پاکستانی بینکوں میں گزشتہ ایک ماہ سے اے ٹی ایم کارڈ ہولڈر کھاتے داروں کا ڈیٹا چوری ہونے کی مسلسل اطلاعات سامنے آ رہی ہیں اور سینکڑوں افراد کے کھاتوں سے لاکھوں روپے جعل سازوں نے اے ٹی ایم کارڈ زکے ذریعے نکلوا لئے ہیں لیکن بینکوں کی جانب سے کھاتے داروں کی اس سلسلہ میں نہ کوئی رہنمائی کی جا رہی ہے اور نا ہی ان کی رقوم کی واپسی کے حوالے سے شکایات کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔اگرچہ بہت حد تک متاثرہ افراد نے بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے تاہم یہ بینکوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ متاثرہ افراد کی شکایات پر توجہ دیںاور ان کی رقوم کی واپسی کے لیے پیش رفت کریں۔ سٹیٹ بنک کی طرف سے محض یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ کھاتے دارکسی بھی فون کال پر اپنے بنک اکائونٹس کے بارے میں معلومات نہ دیں بینکوں کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اپنے سکیورٹی نظام کو بہتر بنائیں اور اے ٹی ایم مشینوں پر پن کوڈ کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا طریقہ کار بھی وضع کریں جس کے ذریعے جعل سازی سے ہونے والی ایسی ڈیجیٹل ڈکیتیوں کی روک تھام کی جا سکے۔ دوسرے یہ کہ بنک کھاتے داروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اے ٹی ایم پن کوڈ کو صرف اپنے تک محدود رکھیں یا اسے لکھ کر بھی اپنے پرس اور کاغذات وغیرہ میں نہ رکھیں نہ موبائل میں کوئی ایسا ڈیٹا رکھیں جس کے چوری ہونے سے انہیں مالی نقصان کا اندیشہ ہو۔کھاتے داروں سے بھی زیادہ یہ بنکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اکائونٹ ہولڈرز کی رقوم کی حفاظت کریں ۔ یہ رقوم بنکوں کے پاس امانت ہیں اور لوگ اپنا روپیہ پیسہ تحفظ کے لیے ہی بنکوں میں رکھتے ہیں۔