مولانا کی طرف سے رضاکارانہ معافی اور اخبار نویسوں کی طرف سے معقول رویے کے باوجود سوشل میڈیا پر ان کے مریدوں نے طوفان اٹھا رکھا ہے۔ ویسی ہی بدتمیزی اور ویسی ہی دشنام طرازی، جو سیاسی کارندوں کا دستور ہے۔۔۔اور وہ بھی رمضان المبارک میں۔ یا للعجب، یا للعجب۔ خطابت سے دنیا اگر بدل سکتی تو عطا ء اللہ شاہ بخاری کے زورِ کلام سے بدل جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ بر صغیر کی تاریخ کے سب سے بڑے خطیب تھے۔ عشا کے بعد آغاز کرتے تو نمازِ فجر تک سامعین کو مبہوت کیے رکھتے۔۔۔اس پر بھی تشنگی رہتی تو کبھی یہ شعر پڑھا کرتے شبِ وصال بہت کم ہے، آسماں سے کہو کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا زبان و بیان پر ایسی دسترس کہ سبحان اللہ۔ اردو، پنجابی اور سرائیکی ہی نہیں، عربی زبان میں بھی قدرتِ کلام۔ لحن ایسا کہ سننے والے ششدر رہ جاتے۔شب دیر تک تلاوت کرتے رہے۔ اتنے میں سسکیوں کی آواز سنی۔ پلٹ کر دیکھا تو جیل کا ہندو سپرنٹنڈٹ مودب کھڑا تھا۔ بولا:برداشت سے باہر ہے، بس کیجیے شاہ صاحب۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی ہے۔میانوالی ہی کے ایک جلسے میں کچھ دیر تلاوت فرماتے رہے۔ تقریر کا آغاز کیا تو کسی نے مزید کی فرمائش کی۔ فرمایا: کیا تاب لا سکو گے؟ ایک زمانے میں ان کی شخصیت کے بارے میں تھوڑی سی جستجو کی تھی۔جو کچھ میسر آیا، پڑھ ڈالا۔ ملتان میں ان کے خاندان سے رابطہ رکھا۔ ایک مکتبِ فکر کے دائرے میں مقید مگر سادہ اور نجیب لوگ۔ مذہبی جماعتوں پر جس زمانے میں ہن برس رہا تھا،انہیں بے نیاز پایا۔ ایک بار ارشاد کیا: جب سے قرآن کی ایک آیت پڑھی، پیسے گننا چھوڑ دیے ہیں ’’جمع مالا وعددہ‘‘ اس نے مال جمع کیا اور گنتا رہتا ہے۔ ان کے ایک مرید نے چاہا کہ امتحان لے۔ شاہ صاحب کی جیب سے دس روپے چرا لیے۔ سونے کی قیمت جب پچاس روپے تولہ ہوا کرتی۔ گویا دس پندرہ ہزار روپے۔ سید صاحب ویسے ہی شادکا م۔ ایک دن خدمت میں حاضر ہوا او رمعذرت کی۔ عمر بھر معمولی کھانا کھایا۔ موٹا جھوٹا پہنا اور معمولی مکانوں میں بسر کی۔ ان کی صاحبزادی نے لکھا ہے: ایک دن اس حال میں گھر لوٹے کہ پیرہن خاک آلود تھا۔ ناتوانی تھی، چلتے چلتے گر پڑے تھے۔ بیٹی رو دی او رپوچھا: کیا ہوا۔ فرمایا: آخر کو یہی ہوتا ہے۔ فرمایا کرتے: آدھی جیل میں بیت گئی، آدھی ریل میں۔ انہی دنوں کا قصہ مختار مسعود نے لکھا ہے۔ ملتان کے ڈپٹی کمشنر ہوئے تو شاہ صاحب سے ملاقات کی۔ان کی کتاب ’’آوازِ دوست‘‘میں یہ تذکرہ ایسی فصاحت سے رقم ہے کہ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ تیس روپے ماہوار کرایے کے گھر میں رہا کرتے۔ کچا مکان۔ سالہا سال کی بارشوں نے جس کی دیواروں کو ادھیڑ ڈالا تھا، مٹی گرتی رہتی۔ کسی نے پوچھا: شاہ جی، یہ کیا ہے؟ کہا: یہ وہ دولت ہے، جو کانگریس نے مجھے دی تھی۔دو مربع اراضی ڈپٹی کمشنر نے پیش کی، آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ مولانا طارق جمیل بھی کیا ایسے ہی بے نیاز ہیں؟ 1946ء کے انتخابات میں قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم قرار دینے والے مولانا مظہر علی اظہر نے کانگریس سے روپے لیے تو شورش کاشمیری کو پتہ چل گیا۔ شاہ جی سری نگر میں تھے۔ غصے میں بھرے شورش کشمیر جا پہنچے۔ لپک کر شاہ جی لاہور آئے۔ مجلسِ احرار کا دفتر ان دنوں نیلا گنبد لاہور میں تھا۔ مولوی صاحب سے شاہ صاحب نے استفسار کیا تو بولے: پارٹی کے لیے پیسہ لیا ہے، اپنی خاطر نہیں۔ شورش کے مطابق، جو خود بھی ایک عظیم خطیب اور نثر نگار تھے، کچھ روپیہ انہوں نے پارٹی کو دیا بھی لیکن کچھ فرزندوں کو عطا کر دیا کہ الیکشن لڑیں۔ شورش نے لکھا ہے: آنسوؤں کے ساتھ شاہ جی روتے رہے۔ ایک ہی جملہ زبان پر تھا: مولوی مظہر علی اظہر، تم نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کردی۔ سادہ اطوار تھے۔ دیو بند سے تعلق جڑا تو دائمی ہو گیا مگر ہندوستان کی تاریخ انہیں بھول نہیں سکتی۔ برصغیر کے خس و خاشاک میں جن لوگوں نے آگ بھڑکائی، عطاء اللہ شاہ بخاری ان میں سے ایک تھے۔قائدِ اعظم تو رہے الگ،نواب بہادر یار جنگ، ابو الکلام آزاداور مولانا حسین احمد مدنی کی آوازیں محفوظ ہیں، سید صاحب کی نہیں۔ وہ بے نیاز تھے۔ ایک بار خود ارشاد کیا تھا ’’میں کسی کا نہیں، اپنا نہ پرایا۔ میں میاں کے سوا کسی کا نہیں۔ بے خوف ایسے کہ رسول اللہ ؐ کی شان میں گستاخی ہوئی تو بے تاب ہو کر گھر سے نکلے اور طوفان اٹھا دیا۔ شہر کا نام یاد نہیں۔ ایک عظیم الشان مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: رسولِ اکرمؐ کی شان میں گستاخی کے جتنے بھی مرتکب ہیں، میں ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ گھڑ سوار فوج نے جلسہ گاہ کو گھیر رکھا تھا مگر بخاری کی آواز میں شیر کی سی گھن گرج باقی رہی۔ خوف ان کی کھال میں داخل نہ ہو سکتا۔ اسی اثنا میں ایک شخص جلسہ گاہ میں حاضر ہوا اور اطلاع دی کہ شاتم رسول کو اس نے مار ڈالا ہے۔ برسوں جیل میں پڑے رہتے۔ رہائی نصیب ہوتی توذکر تک نہ کرتے۔ وہ ان نادر لوگوں میں سے ایک تھے، خود ترسی جنہیں چھو کر نہیں گزری تھی۔ ایک غریب گھرانے میں جنم لیا۔ غریبوں کے ساتھ جیے اور اسی حال میں دنیا سے اٹھ گئے۔فرشتہ نہیں تھے لیکن جس کسی نے انہیں دیکھا چاہنے لگا۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ان عظیم اوصاف کے باوجود سیاست میں وہ ناکام کیوں رہے؟ وجوہات اور بھی ہیں لیکن یہ کہ متحدہ ہندوستان کے تصور کو مسلم بر صغیر نے مسترد کر دیا۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: جو ہلاک ہو اوہ دلیل سے ہلاک ہوا۔ جو جیا وہ دلیل سے جیا۔ مولانا طارق جمیل بہت مقبول ہیں۔ اس اصول کی پامالی کے باوجود کہ علما اور درویشوں کو دربار سے دور رہنا چاہئیے۔ بادشاہوں کے در پہ حاضر ہونے والا کوئی کتنا ہی اجلا کیوں نہ دکھائی دے، علم کی تحقیر کا مرتکب ہوتاہے۔ ان کی غیر معمولی مقبولیت کا سبب محض ان کی خطابت نہیں، یہ بھی ہے کہ فرقہ ورانہ مباحث سے دور رہتے ہیں۔ لہجہ شیریں پایا ہے اور اپنی غلطی مان لیتے ہیں۔ اپنی غلطی مان لی تو میڈیا نے انہیں معاف کر دیا۔ بیشتر اخبار نویسوں نے لکھا کہ ہم خطاکار لوگ ہیں۔آئے دن ہم سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، ہمیں سخت روّیہ اختیار نہ کرنا چاہئیے۔ احترام ان کا ملحوظ رکھنا چاہئیے۔ بعض اخبا رنویسوں نے تو اپنے ساتھیوں کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کی۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ مولانا کی طرف سے رضاکارانہ معافی اور اخبار نویسوں کی طرف سے معقول رویے کے باوجود سوشل میڈیا پر ان کے مریدوں نے طوفان اٹھا رکھا ہے۔ ویسی ہی بدتمیزی اور ویسی ہی دشنام طرازی، جو سیاسی کارندوں کا دستور ہے۔۔۔اور وہ بھی رمضان المبارک میں۔ یا للعجب، یا للعجب۔