؎ اک دسترس سے تیری حالیؔ ہی بچ رہا تھا اس کے بھی تونے ظالم چرکا لگا کے چھوڑا آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں بلاول بھٹو‘ مریم نواز شریف اور پی ٹی آئی کے لیڈران کرام کی تقریریں سن کر ہرگز نہیں لگتا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کشمیری عوام کا مجرم ہے یا جواہر لال نہرو سے لے کر اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک‘ کسی نے ریاست جموں و کشمیر کے باسیوں کے ساتھ ظلم روا رکھا۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو اپنی تقریروں میں کشمیریوں سے ہونے والی ہر زیادتی کا ذمہ دار عمران خان کو ثابت کرتے ہیں اور عمران خان کے پیرو کاروں کے خیال میں یہ سب ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کا کیا دھرا ہے‘ آزاد کشمیر میں جاری انتخابی مہم سے میرے خیال میں سب سے زیادہ خوش بلکہ مطمئن نریندر مودی ہو گا اور افسردہ سید علی گیلانی‘ یاسین ملک ‘ آسیہ اندرابی ‘ میر واعظ اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں دو سال سے مقید دیگر حریت پسند۔ قائد اعظم کے الفاظ میں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور آزاد ریاست جموں و کشمیر بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف جاری تحریک حریت و آزادی کا بیس کیمپ‘ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو مگر اس کا احساس تک نہیں‘ ہوتا تو انتخابی مہم شروع کرنے سے قبل کسی ضابطہ اخلاق پر اتفاق کرتے‘ پاکستان کی قبائلی طرز کی ذاتی بغض و عناد اور گروہی دشمنی پر مبنی سیاست کو آزاد کشمیر کی حدود میںداخلے کی اجازت نہ دیتے۔ سن تو یاد نہیں مگر ایک بار جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی سے بیرون ملک کسی صحافی نے پاکستان کی سیاست کے حوالے سے سوال کیا تو حکمرانوں کی انتقامی کارروائیوں کا شکار مذہبی سیاستدان اولاً خاموش رہا ‘زیادہ اصرار پر صرف اتنا کہا: پاکستان کی بات میں پاکستان میں کرتا ہوں‘ سیاسی اختلافات کی گٹھڑی کو میں وطن واپس جا کر کھولوں گا‘آپ کوئی دوسری بات کریں‘‘ یہ مگر ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے سیاستدان اخلاقی اقدار و روایات کی پاسداری کیا کرتے اور سیاسی اختلافات میں بھی شائستگی کو روا رکھتے‘ قیام پاکستان سے 1970ء تک آزادی جموں و کشمیر کو پاکستانی سیاست کی آلائشات سے کافی حد تک پاک رکھا گیا‘ مسلم لیگ نے وہاں اپنا تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا نہ اس کے سیاسی مخالفین نے۔ مسلم کانفرنس‘ لبریشن لیگ اور دیگر مقامی جماعتوں کو اپنے اپنے سیاسی ایجنڈے‘ ذوق اور مفاد کے تحت سپورٹ کیا جاتا۔ بھٹو صاحب پاکستان کے پہلے حکمران اور سیاستدان تھے جنہیں سردار عبدالقیوم خان کو نیچا دکھانے کے لئے پیپلز پارٹی آزاد کشمیر تشکیل دینے کا شوق چرایا اور پھر چل سو چل‘ آزاد کشمیر کے الیکشن میں بحث کاموضوع مگر ہمیشہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی ‘ بھارتی مظالم اور ریاستی حقوق ہوتے یا زیادہ سے زیادہ کسی پاکستانی وزیر اعظم کی ریاستی حکومت سے بے اعتنائی کا گلہ شکوہ۔ 2016ء کی انتخابی مہم میں بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف کو نریندر مودی کا یار اور کشمیری عوام کا غدار ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ کشمیری عوام کو بھٹو صاحب کی خدمات یاد دلائیں‘ ہزار سال تک لڑنے کے نعرے کو دہرایا مگر اپنے مزاج کے مطابق کشمیری عوام نے مسلم لیگ(ن) کے انتخابی نشان پر مہر ثبت کی کہ مرکز میں وہی جماعت برسر اقتدار تھی اور ریاست کی تعمیر و ترقی کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرنے کے قابل‘ آزاد کشمیر کے موقع شناس اور دور اندیش ووٹروں کا جھکائو ہمیشہ اس جماعت کی طرف ہوتا ہے جسے اسلام آباد کی اشیر باد حاصل ہو۔ انہیں یاد ہے کہ جب 1970ء کے عشرے میں سردار عبدالقیوم خان نے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف کی جرأت کی اور ریاستی اُمور میں مداخلت پر احتجاج کیا تو مقبول اور دلیر سردار کا کیا حشر ہوا‘زندان سے آزادی اسے 1977ء کی تحریک میںاس وقت ملی جب بھٹو کو قومی اتحاد سے مذاکرات کے لئے کسی ایسے شخص کی ضرورت محسوس ہوئی جو پیر صاحب پگاڑا‘ مولانا مفتی محمود‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ سردار شیر باز خان مزاری اور ائیر مارشل اصغر خان کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے قائل کر سکے‘ ورنہ بھٹو سردار صاحب کو جیل میںڈال کر مصطفی کھر کے ساتھیوں افتخار احمد تاری‘چودھری ارشاد اور چودھری اسلم کی طرح بھول گئے تھے‘ بھٹو کے یہ جیالے کئی سال تک دلائی کیمپ میں پڑے قائد عوام کے سر بخت کو دعائیں دیتے رہے‘ بھٹو اور اس کی اپوزیشن ہی نہیں‘ قائد عوام اور سردار عبدالقیوم کے مابین سیاسی آویزش میں نفرت اور ذاتی تلخی کا عنصر موجود تھا مگر آزاد کشمیر کی کسی انتخابی مہم میں سردار عبدالقیوم نے وہ زبان استعمال کی نہ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے رہنمائوں نے جو بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف کا خاصہ ہے‘ عمران خان کے ساتھیوں علی امین گنڈا پور اور دیگر کی طرف سے جواب آں غزل بھی قابل رشک نہیں۔5۔ اگست کے اقدام کو اگر یہ رہنمایان کرام موضوع بحث بناتے‘بھارتی قبضہ چھڑانا تو ان کے بس کی بات نہیں‘ نریندر مودی کی لعنت ملامت پر اکتفا کرتے تب بھی کشمیری عوام نے فیصلہ وہی دینا تھا جو انہوں نے سوچ رکھا ہے لیکن کم از کم مقبوضہ کشمیر کے مظلوم و بے بس عوام تک یہ پیغام ضرور پہنچتا کہ ہماری جدوجہد آزادی کے بیس کیمپ میں پاکستانی لیڈر کشمیری عوام کے ساتھ مل کر عالمی برادری کو ہماری مظلومیت اوربھارتی جبر و ستم کی داستان سنا رہے ہیں‘ ہمارے زخموں پرمرہم لگانے کی سعی ناتواں کر رہے ہیں‘ ہمارا حوصلہ بڑھانے میں مشغول ہیں‘ کشمیر میںمگر ہو کیا رہا ہے؟ الزام تراشی‘ کردار کشی اور بھارت کی حوصلہ افزائی۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ستمبر میں متوقع ہے‘ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دو اجلاسوں میں بھارت کو جارح‘ ظالم ‘نازی ریاست اور نریندر مودی کو ہٹلر‘ قصاب ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ دونوں مواقع پر بھارتی سفیر نے اجلاس سے واک آئوٹ کیا کہ سچ سننے کا حوصلہ نہ تھا‘ ترکی کے طیب اردوان اور ایک دو دوسرے دوست ممالک کے سربراہان نے بھی عمران خان کے موقف کی تائید کی ‘مجھے اندیشہ ہے کہ اس بار اگر عمران خان کی تقریر سے قبل یا بعد بلاول بھٹو‘ مریم نواز اور علی امین گنڈا پور کی مظفر آباد‘ راولا کوٹ اور دیگر مقامات پر کی گئی تقریروں کے کلپ چلا دیے جس میں یہ قومی رہنما اور کشمیریوں کے ہمدرد نریندر مودی کے بجائے ذوالفقار علی بھٹو ‘نواز شریف اور عمران خان پر کشمیریوں سے بے وفائی کا الزام لگا رہے ہیں‘ اندرا گاندھی ‘ اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی سے ساز باز کی کتھا سنا رہے ہیں تو پاکستان دنیا کو کیا منہ دکھائے گا؟تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟