سپریم کورٹ نے آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیر توانائی عمر ایوب کو طلب کر لیا۔ آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ معاملہ نیب کو بھجوا دیتے ہیں کیونکہ عوام کو بجلی نہیں ملی لیکن پیسے دیے جاتے رہے‘ کھوبوں روپے کا گردشی قرضہ بن گیا‘ صورتحال اب یہ ہوچکی ہے کہ ملک کا پاور سیکٹر گردشی قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے۔ کیا اس کا حل یہ تھا کہ آئی پی پیز سے بجلی نہ ملے ادائیگیاں کی جاتی رہیں‘ 2013ء میں(ن)لیگ کی حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس نے آتے ہی آئی پی پیزکو 480ارب روپے کی ادائیگیاں کی تھیں۔ اس میں کچھ ادائیگیاں ایسی بھی تھیں کہ جن کمپنیوں نے ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہ کی تھی۔انہیں بھی پیسے دیئے گئے تھے۔ اب ایک بار پھر ماضی کی غلطی دہرائی گئی۔جناب چیف جسٹس کا یہ کہنا بالکل بجا اور درست ہے کہ معاملہ نیب کو بھجوا دیا جائے کیونکہ پیسے تو آئی پی پیز کو دیے جاتے رہے لیکن عوام بجلی سے محروم رہے‘ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ان قرضوں کی بنیاد سابق ادوار میں ہی رکھی گئی ہے جس کا خمیازہ عوام موجودہ حکومت میں بھگت رہے ہیں۔ ہوتایہ رہا ہے کہ آنے والی کسی بھی حکومت نے بنیادی مسئلے کے دیرپا حل کے لئے مناسب حکمت عملی تشکیل نہیں دی جس کے نتیجہ میں قرضے بھی بڑھتے رہے اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوتا رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی دیرپا پاور پالیسی بنائی جائے جو عوام دوست ہو‘ جس سے توانائی کے بحران کے حل کے ساتھ ساتھ پاور سیکٹر سے قرضوں کا بوجھ کم ہو۔