وہ تحریک پاکستان کے شاہین تو نہ تھے مگر شاید تعمیر پاکستان کے تو ضرور ہوں گے۔ اسی لیے شاید وہ جھپٹ کر پلٹ رہے تھے اور پلٹ کر جھپٹ رہے تھے ۔ ایک اکیلے سری لنکن پر جو اکیلا بھی تھا اور غلطی سے پاکستان میں بھی رہ پڑا تھا۔ پھر وہ مرگیا اور اسے جلا دیا گیا۔ دل میں اک لہر سی اٹھی ہے اور یہ سوال تن کر سامنے کھڑا ہوگیا ہے ۔ کیا قائداعظم نے ایسے ہی پاکستان کے لیے شدید بیماری میں آرام کرنے کی بجائے دن رات ملک بنانے میں خرچ کردئیے اور خود کوبھی ۔ کیا اقبال کے تصور میں ایسا ہی وطن اور ہم وطن تھے ؟ وہ نسل جو قافلوں کی شکل میں لُٹی پھُٹی پاکستان پہنچی ، اس نے جو خواب آنکھوں میں بسائے ، یہ تھی اُن خوابوں کی تعبیر ؟ کہاں گئے وہ لوگ ؟ کیا ہم سب اُن کی ہی اولادیں نہیں؟ تو پھر کیا ہوا؟ کیا وہ نسل نئی نسل کو پاکستان کی تعمیر کا مقصد سمجھانے میں ناکام ہوگئی ؟ ہم قوم سے ہجوم کیسے بن گئے؟ سرِ نظر بھی دھواں ہے، سرِ فلک بھی دھواں ہے ۔ آج کل ابن ہشام کی سیرت النبی ؐ پڑھ رہا ہوں ۔ آقا ؐ کی سیرت رک رک کر پڑھتا ہوں اور پھر اپنے اردگرد نگاہ دوڑاتا ہوں ۔ پھر مسلم اُمہ کو دیکھتا ہوں اور پھر پاکستانی ہم وطنوں کو۔ دل دہل جاتا ہے ۔ کیا اسرافیل کے صور پھونکنے سے پہلے یوں چھوٹی چھوٹی قیامتیں ہمیں ڈراتی رہیں گی ؟ ہمارے وطن میں وہ کون تھے جن کی ذمہ داری تھی کہ جس دین کے نام پر ملک بنا تھا اُس دین کو آنے والی نسلوں کو منتقل کرتے ۔ وہ دین جو میرے آقاؐ کا دین تھا ۔ وہ ہستی ؐ جو طائف میں پتھر بھی کھائے ، لہو لہان بھی ہو جائے مگر بد دعا نہ دے۔ کیا دین صرف دینی محفلوں اور اجتماعات میں شرکت کا نام ہے یا مسجد سے نکل کر بھی دین کو اپنی سوچ ، عمل اور فکر میں بھی ٹٹولنا چاہیے۔ ہمارا وطن کبھی بڑا روادار ، متحمل اور صبر والا ہوتاتھا ۔مگر آج کے پاکستانیوںکو دیکھ کر خیال آتا ہے ۔ یہ کون لوگ ہیں؟ کیوں کرتے ہیں ایسا؟ کیا ریاست اُس بیانیے کوپروموٹ نہیں کرپائی جو آقائے دو جہاںؐ کا بیانیہ تھا ؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نہ پورے دین میں ہیں اور دین سے باہر ۔ نام لیوا تو اسلام کے ہیں مگر تعلیمات بارے بے تحاشہ اور بے شمار تضادات میں گرفتار ہیں۔ ہمارا وطن اسلام کے نام پر وجود میں آیا ۔ ہم نے پارلیمانی ، جمہوری نظام اپنا لیا جو مغرب کی ایجاد تھا۔ قراردادِ مقاصد کا تڑکا تو آئین کو لگایا مگر بات نہ بنی۔ ہماری اکانومی ہمیشہ کسی اور کی جنبش ابرو کی منتظر رہتی ہے۔ ہم سب ، ہم سب کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ، ٹاپ سے بوٹم تک ۔ کیا علم ،کیا تعلیم ، کیا امت ، کیا تلقین ۔ جب تضاد سے تضاد ضرب کھاتا ہے تو جزر میں جواب آتا ہے ، منافقت ۔ کسی بھی ہم وطن سے اُس کے غلط عمل کا جواز مانگا جائے تو جواب آتا ہے ، جی سب ہی اسی طرح کرتے ہیں۔ اس لیے میں بھی اس طرح ہی کرتا ہوں۔ تصورِ دین ، تصورِ معاشرت اور تصورِ انسانیت نہ کوئی بتانے کو تیار ہے اور نہ ہی کوئی سننے کو ۔ دین کا سب سے بڑا مرکزی خیال تو اعتدال ہے ۔مگر ہم ٹھہرے انتہاء پسند اور کبھی بھی کچھ بھی نہ برداشت کرنے والے۔ ہم نہ سچ بولتے ہیں نہ سچ کہتے ہیں ، خدا کے خوف سے نہیں کسی اور کے خوف سے ۔ ہر طرف چھوٹی چھوٹی اجارہ داریاں ہیں ۔ جھوٹ کے بت ہیں اور پجاری بھی ۔ ہم صرف جھوٹ بولتے ہی نہیں ، اسے سچ بناکر ،اُ س پر مسلسل تابڑ توڑ اصرار بھی کرتے ہیں۔ ایک صحافی دوسرے سے سیالکوٹ والے واقعے کے بعد اُن دو نرسوں کا پوچھ رہا تھا جو اقلیت سے تھیں اور جیل چلی گئیں ۔ جواب آیا کہ وہ اب تک جیل میں ہیں ۔کیا پڑھنا اس نظام کا نوحہ ۔ ٹیکنالوجی ، ان پڑھ معاشروں پر اپلائی ہو جائے تو کیا ہوتا ہے؟ ہر بندہ دانشور ہے ۔ ہر ان پڑھ اپنی الٹی سیدھی رائے بھی رکھتا ہے اور اسے درست بھی سمجھتا ہے۔ دوسری رائے کو نہ سنتا ہے نہ مانتا ہے اور نہ اس کا احترام کرتا ہے۔ ہر وہ بندہ جو میری رائے سے مختلف رائے رکھتا ہے وہ میرا دشمن ہے ، واجب القتل ہے اور میرے بس میں ہو تو میں اُس پر کفر کا فتویٰ لگا کر اُسے زندہ سنگسار کردوں۔ جب ہلاکو خاں نے بغداد پر چڑھائی کی تو وہاں بھی ایسی ہی فروعات پر مناظرے اور مباحث ہو رہے تھے۔ پھر کیا ہوا ؟ دجلہ کا پانی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوگیا اور کتابوں کی سیاہی سے کالا۔ ہمارے سیاستدان ،صحافی ، دانشور ، علماء اور وکلاء کیا سبھی اپنا کردار نبھانے میں ناکام ہوگئے کہ ہم 1947ء سے 2021ء تک اس حال اور مقام کو آگئے ۔ آبادی کا اندھا دھند تناسب بڑھتا رہا ، جتھے بنتے رہے ، ریاست سرنڈر کرتی رہی ۔کیا ہجوم بے قابو ہو رہا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر سیالکوٹ جیسے واقعات بار بار کیوں ہوتے ہیں؟ ضرورت ہے نظریاتی غسل کی ۔ تضادات سے کپڑا ہٹا کر نظریاتی دیمک کو پھپھوندی کو دھونے کی جو سوسائٹی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ آئیے سوچیں کہ میڈیا ، سوشل میڈیا ،نظریاتی اجتماعات کا سیلاب ، واعظ ، بھاشن ، تجزیوں ، تبصروں اور تبلیغ کی بارش کیا بے اثر ہوگئی کہ بدبو اور تعفن ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا ۔ کیوں؟ معاشرتی بیماریوں کے ایک ڈاکٹر کے مطابق ’’نہ نگاہ بلند ہے ، نہ سخن دلنواز ہے ، نہ جاں پرسوز‘‘ تو سوال یہ ہے کہ یہ رخت ِ سفر کیسے طے ہو؟ کون بنے امیر ِ کارواں؟ کسی چارہ گر کی تلاش ہے۔ اپنے جون ایلیاء صاحب کے مطابق : چارہ سازوں کی چارہ سازی سے ……گھر بدنام تو نہیں ہوگا ہاں دوا دو مگر یہ بتلا دو ……مجھے آرام تو نہیں ہوگا یہ کیا جگہ ہے دوستو۔۔۔ یہ کونسا دیار ہے ، حدِ نگاہ تک یہاں ، غبار ہی غبار ہے۔