مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے24رکنی سفیروں کا ایک وفد 17فروری 2021ء بدھ کو مقبوضہ جموںوکشمیر کے دو روزہ دورے پر سری نگر پہنچا۔ ایک پورادن سری نگر میں گزارنے کے بعد یہ وفد 18فروری جمعرات کوجموں وارد ہوا لیکن مقبوضہ کشمیر سے متعلق مودی اینڈ کمپنی کی سب تدبیریں واضح طور پر الٹی ہوگئیں کیونکہ اسلامیان کشمیر نے فقید المثال ہڑتال کر کے دنیاکوپیغام پہنچایا کہ بھارت جس چکمہ بازی سے کام لی کرغیرملکی سفرا ء کو سری نگر لے آیا ہے کہ کشمیری بھارت کی غلامی پر رضا مند ہیںوہ صریحاجھوٹ ہے۔ دراصل بھارت اس طرح کی مکروہ چالیں اس لئے چل رہا ہے تاکہ دنیا کو تاثر دے سکے کہ کشمیرمیںحالات نامل ہیں سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے ۔5 اگست 2019ء کوبھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں اٹھائے گئے اقدامات کے بعد غیر ملکی سفارت کاروں اوریورپی اراکین پارلیمانی کا جموں و کشمیر کا یہ تیسرا سرکاری دورہ ہے۔ مودی کی مکروہ چال پر پانی پھیرتے ہوئے۔ سری نگرکے گرینڈ پیلس ہوٹل میں میڈیا سے وابستہ افراد سے گفتگو کرتے ہوئے دنیا کے مختلف براعظموں 24 ممالک سے تعلق رکھنے والے بھارت میں مقیم ان سفارت کاروں نے کشمیر کے جاریہ دورہ کو زمینی صورتحال سے آگاہی حاصل کرنے کی جستجو قرار دیا اور کہا کہ ان کا کام کشمیرکی اصل صورتحال کو جاننااوراس کاجائزہ لینا ہے ۔سفیروں کاکہنا تھا کہ محض ایک دورہ یا محض کسی ایک مخصوص گروپ کے ساتھ ملاقات کرکے وہ حتمی رائے قائم نہیں کرسکتے بلکہ وہ مختلف ذرائع سے معلوما ت اکٹھا کرنا ہوں گی ۔ ان کا کہنا تھا کشمیر کی صورتحال کا صحیح صحیح اندازہ لگانے کیلئے ایک دورہ کافی نہیں ہے اور انہیں کوئی نتیجہ اخذ کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ معلومات چاہئے ہونگی۔ سفراء کا کہنا تھا ہمارا کام معلومات اکٹھا کرنا ہے، ان میں سے کچھ معلومات کو مشاہدات اور تاثرات کی صورت میں پبلک ڈومین میں ڈالا جاسکتا ہے اور کچھ کو صیغہ راز رکھ کر متعلقہ افراد یا فورموں تک پہنچایا جاتا ہے ۔ اس سے قبل 29 اکتوبر 2019ء کو بھی یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں موجود سخت گیر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے 30اراکین کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرایا گیا تھا جبکہ 9 جنوری 2020ء کومختلف ممالک کے سفیروں کے ایک وفد کو بھارتی فوج کی نگرانی میں دورہ کشمیرکرایاگیا لیکن ان وفودکی میزبانی قابض بھارتی فوج کا سری نگرمیں قائم ہیڈ ہیڈ کوارٹر 15 کور کرتا رہا ہے ۔ کشمیرپر دہلی کے مسلط کردہ گورنر کی انتظامیہ نے سری نگرشہرکے سونہ واراورڈھل جھیل یاڈل گیٹ علاقے جہاںسفیروںکے اس وفد کو ٹھرایا گیا تھا سے ایک دن قبل ہی تمام فوجی رکاوٹیں، بیرئیرز اور بڑی چیک پوسٹس ہٹا دیں گئیں تھیں تاکہ وفد کوتاثر دیاجا سکے کہ پورے کشمیرمیں حالات پوری طرح نامل ہیں۔ و اضح رہے سرینگرکے سونہ وار علاقے سے لیکر ڈل جھیل تک جسے ڈل گیٹ کہاجاتا ہے تمام ہوٹلز پر قابض بھارتی فوج کاقبضہ ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سفیروںکے وفد سے بھارت نے اپنے زر خرید چندایمان فروشوں اورننگ ملت افراد سے ملاقات کر وائی جنہیںچندیوم قبل سے ہی ڈل گیٹ کے ایک ہوٹل میںجمع کر رکھا گیا تھا۔ لیکن کشمیر کا سواد اعظم پہلے ہی کی طرح اس بار بھی اس وفدکی آمد سے لاتعلق رہاکیونکہ کشمیری عوام کومعلوم ہے اوروہ خوب اس بات کوجانتے ہیںکہ بھارت اپنی مسخ شدہ چہرے مہرے کو بہتر کرنے لیے اس طرح کی مشق فضول کرتارہتا ہے اور اس سے کشمیر کی زمینی صورتحال تبدیل ہونیوالی ہرگز نہیں اس لیے کشمیری اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ اس لئے وہ اس طرح کے دوروں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیںاوران پر بھارت کی ایسی فریب کاری کا کوئی اثر نہیں دکھائی دے رہا۔ البتہ ملت اسلامیہ کشمیر یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب انہیں اپنی دھرتی اوراپنے گھروں میںنقل و حمل کی آزادانہ اجازت نہیں تو بیرون ممالک سے لائے گئے وفود کے دورہ کشمیر کا کیا مقصد ہے۔ اسی لئے اسلامیان کشمیر نے 17فروری 2021ء بدھ کوکشمیرمیں ایک بار پھر فقیدالمثال ہڑتال مناکراس وفد تک اپنے اس پیغام کوپہنچانے کی کوشش کی کہ جب وہ بھارتی مکر کے شکارہوکر سری نگرپہنچتے ہیں تو انہیں اس شرط پر یہاں آجاناچاہئے کہ انہیں آزادانہ طورپرکشمیرکے عوام سے ملنے دیاجائے۔ پہلے توبھارت ہرگز یہ شرط ماننے کیلئے تیارنہیں ہوگا لیکن اگرکسی دبائوکے تحت وہ اس طرح کی شرط مانتا ہے توپھر ایسے وفود کے سامنے کشمیرمسلمان اپنادل کھول کرانہیں بھارتی بربریت کی داستانیں سناسکیں اوراپنے وجودپر لگے گھائو انہیں دکھا سکیں،وہ انہیں ان چھ سو قبرستان دکھا سکیں جو بھارتی سفاکیت کی گواہی دے رہے ہیں،وہ انہیں بے خانماہونیوالوں کی داستان الم سناسکیں اور وہ ایک لاکھ روتی بیوہ خواتین اورایک لاکھ سے زائد بلکتے یتیم بچوں سے ملواسکیں جو بھارتی بربریت کے شکارہوئے ہیں۔ کشمیرکی یہ اصل صورتحال دیکھنا ایسے وفود کیلئے اس لئے ضروری ہے تاکہ بھارتی دجل اوراس کے مکر کو سمجھ سکیںتاکہ وہ واپسی پر اپنے ممالک کے سربراہان سے صاف کہہ سکیں کہ وہ اقوام متحدہ میں پڑی کشمیرسے متعلق قراردادوں پرعملدرآمد کیلئے اپنی آوازبلندکرکے کشمیری عوام کوبھارت سے نجات دلا دیںتاکہ کشمیری عوام کو نسل کشی سے بچایاجاسکے۔ حیرت اورتعجب خیز بات یہ ہے کہ جو عالمی ادارے کشمیری عوام سے مل کاان کاحال احوال پوچھنا چاہتے ہیں انہیں بھارت کشمیرآنے نہیں دیتا۔ بھارت کی مکاری وعیاری دیکھیں کہ ایک طرف وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر تک رسائی دینے سے صاٖف انکار کررہاہے ۔ دوسری طرف دنیا میں اپنی لابی مضبوط بنانے کیلئے سفارتکاروں کو مقبوضہ کشمیر دورہ کروارہا ہے ۔ایسے دورے کروانے سے بھارت کا مقصدعالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا، انسانی حقوق کی پامالیوں سے توجہ ہٹانا،کشمیرکی بدترین صورتحال کو معمول پرہونے کا جھوٹا تاثر دینے کی کوشش کرنا ہے۔لیکن کاش ان سفارتکاروں کو کشمیریوں سے آزاد ملنے کی اجازت ہوتی توبھارت کولگ پتاجاتا۔