی کیلئے کام ہونا چاہئے ۔ صوبے میں وزارت اطلاعات کے ساتھ ثقافت کی وزارت کو بھی شامل کیا گیا ہے ، جو کہ درست نہیں، اطلاعات کی وزارت الگ ہونی چاہئے کہ اس کے ذمے حکومتی معاملات کی تشہیر اور حکومتوں کی کارکردگی کو اجاگر کرنا شامل ہوتا ہے ، اس کے ساتھ صوبے میں وزیراعلیٰ سے لیکر ضلعی حکومتوں کی کارکردگی کو میڈیا تک پہنچانا وزارت اطلاعات کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ہے کہ وزارت ثقافت ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے ۔ ثقافت کی وزارت کو الگ اور خودمختار وزارت بنانا چاہئے ، اس میں ٹور ازم کو بھی شامل کرنا چاہئے کہ غیر ملکی سیاح صرف عمارتیں یا مناظر دیکھنے نہیں آتے ، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جس علاقے میں جائیں ، وہاں کی زبان ، ثقافت کے بارے میںآگاہی حاصل کریں اس کے ساتھ خطے کے رسم و رواج سے بھی جانکاری ان کی سیاحت کا پہلا مقصد ہوتا ہے۔ وزارت ثقافت میں محکمہ اوقاف کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے کہ بزرگانِ دین کے عرس اور میلے ٹھیلے ثقافت میں آتے ہیں ۔ سید وارث کا مزار وزارت ثقافت کے پاس ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ صوبائی سطح پر دیکھا جائے تو وزارت اطلاعات کے دفاتر ضلعی سطح پر موجود ہیں مگر ضلعی سطح پر ثقافتی سرگرمیوں کو دیکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے حالانکہ اطلاعات و ثقافت کی وزارت ایک ہی ہے ۔ اطلاعات کے ضلعی دفاتر سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آرٹس کونسلوں کا دائرہ ضلعی سطح تک وسیع کیا جائے اور تحصیل سطح پر آرٹس کونسلوں کے سب دفاتر ہونے چاہئیں ۔ بہاولپور کے علاقے چولستان میں ہر سال ایک بین الاقوامی ایونٹ چولستان جیپ ریلی منعقد ہوتا ہے ، اس موقع پر ٹور ازم الگ ، آرٹس کونسل الگ اور ضلعی انتظامیہ الگ نظر آتی ہے ۔ حالانکہ یہ ایونٹ 100 فیصد وزارت ثقافت کے انڈر آنا چاہئے کہ جیپ ریلی اور اس کی ذیلی تمام تقریبات کا تعلق ثقافتی سرگرمیوں سے ہے ۔ صوبائی وزارت اطلاعات میں کام کے باعث قدم قدم پر مشکلات ہیں ، پچھلے دنوں اخبار میںخبر شائع ہوئی کہ 2017ء سے مئی 2020ء تک محکمہ اطلاعات و ثقافت میں 40 آفیسرز بھرتی کئے گئے ، جن میں سے صرف تین نوجوانوں کا تعلق سرائیکی وسیب سے تھا ، باقی سب اپر پنجاب سے تھے ۔ حالانکہ ثقافتی اعتبار سے سرائیکی خطہ بہت زرخیز ہے اور اس کا مقابلہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی کسی بھی ثقافت سے کیا جا سکتا ہے ۔ اس خطے میں سب سے زیادہ فنکار پیدا ہوئے ، انہی فنکاروں کی وجہ سے ہندی زبان میں ایک کہاوت مشہور ہوئی ’’ آگرہ اگر ، دلی مگر ، ملتان سب کا پِدر ‘‘ ۔ لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ الحمرا جیسے بڑے ادارے لاہور میں بنائے گئے اور جب صوبے کے فنکاروں کو امداد کی شکل میں کچھ ملتا ہے تو صوبے کے باقی تمام ڈویژن ایک طرف اور صرف لاہور ڈویژن کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اب تک ثقافتی پالیسی کیوں نہیں بن سکی؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ حکمرانوں کو جب ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے فرصت نہیں تو وہ مستقل پالیسیاں کیسے بنائیں ، ایک مسئلہ یہ بھی ہے برگر نسل کے سیاستدان کلچر سے آگاہ نہیں۔ کچھ لوگ صرف بھنگڑے اور ناچ گانے کو کلچر کا نام دیتے ہیں جبکہ کلچر کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ یہ ہر شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتا ہے، کلچر کل ہے ، باقی سب اس کے اجزا ہیں ۔ فنون لطیفہ ، دستکاریاں، ڈرامہ فلمز، کہاوتیں ، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روایات، مذہبی ، سماجی رسومات ، لوک کہانیاں ، لوک قصے ،شعری و نثری و رومانوی قصے ،بہادری کی داستانیں ، موسموں کے گیت ، فصلوں کے گیت ، ثقافتی میلے ، تہوار ، بزرگوں کے عرس ، بچوں کے گیت ،کھیل ، بچوں بچیوں کے کھیل ، نوجوانوں بزرگوں کے مشاغل ، پیدائش و موت کی رسمیں عقائد و عبادات لوک تماشے ، لوک تھیٹر، زبان ، بولیاں ، کہاوتیں ، ضرب الامثال ، لباس، کھانے ، عقائد ، رہن سہن یہ سب کچھ ثقافت کا حصہ ہیں ۔ مسائل ٹھیکہ داری اور اجارہ داری سے جنم لیتے ہیں ، جس طرح مذہبی ٹھیکیداری غلط ہے ، اسی طرح ثقافتی اجارہ داری بھی درست نہیں ، کلچر فطرت اور خوبصورتی کا نام ہے ، کوئی بھی غلط عمل کلچر کی بدنامی کا باعث تو ہو سکتا ہے، اسے ثقافتی عمل قرار نہیں دیا جا سکتا، جسم فروشی اور انسانوں کی خرید و فروخت ، ونی ، وٹہ سٹہ ،کالا کالی یا عرب روایات کے مطابق بچیوں کو زندہ درگوہ کرنا کے عمل کو کلچر کے فطری عمل کے خلاف بغاوت قرار دیا جا سکتا ہے، کلچر نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی مثبت عمل کی آڑ میں کوئی دھندہ کرتا ہے ، اسے ہوس زر کیلئے استعمال کرتا ہے تو یہ اس کا ذاتی قصور ہے ،مذہب یا ثقافت کا اس میں کوئی قصور نہیں ۔ زمینی سرحدیں اپنی جگہ لیکن ثقافت کی اپنی حدود ہوتی ہیں ۔ ہر طرح کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ صرف ثقافت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے مگر وسیب سے فن اور فنکار ختم ہوتے جا رہے ہیں ، کسی طرح کی کوئی سرپرستی نہیں ہے ۔ البتہ وسیب کے فنکاروں اور گلوکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت فن کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔ گوالیار خاندان حیدر آباد ، استاد مبارک خاندان بہاولپور اور استاد بلے خان طلبہ نواز ملتان کا خاندان اب فن سے پیچھے ہٹ چکا ہے ۔ اس کی واحد وجہ حکومت کی بے توجہی اور سخت مالی مشکلات ہیں ۔ حکومت کو بلا تاخیر ایسی ثقافتی پالیسی ترتیب دینا ہوگی جس سے فن اور فنکار مرنے سے بچ سکیں ۔