کیا بتائوں تجھے کیسا ہے بچھڑنے والا ایک جھونکا ہے جو خوشبو سی اڑا جاتا ہے بعض لوگ واقعتاً خوشبو کی طرح ہوتے ہیں اور تو اور ان کی یاد میں کچھ اس سے کم نہیں ہوتی۔ آپ ایک آسودگی سی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ لوگ روشنی کی طرح بھی تو ہوتے ہیں جس میں آپ راستہ پا لیتے ہیں اور اس سے منزل کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ اصل میں یہ لوگ اس لیے ہوتے ہیں کہ لوگ انہیں کاپی کریں، یعنی ویسا بننے کی کوشش کریں۔ مشعل راہ انہی لوگوں کا استعارا ہے۔ آپ ذرا غور کریں تو روشنی اور خوشبو جیسے لوگ عام لوگ نہیں ہوتے۔ یہ سب آرزو اور ریاضت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے آپ سوچیں کہ کوکئی خودغرض، لالچی اور بدنیت آدمی کبھی ایسا ہوسکتا ہے، ہرگز نہیں۔ ایسا سوچنے والا تو خود سے نکلتا ہی نہیں۔ وہ جو خود سے بے نیاز ہو جاتا ہے وہ دوسروں تک پہنچ جاتا ہے۔ کبھی ایک بات مجھے ڈاکٹر ہارون رشید نے کہی تھی کہ وہ خود سے باہر نکل آئے ہیں اور اب وہ لوگوں کے لیے جئیں گے اور میں نے ان کے سامنے ایک شعر کہا تھا جو آج بھی ان کے کمرے کی دیوار پر آویزاں ہے: سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا یہ تمہید مجھے باندھنا پڑی کہ بزم چغتائی کے روح رواں طارق چغتائی نے ایک ریفرنس رکھا ہوا تھا جس میں مجھے خصوصاً دعوت دی گئی تھی کہ ظہیرالدین بابر پر بات کروں۔ شکیل جاذب کی صدارت میں ساتھ ہی ایک مشاعرہ بھی تھا۔ میں نے مگر مشاعرہ اس لیے نہیں پڑھا کہ اس کے لیے ایک موڈ بنا کر جانا پڑتا ہے۔ پھر جب آپ کئی لوگوں کے پڑھنے کے بعد جاتے ہیں تو آپ کو سننا ان پر فرض کیوں۔ خیر اس تعزیتی ریفرنس میں ظہیر صاحب کے دوست محمد اسلم صاحب بھی تشریف فرما تھے۔ انسان کچھ نہیں ہوتا اصل چیز اس کے اوصاف و فصائل ہوتے ہیں۔ وہی کہ: نام میں رکھا بھی کیا ہے کام دیکھا چاہیے حسن ہے تو حسن کو بے نام دیکھا چاہیے لوگ وہی کمال ہیں جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں یا پھر دوسروں کو جینے دیتے ہیں۔ اپنے لیے تو جانور بھی جیتے ہیں۔ دوسروں کا خیال وہی کرتے ہیں جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ یہ چیدہ لوگ ہوتے ہیں اور یہ انعام انہیں اپنی نیک نیتی اور صالحیت کی وجہ سے ملتا ہے۔ یہی اصل میں زندگی کرنے کاراز ہے کہ یہ اللہ کی دی ہوئی ہی تو ہے اس کے لیے بسر ہو یا پھر اس کے بندوں کے لیے۔ ایک کمال کا واقعہ ایک دوست نے بیان کیا کہ وہ ظہیرالدین بابر کے ساتھ ان کی گاڑی میں عدالت جا رہے تھے۔ راستے میں سڑک کے کنارے ایک بزرگ کھڑے تھے، ساتھ ہی ان کا سامان رکھا تھا۔ غالباً وہ کسی رکشہ وغیرہ کاانتظار کر رہے ہوں گے۔ ظہیر صاحب نے اس بزرگ کے پاس گاڑی روک دی۔ کہنے لگے کہ بزرگ سے پوچھیں کہاں جانا ہے۔ بزرگ ایک لمبی گاڑی دیکھ کر ذرا گھبرا سا گئے۔ بزرگ تو ایک طرف بات بتانے والا خود بھی حیران رہ گیا کہ اچھا خاصا عدالت کی طرف جاتے جاتے بزرگ کے پاس رکنے کا کیا تک۔ بزرگ بہت ہچکچائے مگر ظہیر صاحب نے انہیں گاڑی میں بٹھایا اور انہیں گھوڑ چھوڑ کر آئے۔ کہنے کو یہ ایک واقعہ ہے کہ ایسے واقعات ہم ماضی میں سنتے آئے ہیں کہ تب لوگوں میں انسانیت تھی۔ اب تو کوئی کسی کو سیدھا راستہ نہیں بتاتا۔ ڈرتے ہوئے کسی کو لفٹ نہیں دیتا کہ کہیں لٹ ہی نہ جائے۔ یہ خدمت کا رویہ بہت بڑا کارنامہ ہے اور کاروبار اللہ سے ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ خدمت سے خدا ملتا ہے۔ ’’میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا۔‘‘ اگر خدمت کا جذبہ ہمارے سیاستدانوں اور صاحبان حیثیت میں پیدا ہو جائے تو دریا جنت بن جائے۔ میں نے بزم چغتائی کے ریفرنس میں بھی یہی کہا کہ ظہیرالدین بابر صاحب تو لگتا ہے صرف خوشیاں بانٹنے آئے تھے۔ لوگوں کو عزت دیتے تھے۔ دوسروں کو عزت وہی دیتا ہے جس کے پاس یہ متاع وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ حالی نے کہا تھا: خاکساری اپنی کام آئی بہت ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا میں ظہیر صاحب پر نہیں انسانی اقدار پر بات کررہا ہوں کہ وہ انہیں نصیب تھیں۔ وہ کسی کی امید ٹوٹنے نہیں دیتے تھے۔ کوئی آپ سے امید باندھ لے تو پھر آپ اس کے لیے بہت اہم ہو جاتے ہیں۔ ہم تو بات بات پر لوگوں کے دل آزاری کردیتے ہیں۔ دوسروں کو اذیت دے کر ایک سرور محسوس کرتے ہیں۔ وہی لوگ کمال ہوتے ہیں جو اپنی خواہشات دبا لیتے ہیں اور دوسروں کی آرزوئوں میں رنگ بھر دیتے ہیں۔ ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ شعرا اور ادبا کا ظہیرالدین بابر کو خراج تحسین پیش کرنا اس لیے ہے کہ انہوں نے ادب اور ادیبوں سے محبت کی۔ انہوں نے اپنے چینل سے ہفتہ وار مشاعرہ کا اجرا کیا جس کے تحت ڈیڑھ صد مشاعرے ہو چکے ہیں اور ملک بھر سے شعرا اس میں شریک ہوتے ہیں۔ مجھے اس لیے بلایا گیا کہ میں اس غزل مشاعرہ کا میزبان ہوں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ مضافات کے شعراء کو بھی موقع دیا جائے۔ مشاعرہ کی ایک درخشندہ روایت ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ظہیر صاحب ہر مشاعرے میں اپنے دوستوں کے ساتھ موجود ہوتے اور جی بھر کر ان کو داد دیتے۔ بعد میں پرتکلف کھانا ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک الگ دبستان ہے۔ ان کے جگر کی پیوندکاری بھارت میں ہوئی جو کامیاب نہ ہوئی۔ ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ وہ مذہبی آدمی تھے۔ میں نے کم ہی ایسے لوگ دیکھے جو ان کی طرح پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ وہ مولانا سمیع الحق کے نہایت قریبی دوستوں میں تھے اور ان کا جنازہ بھی مولانا سمیع الحق نے پڑھایا تھا۔ وہ اہل دل اور اہل بصیرت تھے۔ کسی نے ظہیر صاحب کے حوالے سے لکھ کر بھیجا ہے: اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے کچھ خواب تھے ایسے کہ بکھرنے کے نہیں تھے ویسے تو سب کچھ ہی خواب لگتا ہے یہ تو ہم کا کارخانہ ہے یہاں وہی ہے جو اعتبار کیا