دوستو! اگر کسی گھر میں پچھتر سال کا کوئی نڈھال بوڑھا، جس نے اچھے برے حالات میں پورے خاندان کو اپنے پروں کے نیچے پناہ دی ہو، جس نے اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے زمانے کا گرم و سرد سہا ہو، وہ اولاد کے جوان ہونے پر صحن میں بے یارو مددگار پڑا ہو۔ وہ بھی اس حالت میں کہ کتے، کوے، گدھ اس کا گوشت نوچ نوچ کے کھائے جا رہے ہوں۔آس پڑوس کے ہم عمروں نے اس کا چھِبیاں دے دے کے جینا حرام کیا ہو۔ شریکا اُسے بدنام کرنے کا ہر طریقہ آزمانے پہ تُلا بیٹھا ہو، ایسے میں کون ہے جو سکون سے بیٹھے گا؟ کسے آسودگی کی نیند آئے گی؟ کون چَین کی بانسری بجائے گا؟ کسے بھنگڑے ڈالنے کی فرصت ہوگی؟ دوستو! یہ ناتواں بوڑھا آج ہم سب کے گھروں میں حیرت اور عبرت کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔ اس بوڑھے کا نام تو ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ ہے لیکن یہ اسلامی صرف اس قدر ہے کہ کبھی اسلام کے نام پہ بنا تھا، ہمیں اس میں اسلامی نظام یا قانون نافذ کرنے کی آج تک توفیق نہیں ہو سکی، البتہ یہاں ہر فرقے کو اپنی اپنی طبیعت اور مفاد کے مطابق ’مذہب‘ پھیلانے کی پوری آزادی ہے۔ جو شخص’’لا تفرقوا‘‘ والی آیت سے واقف ہونے کے باوجود اپنا تعارف کسی فرقے کے حوالے سے کرواتا ہو، اُس کیلئے دین میں صرف ’’ قالو سلاما‘‘ ہی بچتا ہے۔ پھر ہمارے ہاں جس چیز کو جمہوریت کا نام دیا گیا ہے، وہ حکیم جی کے قاعدے کے مطابق …ج سے جہالت، م سے مکاری، ہ سے ہوس، و سے وراثت، ر سے ریاکاری، ی سے یاوہ گوئی اورت سے تعصب، کا چلتا پھرتا اشتہار ہے۔ باقی بچا ’پاک ستان‘ ،جوپاک بھی صرف اُسی صورت میں ہو سکتا ہے، اگر اس میں سے ہر ناپاک اور مضر ’چیز‘کو اُٹھا کر بحرالکاہل یا زہرالقاتل میں پھینک دیا جائے! اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ مسائلستان ہو سکتا ہے، وڈیرستان ہو سکتا ہے، لُوٹستان ہو سکتا ہے، تماشستان ہو سکتا ہے، پاکستان ہر گز نہیں ہو سکتا۔ اصل جمہوریت وہ ہوتی ہے جہاں بلاول اور بوٹا مصلی ایک سکول میں پڑھتے ہوں۔ جہاں مریم نواز اور بشیراں بی بی آٹھ گھنٹے کام کر کے ایک جتنی تنخواہ لیتی ہوں، جہاں باپ وزیرِ اعظم ہو تو بیٹا سائیکل پہ مدرسے جاتا ہو۔ جہاں ذمہ داریاں اور عہدے متعلقہ شعبے سے متعلق قابلیت دیکھ تفویض کیے جاتے ہوں، کسی دھونس، چالاکی یا خاندانی مجبوری کی بنا پر نہیں، اگر ایسا ہے توسب فراڈ، سب گپستان… رہی یہ بات کہ یہاں مضر کون ہے؟ لالہ بسمل کے بقول ہر وہ شخص جو قومی خزانے سے ایک دھیلے کی خیانت کا بھی مرتکب ہوا ہو۔ ہر وہ استاد جس کے اپنے بچے اس کے ادارے میں پڑھنا پسند نہ کریں، جہاں سے وہ بھاری پگار وصول کرتا ہے۔۔ ہر وہ ڈاکٹر جس کی سوئی خدمت کی بجائے دولت پہ اٹکی ہوئی ہے۔ ہر وہ دفتری جس کی میز پہ سائل کی فائل دوسرے دن تک پڑی ہو۔ ہر وہ محکمہ جہاں لوگ قومی خزانے میں پیسے جمع کروانے کے لیے دھوپ میں کھڑے ہوں اور پیسے لینے والے ٹھنڈے ڈربوں میں نخرے دکھا رہے ہوں۔ ہر وہ تعلیمی ادارہ، جہاں پرنسپل ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھا ہو اور طلبہ کے لیے ڈھنگ کے پنکھے بھی موجود نہ ہوں۔ ہر وہ سلسلہ جہاں قومی تعمیراتی کاموں کے لیے مختص فنڈز میں سے کمیشنیں کٹتی ہوں۔ ہر وہ آفس جہاں ملازمین کی تنخواہیں بدنیتی کے پیشِ نظر تاخیر کا شکار ہوتی ہوں۔ ہر وہ کٹہرا جہاں انصاف میں بلا وجہ تاخیر ہوتی ہو۔ ہر وہ حکمران جو کسی حساس عہدے پہ ہوتے ہوئے اپنا ذاتی کاروبار بھی جاری رکھے۔ ہر وہ قلم کار جس کے قلم میں معیارکی بجائے کردار کی سیاہی ڈَلتی ہو۔ایسے تمام افراد جو سرکاری پیسوں سے حج کا قصد باندھیں۔ ہر وہ زعیم جس کے اثاثے اس کی حیثیت سے لگا نہ کھائیں۔ ہر وہ سیاسی اداکار جس کا کسی اہم ملکی عہدے پہ تقرر سفارش کی بنا پر ہو۔ دوستو! آج چودہ اگست ہے، سب جانتے ہیں کہ اس دن تمام تعلیمی اداروں اور دفاتر میں روایتی طرزمیں، بلا سوچے سمجھے، خالی خزانے کی ہڈیوں سے فنڈز کا گودا نچوڑ کے رنگ برنگی جھنڈیاں لگی ہوں گی، بلند آہنگ ترانے بج رہے ہوں گے، چمچماتی مٹھائیاں بٹ رہی ہوں گی ۔ رٹی رٹائی تقریروں کے مقابلے ہو رہے ہوں گے۔ اداروں میں کروڑوں روپے کی سرکاری بجلی خرچ ہوگی۔ ٹی وی چینلوں پہ اور طرح کے لوگوں سے اور طرح کی باتیں پوچھ کے محظوظ ہوا جا رہا ہوگا۔ چھٹی والے دن جشن منانے والے لوگ اگلے ایک دو دن کی چھٹی کر کے اپنے ذاتی کام مکمل کریں گے۔ اسی دن خاکروب گلیوں، بازاروں میں بکھری کروڑوں میں خریدی اور لہرائی گئی ’پاکستانیت‘ (جھنڈیاں، جھنڈے، اشتہار اور سٹکرز وغیرہ) کوڑے کے ڈرموں میں ڈال رہے ہوں گے۔ گزشتہ تین چار دہائیوں سے یہ بے مقصد سرگرمیاں آنکھیں بند کر کے دہرائی جا رہی ہیں۔ کبھی کسی نے سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ یہ سب کس خوشی میں ہو رہا ہے؟ کون سا شعور ہے جو آپ اِن فضول حرکات اور اس اُجڑے پجڑے سرکاری خزانے کو بے دریغ لٹا کر بیدار کر رہے ہیں۔ کون سا قلعہ فتح کیا ہے، جس کا جشن منایا جا رہا ہے؟ کون سا کارنامہ انجام دیا ہے، جس پر تالیاں پیٹی جا رہی ہیں؟ اَخے پَلّے نئیں دھیلا، تے کردی میلہ میلہ!!! اللہ کے بندو! سال کا یہ دن تو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے لیے تھا کہ اس سال دھرتی ماں کا برادری میں کا سر اونچا کرنے میں ہم نے کیا حصہ ڈالا ہے؟ یہ تو اپنی پستیوں پہ آنسو بہانے کی گھڑی تھی۔ اپنے دائمی زوال کے اسباب ڈھونڈنے کا مرحلہ تھا۔ اس دن تو اپنی خرابیوں کا ادراک کر کے نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کرنا تھا۔ یہ تو اس قومی پیڑ کی جڑوں کو لگی دیمک کا سر کچلنے کی تدبیر کرنے کا دورانیہ تھا۔ حتی کہ ڈوب مرنے کا مقام تھا لیکن وہ جو کہتے ہیں: ڈوب مرنے کے لیے بھی ظرف ہونا چاہیے اگر ہر سال چند دن کا مجمع لگانا اتنا ہی ضروری ہے، تو ان دنوں میں پورے ملک کو درختوں کے زیور سے آراستہ کیا جا سکتا تھا، اپنے آلودہ گلی محلّوں کو صاف کر کے دنیا کی نظروں میں گندے ترین شہروں کی تہمت سے بچا جا سکتا تھا، یا شاعر کی اس بات پہ کان دھرا جا سکتا تھا کہ: ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر مگر کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے